
احکام تجارت
*مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025
(1)آرڈر پر مال تیار کروانے کے بعد لینے سے انکار کرنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ میرا فرنیچر بنا کر دینے کا کام ہے کسٹمر تصویر یاویڈیوز وغیرہ کے ذریعے سے کوئی فرنیچر پسند کرتا ہے اور اسے بنانے کا آرڈر دے دیتا ہے، آرڈر لیتے وقت ہی ضروری چیزیں طے کرلی جاتی ہیں مثلاً کون سی لکڑی کابنانا ہے، پالش یا ڈیکو وغیرہ کا رنگ اور ڈیزائن کیا ہوگا، اگر شیٹ کا بنانا ہے تو شیٹ اور اس کا کلر طے ہوجاتا ہے، اسی طرح سائز اور دیگر ضروری چیزیں طے ہوجاتی ہیں یہ سب چیزیں کسٹمر کی ڈیمانڈ کے مطابق رکھی جاتی ہیں۔ بننے کے بعدبعض کسٹمر لینے سے منع کردیتے ہیں اور وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں آرہا۔ ایسی صورت میں انہیں آرڈر تیار ہوجانے کے بعد نہ لینے کا حق ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ یہ فرنیچر کسٹمر کی پسند کے مطابق تیار ہوا تھا یہ اگر نہ لے تو اس میں ہمارا کافی نقصان ہوتا ہے۔
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: کسٹمر کا آرڈردے کرفرنیچر تیار کروانا بیع استصناع ہے، اس میں مصنوع ( بنوائی جانے والی چیز) کی جنس، نوع، وصف وغیرہ کواس طورپر بیان کردینا ضروری ہے جس سے واضح طور پر اس مصنوع (بنوائی جانے والی چیز) کی پہچان حاصل ہوجائے۔ لہٰذا فرنیچر بناکر دینے کا آرڈر لیتے وقت ہی یہ طے کرلیا کہ اس میں کس قسم لکڑی لگے گی،کیا سائز ہوگا،کیا ڈیزائن بنے گا اور دیگر چیزیں جو فریقین کے لیے جھگڑے کا باعث بن سکتی ہیں ان کو واضح طور پر بیان کردیا تو یہ عقد استصناع درست واقع ہوگیا۔
اب اگر صانع (آرڈر پر چیزبناکردینے والا)کسٹمر کی بیان کردہ صفات کے مطابق فرنیچر تیار کردے تو کسٹمر پر اسے لینا لازم ہے، اسے منع کرنے کا شرعاًحق حاصل نہیں ہے،فی زمانہ اسی قول پر فتویٰ ہے۔ ہاں اگر ایگریمنٹ کے وقت بیان کی گئی صفات کے مطابق مصنوع (بنوائی جانے والی چیز) تیار نہیں کی ہے تو پھر کسٹمر کو لینے اور نہ لینے کا اختیار ہے جسے فقہی اصطلاح میں ”خیارِ وصف “کہتےہیں۔
تفصیل اس مسئلے کی یہ ہےکہ صانع (آرڈر پر چیزبناکردینے والے) نے پروڈکٹ اگر مستصنع (آرڈر پر چیز بنوانے والے) کی بیان کی گئی صفات کے مطابق تیار کی ہو تب بھی امام اعظم ابوحنیفہ اور امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک دیکھنے کے بعد مستصنع (آرڈر پر چیز بنوانے والے)کواسے لینے اور نہ لینے کا اختیار ملے گا جسے فقہی اصطلاح میں ”خیار رویت“کہتے ہیں جبکہ امام ابویوسف علیہ السّلام کے نزدیک مستصنع (آرڈر پر چیز بنوانے والے) کو یہ اختیار نہیں ملے گا([1])بلکہ اس پر اس چیز کو لینا لازم ہوگا اور دور ِحاضر بلکہ اس سے پہلے زمانے کےکئی فقہائے کرام نے امام ابو یوسف رحمۃُ اللہِ تعالیٰ علیہ کے قول کو اختیار فرمایا ہے۔ کیونکہ آرڈر پر جس کے لیے مال بنایا جاتا ہے، وہ اس کی بیان کردہ صفات کے تحت بنایا جاتا ہے اور بہت بڑا سرمایہ اس میں لگایا جاتا ہے، خریدار کے منع کرنے پر یا تو یہ مال کہیں اور نہیں بکے گا یا پھر دیر سے بکے گاجس میں صانع(آرڈر پر چیز بنا کر دینے والے) کا بہت نقصان ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2)اسکالرشپ کی مد میں ملنے والی رقم لینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ تعلیمی اداروں کی طرف سے اسکالرشپ کی مد میں ملنے والی رقم لینا کیا جائز ہے ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: فی نفسہٖ اسکالر شپ کی مد میں ملنے والی رقم لینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، اسکالر شپ دینے والے ادارےکے Criteria کے مطابق جو اس اسکالر شپ کا حقدار ہے وہ یہ رقم لے سکتا ہے دینے والے کی طرف سےیہ رقم بطور ہبہ یعنی بطورِ گفٹ ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں مباح کی جاتی ہے۔
البتہ اگر زکوٰۃ کی رقم سے اسکالر شپ دی جارہی ہے تو پھر اس کے لینے،دینے اور مستحق ہونے کے اپنے تفصیلی مسائل ہیں ۔
ہبہ کسے کہتے ہیں اس سے متعلق مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے: ” الھبۃ ھی تملیک مال الآخر بلا عوض “یعنی : کسی شخص کو بغیر کسی عوض کے مال کا مالک بنادینا ہبہ ہے۔(مجلۃ الاحکام العدلیہ،ص161)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(3)سیلز مین کا اضافی رقم خود رکھ لینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ دکان کے مالک نے اپنے سیلزمین سے کہا کہ یہ آئٹم 150 روپے کا ہمیں پڑا ہے تم 160 روپے کا بیچ دینا، سیلزمین نے دکاندار کی غیر موجودگی میں وہ آئٹم 180 روپے کا بیچ دیا اور 160 روپے گلہ میں ڈال دیےاور اضافی رقم خود رکھ لی تو اس صورت میں کیا سیلزمین کا اضافی رقم خود رکھ لینا درست ہے ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: دکان پر کام کرنے والاسیلزمین مالک کی جانب سے چیزیں بیچنے کا وکیل ہوتا ہے،اور وکیل اگر موکل کی مقرر کر دہ قیمت سے زیادہ میں چیز بیچ دے تو اس زیادتی کا مالک موکل ہوگا نہ کہ وکیل۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جب سیلزمین نے مالک کے بیان کردہ ریٹ سے زیادہ میں چیز فروخت کر دی تو اب وہ تمام رقم مالک کی ہوگی،سیلزمین کا زائد رقم خود رکھ لینا جائز نہیں۔
مجمع الضمانات میں ہے: ”لو وكله ببيع عبده بالف فباعه بالفين فالالفان كله للموكل“یعنی:اگراسے اپنا غلام ایک ہزار روپے میں فروخت کرنے کا وکیل کیا اور اس نے دو ہزار روپے کافروخت کردیا تومکمل دوہزارروپے موکل کے ہوں گے۔ (مجمع الضمانات،1/261)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی
Comments