
بدترین شخص کون؟
*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025
خاتم النبیین،جنابِ رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عظیم ہے :اِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ اتِّقَاءَ شَرِّهِ ترجمہ:بے شک لوگوں میں سے اللہ کے نزدیک بدترین مقام کا حامل قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جسے لوگ اس کے شر سے بچنے کے لئے چھوڑ دیں۔ ([1])
پس منظر:یہ فرمانِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک طویل حدیثِ پاک کا جُزو ہے جو اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے حاضری کی اجازت مانگی، فرمایا: اجازت دے دو یہ اس قبیلے کا بُرا آدمی ہے۔ پھر جب وہ (داخل ہونے کے بعد ) بیٹھا تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خوش اخلاقی سےملے اوراس سے کُشادہ روئی (یعنی مسکراتے چہرے) سے گفتگو فرمائی۔جب وہ شخص چلا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا نے عرض کی: یارسول اللہ! جب آپ نے اسے دیکھا تو اس کے بارے میں ایسا ایسا فرمایا پھر اس سے خوش اخلاقی اورکُشادہ روئی فرمائی؟ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم نے مجھے فحش گو کب پایا ؟ بے شک لوگوں میں سے اللہ کے نزدیک بدترین مقام کا حامل قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جسے لوگ اس کے شر سے بچنے کے لئے چھوڑ دیں۔([2])
شرح حدیث:اس حدیثِ رسول کو امام بخاری نےصحیح بخاری میں تین مقامات پر،امام مسلم نے صحیح مسلم میں،امام ترمذی نے جامع ترمذی اور امام ابوداؤد نے سنن ابی داؤد اور امام احمد بن حنبل نے مسند احمد بن حنبل میں نقل کیا (رحمۃ اللہ علیہم)۔ اس روایتِ عظیمہ میں کم از کم 7 اُمور کا بیان ہے ؛(1)علانیہ بُرائی کرنے والے شخص کی غیبت کا بیان (2)بُرے شخص سےکسی حکمت کی وجہ سےخوش اخلاقی اور شائستگی سے ملاقات کرنا(3) مداہنت(چاپلوسی) اور مدارات (شائستگی )میں فرق (4) ذہنی اشکال کو بُزرگوں کی خدمت میں پیش کرنا(5)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خوش اخلاقی کا بیان (6) بدکلامی اور سخت زبانی کی مذمت (7)بدکلامی کی صورتیں۔
ترتیب وار وضاحت :ان اُمورکی ترتیب وار وضاحت پڑھئے اور حدیث پاک کی برکتیں پائیے۔
(1)عَلانیہ بُرائی کرنے والے شخص کی غیبت کا بیان:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آنے والے ملاقاتی کے بارے میں فرمایا:’’یہ اس قبیلہ کا بُرا آدمی ہے۔‘‘ حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ بات اس وقت فرمائی جب کہ وہ ابھی حضور کے پاس پہنچا نہ تھا دروازہ پر ہی تھا یعنی اس کے پس پشت بیان فرمایا۔([3])آنے والا اپنے قبیلے کاسردار بھی تھا،اس کو حاضری کی اجازت دینے میں یہ حکمت تھی کہ (حسنِ سلوک کی وجہ سے)اس کی قوم اسلام قبول کرلے۔([4])اب اس کی بُرائی پیٹھ پیچھے بیان کرنا غیبت تھی یا نہیں؟ اور اگر غیبت تھی تو جائز تھی یا (معاذ اللہ )ناجائز؟ اس بارے میں شارحینِ حدیث نے مختلف توجیہات کی ہیں چنانچہ عمدۃ القاری میں ہے : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو اپنے فسق کو ظاہر کرتا ہو اس کی غیبت کرنا جائز ہے۔یہ حدیث کافروں، فاسقوں، ظالموں اور اہلِ فساد کی غیبت کے جواز کی دلیل ہے۔ ([5])ارشاد الساری میں ہے : اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے جو کسی شخص کے حال پر کسی شے کے بارے میں مطلع ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ کوئی اس شخص کی ظاہری اچھائی سے دھوکا کھا کر کسی برائی میں پڑ جائے گاتو اسے چاہئے کہ وہ نصیحت کے ارادے سے لوگوں کو بُرائی سے ہوشیار کردے۔([6])اشعۃ اللمعات میں ہے : اس کی مذمت اور اس کا حال منکشف کرنا اس لئے تھا تاکہ لوگ اس کو پہچان لیں،فریب اور دھوکا نہ کھائیں لہٰذا یہ غیبت نہ ہوئی۔بعض نے کہا ہے کہ وہ علانیہ برائی کا ارتکاب کرتا تھا لہٰذا ایسے شخص کے بارے میں مطلع کرنا غیبت نہیں ہوتی۔([7])مراٰۃ المناجیح میں ہے :اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کا مشہور عیب پس پشت (پیٹھ پیچھے) بیان کرنا غیبت نہیں،نیز لوگوں کو اس کے شر سے بچانے کے لیے اس کے شر پر مطلع کردینا غیبت نہیں۔([8])غیبت کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’غیبت کی تباہ کاریاں‘‘ (504صفحات )کا مطالعہ فرما لیجئے۔
(2)بُرے شخص سےکسی حکمت کی وجہ سےخوش اخلاقی اور شائستگی سے ملاقات کرنا:نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک مزاج کریمانہ تھا اور اللہ پاک نے آپ کوحسنِ اخلاق کا مظہر بنایا تھا اس لئے اس شخص سے اخلاقِ کریمانہ کا سلوک کیا اور شائستگی سے پیش آئے تاکہ امتی اس کے شر اور بدبختی سے بچیں رہیں اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سردار کے ساتھ کسی قسم کا ناپسندیدہ سلوک نہ کیا تاکہ امّت اس طریقے پر چل کر ایسوں کے شر سے بچ سکے۔([9])مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کی اصلاح کے لئے اس کو برا نہ کہنا اس سے اخلاق سے پیش آنا سنتِ رسول ہے۔ ہرشخص کی اصلاح کے طریقے جدا گانہ ہیں،حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حکیمِ مطلق ہیں۔([10])نیکی کی دعوت پیش کرنے والے مبلغین کو خصوصی طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔
(3) مُداہنت(چاپلوسی) اور مُدارات (شائستگی )میں فرق :امام قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس حدیثِ پاک میں شریروں کے شر سے بچنے کے لئے مدارات کا ثبوت ہے جو دین میں مداہنت تک نہ پہنچے۔ ان دونوں میں یہ فرق ہے کہ مداہنت دینی احکام کو دنیاوی فائدے کے لئے ترک کرنے کا نام ہے اور یہ جائز نہیں ہے جیسے دنیاوی فائدے کے لئے ظالم کے ظلم، فاسق کے فِسق کو بیان نہ کرنا، جبکہ مدارات دینی یادنیاوی فائدے کے لئے دنیاوی بھلائی کرنے کو کہتے ہیں یہ جائز ہے بلکہ مدارات کبھی مستحب بھی ہوتی ہے جیسے فاسق،ظالم وغیرہ سے اچھی طرح پیش آناجبکہ وہ اپنے ظلم اور فسق کی تائید نہ سمجھے۔نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آنے والے کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور بات چیت کرتے وقت نرمی کی تاہم اس کی کسی قسم کی تعریف نہیں کی،خلاصہ یہ کہ جو آپ نے اس شخص کے حاضر ہونے سے پہلے فرمایا تھا(یعنی یہ اپنے قبیلے کا برا آدمی ہے )وہ سچ تھا اور جو آپ نے اس کے ساتھ حسنِ سلوک کیا وہ مدارات تھا۔([11])رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک اور جگہ فرمایا: بُعِثْتُ بِمُدَارَاۃِ النَّاسیعنی مجھے لوگوں سے مدارات کے لئے بھیجا گیا ہے۔([12])امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت مولانا احمدرضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: اے عزیز! مدارات خلق والفت وموانست اہم امور سے ہے، مگر جب تک نہ دین میں مداہنت نہ اُس کے لئے کسی گناہِ شرعی میں ابتلا ہو۔([13])صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ عالمگیری کے حوالے سے لکھتے ہیں: لوگوں کے ساتھ مدارات سے پیش آنا، نرم باتیں کرنا، کشادہ روئی سے کلام کرنا مستحب ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ مداہنت نہ پیدا ہو۔بدمذہب سے گفتگو کرے تو اس طرح نہ کرے کہ وہ سمجھے میرے مذہب کو اچھا سمجھنے لگا برا نہیں جانتاہے۔([14]) دینی فوائد کے حصول کے لئے دنیاوی شخصیات سے ملنے والے مبلغین کے لئے ان باتوں کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔
(4) ذہنی اشکال کو بُزرگوں کی خدمت میں پیش کرنا:اس روایت سے ہمیں یہ بھی سیکھنےکو ملا کہ جب کسی دینی بزرگ کے قول یا فعل کے بارے میں ہمارے ذہن میں کوئی اشکال یا اعتراض پیدا ہوتو دو میں سے ایک کام کرلینا چاہئے،(۱)حسنِ ظن کا کوئی پہلو تلاش کرلیجئے یا (۲)ادب واحترام کے ساتھ اس دینی شخصیت سے اپنا اشکال بیان کرکے تشفی کرلیجئے۔آپ نے دیکھا کہ اس حدیث مبارک میں امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا کو اشکال پیدا ہوا تو اپنے سرتاج صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پیش کرکے اس اشکال کو دُور کرنا چاہا۔ وہ اشکال ممکنہ طور پر یہ تھا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ عمل شریف غیبت میں تو داخل نہیں ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں اسے برا فرمایا اور سامنے اخلاق سے گفتگو فرمائی۔([15])
(5)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خوش اخلاقی کا بیان:رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا کو ان کے اشکال کا جواب دیتےہوئے فرمایا : تم نے مجھے فحش گو کب پایا ؟ یعنی ہم دوست دشمن نیک و بد سب سے اخلاق ہی برتتے ہیں کسی سے کج خلقی(بُرے اخلاق) سے پیش نہیں آتے، تم کو ہمارا تجربہ ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے نالاں ہوتے ہیں مگر اس سے ڈرکر اس کا احترام کرتے ہیں یہ انہیں میں سے ہے اگر میں اس کے سامنے وہ ہی کہتا جو اس کے پس پشت کہا تھا تو یہ میرے پاس آنا چھوڑ دیتا اور اس کی اصلاح نہ ہوسکتی۔([16])
(6) بدکلامی اور سخت زبانی کی مذمت : اس روایت کے آخر میں تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بدکلام اور سخت زبان شخص کی مذمت فرمائی کہ بے شک لوگوں میں سے اللہ کے نزدیک بدترین مقام کا حامل قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جسے لوگ اس کے شر سے بچنے کے لئے چھوڑ دیں( تاکہ وہ انہیں اپنی زبان سے تکلیف نہ دے )۔اسی مضمون کی حدیثِ پاک امام ابوداؤد رحمۃُ اللہِ علیہ نے بھی ان الفاظ سے روایت کی کہ يَا عَائِشَةُ! اِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ الَّذِينَ يُكْرَمُونَ اتِّقَاءَ اَلْسِنَتِهِمْ یعنی اے عائشہ ! بے شک بدترین لوگ وہ ہیں جن کا احترام ان کی زبانوں سے بچنے کے لئے کیا جائے۔([17])اس روایت میں ایسے لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں جو اپنی سخت کلامی سے لوگوں پر رعب جماکرخوش ہوتے ہیں۔
(7) بدکلامی کی صورتیں:بدکلامی،زبان درازی اور سخت زبانی جیسے طنز، تنقید، طعنہ،احسان جتانا وغیرہ کی بے شمار صورتیں ہیں جن کا احاطہ مختصر صفحات میں ممکن نہیں۔زبان کی آفتوں پر پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں،سرِدست مکتبۃ المدینہ کی ان کتابوں کو پڑھنا بہت مفید ہے ؛(1) خاموش شہزادہ (2)جنت کی دوچابیاں (3)زبان کی آفتیں (4) گفتگو کے آداب (5)ایک چپ سو سکھ۔
اللہ پاک ہمیں حسنِ اخلاق اور نرم کلامی کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments