مسکراتے رہئے

فریاد

مسکراتے رہئے  ( Keep Smiling )

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2023ء

جانشینِ امیرِ اہلِ سنّت حضرت مولانا ابو اُسَید حاجی عبید رضا عطّاری مدنی مُدَّظِلُّہُ العالی کا بیان ہے کہ ایک بار سندھ کے شہر سکھر میں ہونے والے اجتماع میں شرکت کیلئے میں امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے ساتھ بذریعہ ٹرین کراچی سے روانہ ہوا ، راستے میں ایک مقام پر کچھ لڑکے ٹرىن پر پتھراؤ کر رہے تھے اور ٹرین بھی ہلکی رفتار کے ساتھ چل رہی تھی ، میں گیٹ پر کھڑا تھا ، اب اگر پیچھے ہٹتا جب بھی کوئی نہ کوئی پتھر مجھے آ لگتا ، لہٰذا میں نے مسکرا کر اشارے کے ذریعے انہیں پتھر مارنے سے منع کیا۔ اس پر انہوں نے نہ صرف پتھر مارنا بند کردیئے بلکہ ان پتھروں کو پھىنک بھی دیا۔

اے عاشقانِ رسول ! واقعی مسکرانے اور مسکراتا چہرہ رکھنے کے دنیاوی اور اُخْرَوی اعتبارات سے بے شمار فوائد و ثمرات ہیں ، مسکرانے کیلئے موقع محل دیکھنا ایک الگ بات ہے مگر عام روٹین میں انسان ثواب کی نیت سے لوگوں کے سامنے مسکراتا رہے ، خوشی کا مسکرانا جس سے سامنے والا سمجھے کہ میرے آنے یا مجھ سے ملنے سے اسے خوشی ہوئی ہے جس سے وہ بھی خوش ہو جائے ، ایسا مسکرانا صدقے کا ثواب دلاتا ہے۔[1]

مسکراہٹ اور قہقہہ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان فرماتے ہیں کہ ہم نے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے زیادہ مسکرانے والا کسی کو نہ دیکھا ، ایک صحابیِ رسول فرماتے ہیں : اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے جب بھی دیکھتے مسکرا دیتے۔[2]

تبسم یعنی مسکرانے سے اپنا دل تازہ اور مخاطب کا دل خوش ہوتا ہے۔[3]جبکہ قہقہہ لگانا شیطان کی جانِب سے ہے جیسا کہ اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں : ” اَلْقَھْقَھَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ وَالتَّبَسُّمُ مِنَ اللّٰہِ یعنی قہقہہ   شیطان کی طرف سے ہے اور مسکرانا اللہ پاک کی طرف سے ہے۔ “[4] قہقہہ سے مُراد آواز کے ساتھ ہنسنا ہے ، شیطان اِسے پسند کرتا ہے جبکہ تَبَسُّم کا مطلب ہے بغیر آواز کے تھوڑا ہنسنا۔[5]

تَبَسُّم حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی عادتِ کریمہ تھی ، اسی لئے آپ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ” مُتَبَسِّم “ بھی ہے ، چونکہ مسکرانا اظہارِ خوشی کے لئے ہوتا ہے اور ٹھٹھا دل کی غفلت سے بلکہ زیادہ ہنسی اور ٹھٹھا لگانا دل کو مردہ کردیتا ہے اسی لئے حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم مسکراتے بہت تھے ٹھٹھا کبھی نہ لگایا۔[6]

مسکراہٹ کے فائدے جس طرح کچھ دوائیاں پین کِلر ہوتی ہیں اسی طرح مسکراہٹ ٹینشن کِلَر ہوتی ہے ، مسکراتا چہرہ لوگوں کو اچھا لگتا اور ان کے ذہنوں میں بیٹھ جاتا ہے ، مسکراہٹ تھکے ہوئے شخص کو اِنَرجی ، ہمت ہارے ہوئے کو امید اور پریشان شخص کو تسلی اور ڈھارس دیتی ہے ، مسکراہٹ وہ نعمت ہے جو خریدی نہیں جاسکتی اور چوری بھی نہیں ہوسکتی ، مسکراہٹ کا لطف لوگوں کے سامنے مسکرانے میں ہے ، اُس مسکراہٹ کی تو کیا ہی بات ہے جو اپنے رشتے داروں اور عام مسلمانوں کا دل لُبھاتی رہے ، ان کا دل بہلاتی رہے اور ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا سبب بنتی رہے ، کہتے ہیں کہ مسکراہٹ بانٹتے رہیں آپ کی جیب کبھی اس سے خالی نہیں ہوگی ، مسکراہٹ وہ تجارت ہے جس میں کوئی سرمایہ نہیں لگتا مگر اس میں نفع ہی نفع ہے ، لینے والے کے لئے بھی اور دینے والے کے لئے بھی ، مسکراہٹ زیادہ وقت نہیں لیتی بلکہ اس میں لمحہ لگتا ہے لیکن اس کی یاد سالہا سال باقی رہتی ہے ، مسکراہٹ دنیا میں سب سے سستی اور عمدہ چیز ہے جو آپ شرعی اجازت کے ساتھ کسی بھی وقت کسی کو بھی دے سکتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آج شاید کئی گھروں میں مسکراہٹ بہت کم رہ گئی ہے ، حالانکہ مسکرانے سے آپ کے گھریلو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

گھریلو مسائل کا ایک  حل میرے شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی ضیائی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ ارشاد فرماتے ہیں : ” مسکرائیں تاکہ مسائل حَل ہوں اور خاموش رہیں تاکہ مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ “ کہتے ہیں کہ کسی کی صرف تھوڑی دیر کی مسکراہٹ کسی اور کے پورے دن کی مسکراہٹ کا سبب بن جاتی ہے ، مثال کے طور پر شوہر جب صبح گھر سے نکل رہا ہو تو بیوی اگر اس کے گھر سے نکلنے سے پانچ منٹ پہلے اس کے ساتھ مسکرا کر پیش آئے اور اسے مسکرا کر خدا حافظ کہے تو ہوسکتا ہے کہ شوہر مسکراتے چہرے کے ساتھ سارا دن گزارے۔ اور اگر گھر میں وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ صبح گھر سے نکلتے وقت بھی اس نے پھولا ہوا اور مسکراہٹ سے خالی چہرہ ہی دیکھا تو ہوسکتا ہے کہ وہ بے چارا سارا دن اُلجھا ہی رہے اور دفتر جاکر بھی کئی لوگوں کو الجھا دے ، اسی طرح شوہر جب شام کو تھکا ہارا کام سے گھر آئے تو اسے بھی یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بیوی بھی تو سارا دن گھر کے کام کاج کرکے تھک گئی ہوگی ، لہٰذا شوہر کو بھی چاہئے کہ گھر میں داخل ہوتے وقت ہَشّاش بَشّاش ، اِینرجیٹک اور ایک اچھے انداز میں ، کھِلے ہوئے چہرے کے ساتھ مسکرا کر گھر والوں کو سلام کرے اور ان سے خیر خیریت معلوم کرے۔

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے ! اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ اسمائلنگ فیس پیدا کیجئے اور مسکراہٹوں والی زندگی گزاریئے ، خاص طور پر زوجہ اور بالعموم سارے گھر والے ، مَرد کے گھر سے جانے اورآنے کے ٹائم میں خاص طور پر مسکراہٹ کو اپنے چہرے پر رکھیں اور یہی کام گھر سے جاتے اور آتے ہوئے مرد بھی کرے ، گھر کے ماحول کو پُرسکون رکھنے کے لئے حتی الامکان مسائل کم سے کم ڈسکس کیجئے ، اپنی بیماری ، پریشانی ، مہنگائی اور کم آمدنی ، بچّوں کی آپسی لڑائی جیسے ایشوز کو روزانہ ہی لے کر نہ بیٹھ جائیے ، مجبوری ہے یا پھر واقعی کوئی ضرورت ہے تو پھر وہ ایک الگ چیز ہے ، اس کا اِسپیس اپنی جگہ موجود ہے ، جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے گھر میں ہونے والی چھوٹی موٹی باتوں کو اِگنور کیجئے اور در گزر سے کام لیجئے ، کم از کم ایک ہفتہ میری گزارشات پر عمل کرکے دیکھئے ، آپ کو اپنے گھر کے ماحول میں فرق اور زندگی میں بہتری نظر نہ آئے تو مجھے کہئے گا۔ البتہ گناہوں سے ضرور بچئے گا کہ گناہ نحوستیں ہیں ، ان کے ہوتے ہوئے حقیقی پُرسکون زندگی کا حصول بہت مشکل ہے۔ اللہ پاک ہمیں اپنے مسکرانے والے محبوب کے صدقے میں مسکراہٹ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



[1] ترمذی ، 3/384 ، حدیث : 1963

[2] ترمذی ، 5/542 ، حدیث : 226 ، معجم کبیر ، 2/293 ، حدیث : 2220

[3] مراٰۃ المناجیح ، 8/82

[4] معجم صغیر ، 2/104 ، حدیث : 1053

[5] فیض القدیر ، 4/706 ، تحت الحدیث : 6196

[6] مراٰۃ المناجیح ، 4/42- 7/14- 8/82۔


Share

Articles

Comments


Security Code