
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025
(1)عقیقے کی بکری کے پیٹ سے بچہ نکلا تو عقیقہ ہوگا یا نہیں؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے اپنی بیٹی کا عقیقہ کرنا تھا تو کل منڈی سے ایک بکری لایا، ذبح کرنے کے بعد پتا چلا کہ وہ حاملہ تھی اور اس کے پیٹ سے مرا ہوا بچہ نکلا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس صورت میں بیٹی کا عقیقہ ہوگیا یا نہیں؟ نیز پیٹ سے جو مرا ہوا بچہ نکلا وہ حلال ہے یا حرام؟ اس کی بھی وضاحت کردیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دریافت کی گئی صورت میں آپ کی بیٹی کا عقیقہ ہوگیا کیونکہ عقیقہ درست ہونے کے لیے جانور کا حاملہ نہ ہونا شرط نہیں بلکہ اس کے لئے انہیں تمام شرائط کا لحاظ ضروری ہے کہ جو قربانی کے جانور میں ہیں اور حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے البتہ حاملہ ہونا معلوم ہو تو بہتر یہ ہے کہ اس کے علاوہ دوسرا جانور قربان کیا جائے تو یہی تفصیل عقیقہ میں جاری ہوگی۔
نیزجانور ذبح کرنے سے پیٹ میں موجود بچہ حلال نہیں ہوجاتا بلکہ زندہ پیدا ہونے کی صورت میں اسے الگ سے ذبح کرنا ہوگا اور اگر مرا ہوا پیدا ہوا تو وہ مردار ہے، صورت مسئولہ میں بھی چونکہ بچہ مرا ہوا پیدا ہوا لہٰذا وہ مردار ہے اسے کھانا حلال نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجیب مصدق
مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی مفتی فضیل رضا عطاری
(2)دہ در دہ سے کم پانی میں بے وضو شخص کاہاتھ پڑنے سے پانی کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ پچھلے دنوں ہمارے ہاں کافی بارش ہوئی تو ہم نےگھر میں رکھے ہوئے فارغ ڈرم میں بارش کا پانی بھرلیا کہ وضو وغیرہ میں استعمال کریں گے اور پھر ہم استعمال بھی کرتے رہے، ایک دن جب میں فجر کی نماز کے بعد واپس آیا تو بچوں کی امی نے پوچھا کہ آپ نے وضو کس پانی سے کیا؟ میں نے بتایا کہ ڈرم کے پانی سے،تو انہوں نے بتایا کہ رات کو میں نے غلطی سے بے وضو ہاتھ اس میں دھو لیے تھے، آپ سوئے ہوئے تھے تو اس وقت نہیں بتایا، یہی ذہن تھا کہ جب فجر میں اٹھیں گے تو بتادوں گی۔اس صورت میں میری فجر کی نماز ہوئی یا نہیں؟
نوٹ:ڈرم دہ در دہ سے چھوٹا ہے اوربچوں کی والدہ اگرچہ عام عورتوں کی طرح شرعی معاملات میں کوتاہی کرجاتی ہیں مگر ان کی اس بات پر میرا بھی غالب گمان یہ ہے کہ وہ درست کہہ رہی ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دہ در دہ سے کم پانی میں بے وضو شخص کا بے دھلا ہا تھ پڑ جائے تو وہ پانی مستعمل ہوجاتا ہے اور مستعمل پانی صحیح مذہب کے مطابق خود اگرچہ پاک ہے مگر اس میں نجاستِ حکمیہ دور کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی،اس لیے اس سے وضو و غسل نہیں ہوتا۔ نیز پانی وضو و غسل کے قابل ہے یا نہیں؟ اس خبر کا تعلق دینی امور سے ہے اور اس میں ایک عادل شخص کی خبر معتبر ہوتی ہے اگرچہ عورت ہو اور اگر خبر دینے والا فاسق یا مستور الحال ہو یعنی عادل ہے یا نہیں، اس کا علم نہ ہوتو اس صورت میں اس کی بات پر تحری کرنے کا حکم ہے، اگر دل اس بات پر جمے کہ وہ درست کہہ رہا ہے تو اس کی بات پر عمل کیا جائے گا۔
اس تفصیل کے مطابق صورت مسئولہ میں بھی چونکہ آپ کا غالب گمان یہ ہے کہ وہ درست کہہ رہی ہے تو اس کی خبر معتبر ہے اور آپ نماز دوبارہ پڑھیں گے کیونکہ اس خبر کے مطابق آپ نے جو وضو کیا وہ مستعمل پانی سے کیا اور مستعمل پانی سے وضو نہیں ہوتا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجیب مصدق
مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی مفتی فضیل رضا عطاری
(3)قعدۂ اخیرہ میں تشہد کے بعد نمازی بھول کر کھڑا ہوگیا تو؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھنے کے بعد اگر کوئی نمازی بھول کر کھڑا ہو گیا اور پانچویں رکعت کے سجدہ سے پہلے پہلےیاد آنے پر بیٹھ گیا تو پوچھنا یہ ہے کہ اسے سجدہ سہو کرنا ہوگا یانہیں؟اور اگر سجدہ سہو کرنا ہوگا تواس سے پہلے تشہد بھی دوبارہ پڑھنا ہو گا یا نہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قعدہ اخیرہ میں بھول کر کھڑے ہو جانے کی صورت میں یاد آنے پر جب واپس لوٹا تو سلام میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہوواجب ہے۔ البتہ کھڑے ہو جانے کی وجہ سے تشہد باطل نہیں ہوتا کہ دوبارہ پڑھنا ضروری ہو، لہٰذاقعدہ میں بیٹھتے ہی ایک جانب سلام پھیر کر سجدہ میں چلا جائے، دوبارہ تشہد نہ پڑھے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجیب مصدق
مولانا محمد سرفراز اختر عطاری مفتی فضیل رضا عطاری
(4)رکوع و سجود کی تسبیح صرف ایک ایک دفعہ پڑھی تو نماز کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے ایک کام سے کہیں جانا تھا، وقت کم تھا اور گاڑی نکل جانے کا خوف تھا، تو نماز ادا کرتے ہوئے رکوع و سجود میں تین مرتبہ تسبیح پڑھنے کے بجائے ایک ایک مرتبہ پڑھی، کیا اس صورت میں میری نماز ادا ہوگئی؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
رکوع و سجود میں تین بار تسبیح پڑھنا سنت ہے،بلا ضرورت تین بار سے کم تسبیح پڑھنا یا بالکل نہ پڑھنا،مکروہِ تنزیہی ہے، ایسی صورت میں نماز کا دوبارہ پڑھنا مستحب یعنی بہتر ہوتا ہے، البتہ کسی عذر مثلاً وقت کم ہونے یا گاڑی چلے جانے کے خوف سے تین بار سے کم تسبیح پڑھی،تومکروہ تنزیہی بھی نہیں، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ کی نماز بلا کراہت ادا ہوگئی۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجیب مصدق
مولانا محمد سرفراز اختر عطاری مفتی فضیل رضا عطاری
Comments