مدرسہ یا اسکول سے چھٹی کرنے پر فائن لینا کیسا؟مع دیگر سوالات

دار الافتا ء اہلِ سنت

* مفتی فضیل رضا عطاری

ماہنامہ جنوری2022

(1) مدرسہ یا اسکول سے چھٹی کرنے پر مالی جرمانے کا حکم

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بچوں سے مدرسے یا اسکول کی چھٹی کرنے پر فائن یعنی مالی جرمانہ لینا جائز ہےیا نہیں؟اورجورقم بطورِجرمانہ لے چکے اسے ادارے کے استعمال میں لاسکتے ہیں یانہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

بچے ہوں یا بڑے ، ادارے سے کسی دن کی چھٹی کرنے کا معاملہ ہو یا کوئی دوسرا معاملہ ، بہر حال مالی جرمانہ لینا جائز نہیں کیونکہ یہ تعزیر بالمال ہے اور تعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل کرنا جائز نہیں۔ نیز یہ باطل طریقے سے اور کسی شرعی وجہ کے بغیر دوسرے کا مال کھانا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے سے منع فرمایا ہے۔

یاد رہے کہ جرمانہ لینے والے کو جرمانے کی رقم میں کسی قسم کا تصرف کرنا یعنی اپنے یا ادارے وغیرہ کے کاموں میں استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں بلکہ اس پر فرض ہے کہ رقم اس کے مالک کو واپس کرے ، اگر مالک زندہ نہ ہو تو اس کے وارثوں کو دے ، اگرورثاء بھی زندہ نہ ہوں یا مالک یا اس کے ورثاء کا تلاش کرنے کے باوجود پتہ ہی نہ چلے تو پھر کسی شرعی فقیر کو ثواب کی نیت کے بغیر دے دے۔ اس دینے میں صدقہ کے ثواب کی نیت نہیں کر سکتا ، ہاں حکمِ شرعی پر عمل کے ثواب کی نیت کر سکتا ہے۔

تنبیہ : جرمانہ بالغ کی رقم سے وصول کیا جائے تب تو ناجائز ہونے کی وجہ وہی ہے جواوپر بیان ہوئی۔ البتہ اگر نابالغ اپنی ذاتی ملکیت کی رقم سے جرمانہ ادا کرے تو اس صورت میں ناجائز ہونے کا حکم اور سخت ہوجائے گاکہ یہ ایساتصرف ہے جس میں نابالغ کا سراسر مالی نقصان ہے کہ بچے کے مال کو کسی عوض کے بغیر ہلاک کرنا ہے اور اپنے مال میں سراسر نقصان والےکسی تصرف کا نابالغ کو شرعاً اختیار نہیں ، اگرچہ اپنی خوشی سے کرےیا اپنے ولی کی اجازت سے کرے۔ اسی بنیاد پر فقہاء کرام نے نابالغ کے ہبہ و صدقہ کو جائز تسلیم نہیں کیا بلکہ ہبہ وصدقہ کی چیز ہی واپس کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ، حالانکہ ہبہ اپنی اصل میں جائز عمل ہے جبکہ یہاں جرمانہ لینا شرعاً ہی ناجائز عمل قرار پایا تو نابالغ سے اس کی رقم سے جرمانہ لینا کسی طور پر بھی حلال نہیں ہوسکتا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2) پہلی رکعت میں سورۃ الناس پڑھ لی تو دوسری میں کونسی سورت پڑھیں؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی نے نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ الناس کی تلاوت کر لی تو اب اگلی رکعت میں وہ کس سورت کی تلاوت کرے گا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

قرآنِ پاک کی تلاوت ترتیب سے کرنا واجب ہے جبکہ قصداً خلافِ ترتیب پڑھنا مکروہِ تحریمی ، ناجائز و گناہ ہے اور بلاضرورت فرض نماز کی دو رکعتوں میں ایک ہی سورت کی تکرار ، مکروہ تنزیہی و خلافِ اَوْلیٰ ہے مگر گناہ نہیں اور اگر ضرورتاً ہو تو مکروہ تنزیہی بھی نہیں ، جبکہ نوافل میں سورتوں کی تکرار مطلقاً مکروہ نہیں۔

لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اس نمازی کو اگلی رکعت میں بھی سورۃ الناس ہی کی تلاوت کرنی واجب ہے ، پیچھے سے تلاوت نہیں کر سکتا اور چونکہ یہ تکرار ضرورت کی بناء پر ہو گی لہٰذا مکروہ بھی نہیں ، البتہ قصداً فرض نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ الناس کی تلاوت نہیں کرنی چاہئے تاکہ تکرار کی ضرورت نہ پڑ جائے۔

یاد رہے کہ اگر کسی نے نماز میں خلافِ ترتیب تلاوت کر لی تو اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہو گا کیونکہ سجدۂ سہو نماز کے واجبات میں سے کوئی واجب بھولے سے ترک کرنے سے لازم ہوتا ہے ، جبکہ ترتیب سے تلاوت کرنا نفسِ نماز کا واجب نہیں بلکہ تلاوت کا واجب ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(3)امام اونچی جگہ پر ہو تو کیا نماز ہوجائےگی؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ میں ایک مسجدمیں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں۔ گرمی کے موسم میں ہماری مسجدمیں نمازباہرصحن میں ہوتی ہے اورمیں نماز پڑھانے کے لئے جس جگہ کھڑا ہوتاہوں وہ جگہ چار انگل (تقریباً تین انچ)اونچی ہے اور جس جگہ مقتدی کھڑے ہوتے ہیں وہ جگہ نیچے ہے تواس صورت میں نماز کاکیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مقتدیوں کی بنسبت امام کا حدِ امتیاز تک اونچا کھڑا ہونامکروہ ہے۔ پھراگر اونچائی قلیل ہے تونماز میں کراہت تنزیہی پیدا ہوگی یعنی گناہ تو نہیں لیکن امام کا اس سے بچنا بہتر ہے جبکہ کثیر اونچائی کی صورت میں کراہت تحریمی کا حکم ہوگا اور اس صورت میں نماز واجب الاعادہ ہوگی۔ اورتین انچ کی بلندی ایسی قلیل حد تک ہے جس سے امتیاز ظاہر ہوتا ہے اس لئے کراہت تنزیہی کا حکم ہوگا۔

لہٰذا آپ کوچاہیےکہ مقتدیوں سے ممتازجگہ پرکھڑے نہ ہوں اگراس اونچی جگہ پرکھڑے ہوناہی ہو تواپنے ساتھ ایک صف بنالیں اس سےکراہت ختم ہوجائے گی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* دار الافتاء اہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code