برائی سے روکنا ضروری ہے

رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:مَنْ رَاٰى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهٖ فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهٖ وَذٰلِكَ اَضْعَفُ الْاِيْمَانِ یعنی جو تم میں سے کوئی بُرائی دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے بَدَل دے اور اگر وہ اِس کی قوّت نہیں رکھتا تو اپنی زَبان سے (روک دے) پھر اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو دل سے (بُرا جانے) اور یہ سب سے کمزور ایمان کادَرَجہ ہے۔(مسلم،ص 48، حدیث: 177)

بُرائی سے روکنے اور نیکی کی دعوت کی ہر شخص کو اُس کی طاقت کے مطابق ذِمَّہ داری دی گئی ہے۔لہٰذا وہ طَبَقَہ جسے لوگوں پر غَلَبہ اور تَسَلُّط حاصل ہے،جیسے حاکِمِ اسلام کو عام لوگوں پر، والِدَین کو اپنی اَولاد پر، اَساتِذہ کو اپنے طُلَبا پر، اِن کے لئے لازم ہے کہ اگر یہ اپنے کسی ماتَحت کو بُرائی میں مبتلا دیکھیں تو شریعت کی مُقَرَّر کردہ حد میں رہتے ہوئے سزا دے کر بھی  ان کو بُرائی سے روکیں۔ اور وہ عُلَمائے کرام اور مُبَلِّغینِ اِسلام جو لوگوں پر غَلَبہ نہیں رکھتے وہ مختلف ذَرائع جیسے اِجْتِماع اور جُمُعہ وغیرہ میں اپنے بَیان کے ذریعے اور کُتُب اور خُطُوط وغیرہ تَحریر  کے ذریعے لوگوں کو بُرائی سے روکیں، بلکہ حکیمُ الاُمَّت مفتی اَحمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے شُعَرَا کا اپنی نظموں کے ذریعے بُرائی کا قَلْع قَمع کرنا  بھی  زَبان وتَحریر کے ذریعے بُرائی سے روکنے میں شامل کیا ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج6، ص503، ملخصاً)

اور وہ عام لوگ جو زَبان سے بھی بُرائی کو روکنے کی قوّت نہیں رکھتے  تو وہ بُرائی کو دل سے بُرا جانیں، اگرچہ یہ ایمان کا کمزور ترین دَرَجہ ہے کیونکہ کوشش کر کے زَبان سے روکنا چاہئے، لیکن جب ایسا شخص بُرائی کو دل سے بُرا سمجھے گا تو یقیناً خود بُرائی کے قریب نہیں جائے گا، نتیجہ یہ نکلے گا کہ مُعَاشرے کے بَکَثْرت اَفراد خود بخود راہِ راست پر آجائیں گے۔

یہ یاد رہے کہ بعض صورتوں میں نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا واجب ہوتا ہے جیسا کہ صَدرُ الشَّریعہ مولانا مفتی امجد علی اَعْظَمِی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی ارشاد فرماتے ہیں: اگر غالب گُمان یہ ہے کہ یہ اُن سے کہے گا تو وہ اِس کی بات مان لیں گے اور بُری بات سے باز آجائیں گے تو اَمْر بِالْمَعْرُوْف واجب ہے اُس کو باز رہنا جائز نہیں۔( بہارِ شریعت،حصه 16، ص 615)

حافظ اِبنِ مُلَقِّن رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بُرائی سے روکنا فرضِ کِفایہ ارشاد فرمایا ہے۔(المعین علی تفھم الاربعین، ص 394) البتہ دیگر شَارِحِینِ حدیث نے یہ بھی اِرشاد فرمایا کہ دل سے بُرائی کا انکار کرنا فرضِ عین ہے یعنی ضروری ہے کہ ہر ایک بُرائی کو بُرا سمجھے۔(الفتح المبین، ص 547، ملخصاً)

امام ابو داؤد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہحضرت سَیِّدُنا عُرْس بن عَمِیْرَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں کہ نبیِّ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب کسی مقام پر بُرائی ہو رہی ہو اور وہاں موجود شخص اس کو ناپسند کرتا ہے (اور ایک روایت میں ہے: اس کا انکار کرتا ہے) تو وہ ایسا ہے گویا وہاں موجود ہی نہیں اور جو وہاں موجود نہیں مگر اس بُرائی پر راضی ہے تو وہ ایسا ہے جیسا وہاں حاضر ہے۔(ابو داؤد،ج4، ص166، حدیث: 4354) اس موضوع پر مزید تفصیل کے لئے امیرِ اَہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تصنیفِ لطیف ”نیکی کی دعوت“ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مُطالَعہ بے حد مُفید ہے۔


Share