
باتیں میرے حضور کی
سخاوتِ مصطفیٰ کے اثرات
*مولانا عمر فیاض عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025
حضور سیّد عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تبلیغِ حق اور اشاعتِ اسلام کے لئے مختلف انداز اپنائے، انہی میں سے آپ کا اندازِ سخاوت بھی ہے جس کے ذریعے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لوگوں کو حق کے قریب کیا۔ سیّدُالاَسخیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مخلوقِ الٰہی میں سب سے بڑے دریا دِل اور سخی ہیں۔ سخاوت کرنے میں آپ برسنے والے بادل اور موسلادھار بارش کی طرح ہیں۔ پاس نہ ہوتا تو اُدھار لے کر بھی دوسروں پر خرچ کرتے اور اپنی ضروریات کے باوجود دوسروں کو دے دیتے۔ ہر آنے والے کے لئے آپ کا دسترخوان کُھلا ہوتا۔ مہمان کی تکریم کرتے، بھوکوں کو کھانا کھلاتے، بےلباس کو لباس فراہم کرتے، بے چین کی بے چینی دور کرتے، پریشان حال کا مَداوا کرتے، آفات میں گھِرے افراد کی داد رَسی فرماتے، مسکین کے ساتھ بھلائی ، یتیم کی کفالت اور کمزور کی مدد فرماتے۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جود و کرم اور سخاوت کی علامت ہیں۔عرب کے بڑے بڑے نامور سخیوں ” حاتم طائی، ہرم بن سنان، خالد بن عُبَیْدُاللہ اور کعب بن امامہ ایادی“ کا بھی آپ سے کوئی موازنہ نہیں کیونکہ آپ جو بھی دیتے وہ بغیر کسی دُنیاوی مفاد کے صرف اللہ کے لئے دیتے۔ یہی و جہ ہے کہ پھر آپ کی سخاوت کے بڑے شاندار ثمرات و نتائج دیکھنے میں آئے۔ چند واقعات اور اُن کے نتائج ہم یہاں ذکر کررہے ہیں۔اُنہیں پڑھئے اور ایمان تازہ کیجئے:
ناپسند یدگی محبوبیت میں بدل گئی
غزوۂ حُنین کے موقع پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صفوان بن امیہ کو تین سو بکریاں عطا فرمائیں۔ اِس سخاوتِ مصطفیٰ کا اثر یہ ہوا کہ یہی صفوان بن امیہ جو پہلے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پسند نہ کرتے تھے، سخاوتِ مصطفےٰ سے متأثر ہوکر کہنے لگے: رَسُوْلُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حُنَین کے دن مجھے مال عطا فرمانے لگے حالانکہ آپ میری نظر میں مَبْغُوض ترین تھے۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے عطا فرماتے رہے یہاں تک کہ میری نظر میں محبوب ترین ہوگئے۔ ([1])
قوم کو دعوتِ ایمان
ایک شخص کو دوپہاڑوں کے درمیان بھری ہوئی بکریوں کا ریوڑ عطا فرمایا تو اس نے اپنی قوم میں جا کر کہا: اے میری قوم! تم اسلام لے آؤ !اللہ کی قسم! محمد ایسی سخاوت فرماتے ہیں کہ فَقْر (یعنی مُحتاجی) کاخوف نہیں رہتا۔([2])
حاتم طائی کی بیٹی سِفَّانَہ اوربیٹے عدی کا قبولِ اسلام
ربیع الآخر 9ہجری میں پیغمبرِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت مولا علی رضی اللہُ عنہ کی ماتحتی میں 150 سواروں کا لشکر قبیلہ ’’ طی ‘‘ کی جانب بھیجا۔ اس حملے میں قبیلے کے اونٹ، بکریاں اور قیدی ہاتھ آئے۔ ان قیدیوں میں مشہور سخی حاتم طائی کی بیٹی سفانہ بھی تھیں جبکہ ان کے بھائی عدی بن حاتم جو کہ قبیلے کے سردار تھے، ملک شام فرار ہوگئےتھے۔حضرت سفانہ رضی اللہُ عنہا نے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی: میں حاتم طائی کی بیٹی ہوں اور میرے والد کئی اوصافِ حمیدہ کے مالک تھے لہٰذا آپ مجھے آزاد کر دیں اور واپس اپنے قبیلے جانے دیں۔یہ سن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام سے فرمایا کہ اس لڑکی کو آزاد کر دو کیونکہ اس کاباپ اچھے اخلاق کو پسند کرتا تھا۔ پھرآپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں آزاد بھی کردیا اور سواری کے لئے بھی انتظامات کروادیئے۔([3])
اس حسنِ اخلاق و سخاوت کا اُن پر ایسا شاندار اثر پڑا کہ انہوں نے واپس جاکر اپنے بھائی عدی سے کہا کہ میں نے حضرت محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے زیادہ سخی وکریم کسی کو نہیں دیکھااور میری رائے یہ ہے کہ تم ان سے جاکر ملو ۔ اوصاف و کمالاتِ مصطفیٰ کو سُن کرعدی بن حاتم بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تکیہ دیا اور خود زمین پر تشریف فرما ہوگئے۔یہ اخلاق دیکھ کر حضرتِ عدی بن حاتم رضی اللہُ عنہ ایمان لے آئے اوران کی بہن سِفّانہ بنت حاتم رضی اللہُ عنہا بھی ایمان لے آئیں۔([4])
قبیلہ ہوازن کے رئیس اعظم مالک بن عوف کا قبولِ اسلام
شوال 8 ہجری میں غزوۂ حنین پیش آیا، اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو بہت بڑی فتح عطا فرمائی۔ ([5])مالِ غنیمت میں 24 ہزار اونٹ، 40 ہزار سے زائد بکریاں، کئی من چاندی،اور چھ ہزار قیدی تھے۔([6])جنگ کے بعدقبیلہ ہوازن کا ایک وفد اپنے قیدیوں کی رہائی کے لئے آیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تمہارا سردار مالک بن عوف کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ”ثقیف“ کے ساتھ طائف میں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ مالک بن عوف کو خبر کردو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آ جائے تو میں اس کا سارا مال اس کو واپس دے دوں گا۔ اس کے علاوہ اس کو ایک سو اونٹ اور بھی دوں گا۔
مالک بن عوف کو جب یہ خبر ملی تو وہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہو گئے ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کا تمام مال اُن کو واپس کردیا اور وعدے کے مطابق ایک سو اونٹ مزید بھی عنایت فرمائے۔ حضرتِ مالک بن عوف رضی اللہُ عنہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اُس خلقِ عظیم سے بے حد متأثر ہوئے اور آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا جس کے دو اشعار کا ترجمہ یہ ہے: ”تمام انسانوں میں حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مثل نہ میں نے دیکھا نہ سنا، جو سب سے زیادہ وعدہ کو پورا کرنے والے اور سب سے زیادہ مالِ کثیر عطا فرمانے والے ہیں۔ اور جب تم چاہو اُن سے پوچھ لو وہ کل آئندہ کی خبر تم کو بتا دیں گے۔“([7])
قارئینِ کرام ! پیغمبر ِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شانِ سخا وت کے کیا کہنے! آپ کی اِن سخاوتوں میں بڑی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔ اِن کے بہت مثبت فوائد سامنے آئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سخاوت کی بدولت اسلام کا دائرہ بھی وسیع ہوا جس کی واضح مثال گزری کہ جس شخص کو بکریوں کا ریوڑ دیا گیا اس نے اپنی قوم سے کہا کہ ”دائرہ اسلام میں آجاؤ ،حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس قدر عطا فرما تے ہیں کہ فقر کا کوئی اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا۔“
ایک دوسرے کو تحفے تحائف کے تبادلے سے دِلوں کی نفرتیں دور ہوتی ہیں ۔باہمی محبت بڑھتی ہے اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن جاتا ہے حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سخاوت کی صورت میں یہ بات عملی طور پر نظر آتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عطا سے ارتکازِ دولت کا خاتمہ ہوا، اندرونی اور بیرونی طور پر ریاست مضبوط ہوئی، لوگ جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہونے لگے، مکہ فتح ہو گیا، اسلام کی ترویج واشاعت ہوئی،معاشرہ ایک امت بن گیا، مسلمان معاشی اور معاشرتی طور پر خوشحال ہو گئے، دولت کسی ایک طبقے میں نہیں رہی بلکہ امیر غریب، متوسط غرض ہر طرح کے طبقے کے افراد ا س سے استفادہ کرنے لگے،سفید پوشوں کی عزتِ نفس محفوظ رہی۔ الغرض ”حضور کی صفتِ نرم دلی ورحم دلی کا اظہار، بخل وکنجوسی کی روک تھام ومذمت، غریبوں مسکینوں، یتیموں کی خیرخواہی، راہِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کی ترغیب، گھروالوں کی خرچ کرنے کے حوالے سے تربیت، صحابہ کی خرچ کرنے کے حوالے سے تربیت، احترامِ مسلم کا جذبہ بیدار کرنا اور اسے تقویت دینا، تحقیر ِمسلم کا خاتمہ کرنا، مالی غرور وتکبر کاخاتمہ کرنا “۔ یہ تمام ثمرات آپ کی شانِ سخا کی برکت سے ظاہر ہوئے۔ آج کے دور میں بھی امتِ مسلمہ کو چاہئے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت سے عطا و سخاوت کے اعلیٰ ترین پہلو کو اپنائے۔ دولت جمع نہ رکھے بلکہ اُسے بغیر کسی غرض اور دِکھاوے کے رضائے الٰہی کی خاطر خلقِ خدا پر خرچ کرے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ذمہ دار دعوتِ اسلامی کے شب و روز، کراچی
Comments