ربیع الاول کی سجاوٹ اور فلاحی کاموں میں حصہ

دارالافتاء اہلِ سنّت

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

(1)ربیع الاول کی سجاوٹ اور فلاحی کاموں میں حصہ

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میلاد شریف کے موقع پر جو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے سجاوٹ وغیرہ کی جاتی ہے ، بعض لوگ اس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے بجائے فلاحی کاموں مثلاً کسی حاجت مند کی حاجت پوری کرنے ، کسی غریب کی بیٹی کی شادی کرنے وغیرہ کاموں میں اتنی رقم لگادی جاتی۔ حالانکہ ان لوگوں کا اصل مقصود جائز سجاوٹ وغیرہ سے روکنا ہوتا ہے ، فلاحی کاموں میں رقم لگوانا مقصود نہیں ہوتا۔ اس طرح کرنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

میلاد شریف کے موقع پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے سجاوٹ و چراغاں وغیرہ کرنا شرعاً جائز ہے اوراچھی نیت مثلاً اللہ تعالیٰ کی نعمت کا چرچا ، نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   سے اظہارِ محبت وغیرہ ہو تو باعثِ ثواب بھی ہے۔ اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے ، جائز کاموں پر اپنا مال خرچ کرنا شرع میں ممنوع نہیں ہے۔ فلاحی کاموں کی وجہ سے زندگی کے دوسرے شعبہ جات میں اس طرح کی پابندیاں ایسے لوگ نہیں لگاتے مثلاً ایسے لوگ یہ نہیں کہتے کہ : “ لوگ اینڈرائیڈ  موبائل کے بجائے سادہ معمولی قیمت والا موبائل لیں اور زائد رقم کو فلاحی کاموں پر خرچ کریں۔ گھروں میں ٹائلیں ، مہنگے فانوس ، قالین ، پردے ، صوفے ، پلنگ ، اے سی ، کولر وغیرہ استعمال نہ کئے جائیں ، کوٹھیوں اور بنگلوں وغیرہ بڑے گھروں میں کوئی نہ رہے بلکہ بقدرِ ضرورت رقم استعمال کرکے بقیہ رقم فلاحی کاموں میں لگائی جائے۔ اسی طرح عمدہ کپڑے کوئی نہ پہنے ، عمدہ کھانے کوئی نہ کھائے ، اچھے اسکولوں میں بچّوں کو کوئی نہ پڑھائے ، مہنگی گاڑیوں میں سفر کوئی نہ کرے ، مہنگی گاڑیاں کوئی نہ خریدے ، بقدرِ ضرورت یہ چیزیں لے کر بقیہ رقم فلاحی کاموں میں لگائی جائے ، شادی کے موقع پر مہنگے ہوٹلوں میں عمدہ کھانوں وغیرہ کا انتظام نہ کیا جائے ، جہیز کے نام پر کثیر رقم خرچ نہ کی جائے بلکہ جس طرح نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے اپنی شہزادی سیّدہ فاطمہ  رضی اللہُ عنہا کو سادہ جہیز دیا ، اسی طرح آج بھی سادہ جہیز دیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ “ بلکہ زندگی کے ان شعبہ جات میں خود یہ لوگ اپنے معاملے میں بھی اس اصول کو نہیں اپناتے ، خود اپنی ذات کے لئے ساری سہولیات اپناتے ہیں ، اس وقت غریبوں کی طرف بالکل دھیان نہیں جاتا ، نیز شادی ، جشنِ آزادی وغیرہ مواقع پر ہونے والی سجاوٹ و لائٹنگ پر بھی ان لوگوں کو غریبوں کا خیال نہیں آتا ، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان لوگوں کا مقصد صرف اور صرف نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی پیدائش مبارک کے موقع پر خوشی کرنے سے ، سجاوٹ وغیرہ کرنے سے لوگوں کو روکنا ہے۔ حالانکہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو زینت لوگوں کے لیے نکالی اسے کس نے حرام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت کا چرچا کرنے کاحکم فرمایا ہے اورنبیِّ رحمت   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   یقیناً اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں اور اس عمل سے آپ  علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا خوب چرچا ہوتا ہے۔ نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے ہر پیر شریف کوروزہ رکھ کر اپنا میلاد شریف منایا ہے۔  صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  مسجد میں حلقہ لگائے اس نعمتِ عظمیٰ اور اس کے صدقے ملنے والی ہدایت پر اللہ کا شکر ادا کررہے تھے ، جس  پر رب رحمٰن جلّ جلالہٗ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب مُصَدِّق

محمدعرفان مدنی مفتی محمد ہاشم خان عطاری

(2)نامِ رسالت یا گنبدِ خضریٰ والا کیک

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ربیع الاول شریف میں کئی لوگ جشنِ عیدمیلادالنبی کے موقع پر کیک (cake) کاٹتے ہیں تو اس کیک پر نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کا نام مبارک ، گنبدِ خضریٰ شریف یا کعبہ شریف کا نقشہ بنا ہوتا ہے ، اس کو چھری وغیرہ سے کاٹا جاتا ہے ، کیا اس طرح کرنا درست ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

کیک (cake) پر نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کا نام مبارک ، کعبہ معظمہ یا گنبدِ خضریٰ کانقشہ بنا کراس پرچھری چلانا ، اس کو کاٹنا ادب کے خلاف ہے ، اس میں یہ قباحت ہے کہ لوگ کہیں گے : کیک کاٹنے والے نے گنبدِ خضریٰ یا کعبۂ معظمہ کو کاٹ دیا ، ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ، ان کو کھالیا ، معاذ اللہ۔ اور حکم شرع یہ ہے کہ جس طرح آدمی کے لئے برے کام سے بچنا ضروری ہے ، یوہیں برے نام و بری نسبت سے بھی بچناچاہیے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب مُصَدِّق

ابوواصف محمد آصف عطاری مفتی محمد ہاشم خان عطاری

(3)ربیع الاول کی سجاوٹ اور بدنگاہی کا اندیشہ

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ ماہِ ربیع النور میں میلاد النبی کے سلسلے میں جو گلیاں اور بازار سجائے جاتے اور لائٹنگ کی جاتی ہے تو عورتیں اسے دیکھنے آتی ہیں جس سے بدنگاہی کا احتمال ہوتا ہے۔ لہٰذا اس مسئلے کی وجہ سے سجاوٹ چھوڑ دی جائے یا جاری رکھی جائے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سیدُ المرسلین ، خاتم النبیین   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے میلاد مبارک کے مہینے ربیع الاول میں مسلمان بالخصوص اللہ تعالیٰ کے اس عمیم و عظیم فضل و رحمت کے حاصل ہونے پر بطورِ تشکر ، اظہارِ مسرت و تحدیث نعمت کے لئے مروّجہ جائز طریقے جیسے لائٹنگ کرنا اور پھولوں کی لڑیوں وغیرہ سے گلی محلے سجانا وغیرہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ اُمور بلاشبہ شرعاً جائز و مستحسن ہیں جس پر قرآن و سنّت اور علمائے اُمّت سے کثیر دلائل موجود ہیں۔ رہی بات ان چند غیر شرعی باتوں کی کہ جو اس معاملے میں بعض جاہل اور ناسمجھ لوگوں کی طرف سے صادر ہوتی ہیں ، جن میں سے بعض جگہوں پر بے پردہ عورتوں کا سجاوٹ دیکھنے آنا ہے ، تو اس بنا پر وہ عمل کہ شریعت کی نظر میں مستحسن و خوب ہے ہر گز ممنوع و ناجائز نہ ہو جائے گا۔ بلکہ وہ اچھا عمل باقی رکھتے ہوئے اس میں آنے والی خرابی اور پیدا ہوجانے والی خامی دور کی جائے گی۔ جیسا کہ ایک ادنیٰ فہم رکھنے والا شخص بھی اتنی سمجھ رکھتا ہے کہ مثلاً شادی جو یقیناً ایک اچھا فعل ہے اسے لوگوں کی جاہلانہ غیر شرعی رسوم کی وجہ سے حرام قرار نہیں دیا جائے گا ، بلکہ اس میں پائی جانے والی ناجائز باتیں ہی ختم کرنے کا کہا جائے گا۔ اسی طرح عام فہم انداز میں بات سمجھانے کے لئے مثال دی جاتی ہے کہ کپڑے پر نجاست لگ جائے تو کپڑا نہیں پھاڑا جائے گا بلکہ صرف نجاست دور کی جائے گی ، اور بہت موٹی عقل والے کو بھی یہ موٹی سی مثال ضرور سمجھ آ سکتی ہے کہ ناک پر مکھی بیٹھتی ہو تو خواہ کتنی ہی بار ایسا کرنا پڑے مکھی ہی اڑائی جائے گی ، ناک ہر گز نہیں کاٹیں گے۔ لہٰذا سوال میں مذکور صورت میں بھی بہرحال ان عورتوں کے وہاں آنے کے سدِّ باب کے لئے ممکنہ ضروری اقدامات کئے جائیں اور اپنا یہ اچھا عمل جاری رکھتے ہوئے اسے حتی الامکان غیر شرعی باتوں سے بچایا جائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب مُصَدِّق

ابو رجا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی مفتی محمد ہاشم خان عطاری


Share