خصوصیاتِ رمضان

شرح حدیثِ رسول

خصوصیاتِ رمضان

*مولاناابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء

انسان کی زندگی میں آنے والا ہرلمحہ، دن، مہینا اورسال عام نہیں ہوتا بلکہ جب بھی انسان کے ساتھ کچھ خاص ہوتا ہے وہ اس دن، مہینے اور سال کو یادرکھتا ہے اور جب جب وہ وقت دوبارہ آتا ہے وہ پرانی یادیں تازہ کرتا ہے۔ اسی طرح ہر اسلامی مہینےکی ایک یا ایک سے زیادہ خصوصیات ہوتی ہیں، جیسے عید الفطر شوال شریف میں ہوتی ہے،ذوالحجہ شریف میں حجِ بیتُ اللہ ہوتا ہےاور عیدقربان ہوتی ہے، محرم شریف کی دسویں تاریخ کو واقعہ کربلا ہواتھا،صفر المظفر کی 25 ویں تاریخ کو عُرسِ اعلیٰ حضرت ہوتا ہے، ربیعُ الاول کی بارہویں تاریخ کو عید میلادُ النبی منائی جاتی ہے،ربیعُ الآخر کی گیارہویں تاریخ کو غوثِ پاک کی سالانہ گیارہویں شریف منائی جاتی ہے، وغیرہ۔ انہی میں سے ایک اسلامی مہینا رمضانُ المبارک ہے جس کو کئی خصوصیات حاصل ہیں،قراٰن مجید فرقان حمید اور فرامینِ حبیبِ لبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں رمضانُ المبارک کی کئی خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک حدیثِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے :

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:

اِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ اَبْوَابُ الجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ

ترجمہ: جب رمضان کا مہینا آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔([1])

شرحِ حدیث:اس فرمانِ عظیم میں تین خصوصیاتِ رمضان کا تذکرہ ہوا (1)رمضان شریف کے آنے پر جنت کے دروازے کھلنے کا (2)جہنم کے دروازے بند ہونے اور (3) شیاطین کو زنجیروں میں جکڑنےکا۔ان تینوں کی وضاحت ترتیب وار جانئے:

(1)جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں: دروازے کھلنے کے دو معنی ہوسکتے ہیں : حقیقی اورمُرادی۔ حقیقی معانی یہ ہوسکتے ہیں کہ(۱) جو مؤمن رمضان شریف میں فوت ہوتا ہے وہ (جنتی دروازے کھلے ہونے کی وجہ سے) جنتیوں میں شامل ہوجاتا ہے اور اس کی روح ان لوگوں کی روحوں سے مختلف ہوتی ہے جو رمضان کے علاوہ فوت ہوتے ہیں۔([2]) (۲) رمضان میں شب و روز مسلمان اعمالِ صالحہ بکثرت کرتے ہیں تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں کہ انہیں عروج اور درجۂ قبول تک پہنچنے میں ادنیٰ سی بھی رکاوٹ نہ ہو نیز یہ کہ جب جنت اور آسمان کے دروازے کھلے ہوں گے تو رحمت وبرکت کا تسلسل کے ساتھ نزول ہوتا رہے گا۔([3]) (۳) جنتوں کے دروازے کھلنے کی وجہ سے جنت والے حور و غلمان کو خبر ہوجاتی ہے کہ دنیا میں رمضان آگیا اور وہ روزہ داروں کے لئے دعاؤں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔([4])

جنت کے دروازے کھلنے کا مُرادی معنیٰ یہ ہوسکتا ہے کہ جنت میں داخلے کے اسباب کھل جاتے ہیں یعنی رمضان میں نیکیاں اور بھلائیاں کرنے کا کثرت سے موقع ملتا ہے۔ دروازوں کے کھلنے میں یہ اشارہ ہے کہ رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور مغفرتیں کثرت سے تقسیم ہوتی ہیں۔([5])

(2)جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں:اس کے بھی دو مطلب ہوسکتے ہیں : صراحۃً اور کنایۃً۔ صراحۃً مطلب یہ ہے کہ ماہِ رمضان میں واقعی دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اس مہینہ میں گنہگاروں بلکہ کافروں کی قبروں پر بھی دوزخ کی گرمی نہیں پہنچتی۔([6])اور کنایۃً مطلب یہ ہے کہ روزہ دار گناہوں کی آلودگی سے پاک رہتے ہیں اور انہیں شہوات کے خاتمے کی وجہ سے گناہوں پر ابھارنے والے اسباب سے نجات مل جاتی ہے۔([7])

(3)شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیاجاتا ہے:

اس کا حقیقی معنی تو یہ ہے کہ رمضان میں ابلیس مع اپنی ذریتوں (اولادوں)کے قیدکردیا جاتا ہے۔اس مہینہ میں جو کوئی بھی گناہ کرتا ہے وہ اپنے نفسِ امّارہ کی شرارت سے کرتا ہے نہ کہ شیطان کے بہکانے سے۔ اس سے یہ اعتراض دور ہوگیاکہ جب شیطان بند ہوگیا تو اس مہینہ میں گناہ کیسے ہوتے ہیں؟([8]) اس اعتراض کا ایک جواب یہ ہے کہ سارے شیاطین کو نہیں بلکہ صرف سرکش شیطانوں کو قید کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں دوسرے مہینوں کی نسبت نیکیاں زیادہ اور گناہ کم ہوتے ہیں (اس کا عام مشاہدہ ہے کہ رمضان شریف میں مسجدیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں کہ دیر سے پہنچنے والوں کو جگہ نہیں ملتی،لوگ کثرت سے نوافل پڑھتے ہیں، تلاوت ِ قراٰن کرتے ہیں، ذکر و درودکی کثرت کرتے ہیں،صدقہ و خیرات بڑھا دیتے ہیں)،دوسری بات یہ کہ شیاطین کو جکڑنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ بُرائیاں اور گناہ بالکل ہی نہ ہوں کیونکہ شیطان کے بہکانے کے علاوہ بھی شر اور فساد کے کئی ذرائع ہیں جیسے نفسِ امّارہ، بُری عادتیں اور انسانی شیطان۔([9])

جب کہ شیاطین کو زنجیروں میں جکڑنے کا مجازی معنیٰ یہ ہے کہ رمضان میں شیاطین مسلمانوں کو ورغلا نہیں کرسکتے جیسا دوسرے مہینوں میں کرتے ہیں کیونکہ مسلمان روزے، تلاوتِ قراٰن اور دوسری نیکیوں میں مصروف ہوتے ہیں،اور اگر شیاطین فساد پھیلانے میں کامیاب ہوبھی جائیں تو یہ دوسرے مہینوں کی نسبت بہت کم ہوتا ہے۔([10])

رمضان شریف کی مزید خصوصیات

 (1)رمضان ماہِ صیام ہے،

( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳))

ترجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔([11]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(2)رمضان ماہِ نزولِ قراٰن ہے،

(شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ )

ترجَمۂ کنز الایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں۔([12]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(3)اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے،

(لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳) )

ترجَمۂ کنز الایمان: شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر۔([13]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(4) ماہِ رمضان مغفرتِ ذنوب کا سبب ہے،اس شخص کو خسارے میں قرار دیا گیا جس نے رمضان کو پایا اور گناہوں کی معافی نہ پاسکا، رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرما یا :وَرَغِمَ انفُ رَجُلٍ دَخَلَ علَيهِ رَمضانُ ثمَّ انْسَلخَ قبلَ اَن يُّغفَرَ لَه ترجمہ: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جسے ماہِ رمضان نصیب ہو لیکن اس کے بخشے جانے سے پہلے ہی ماہِ رمضان گزر جائے۔([14])

(5)رمضان کی سحری اور افطاری کو بھی برکت والا قرار دیا گیا ہے : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَسَحَّرُوا فَاِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً یعنی سحری کیا کرو کیونکہ اس میں برکت ہے۔ ([15])اَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطْرَ ترجمہ:جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے، بھلائی پر قائم رہیں گے۔([16])

(6) پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس مبارک مہینے میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70ستّر گُنا ہوجاتا ہے۔([17])

(7) پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تيسرا جہنم سے نجات کا ہے۔([18])

رمضان درسِ مساوات بھی دیتا ہے، غریب ہو یا امیر ! ہر ایک کے لئے روزے کا دورانیہ اور دیگر پابندیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔

مزید تفصیلات جاننے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی تاریخی کتاب ’’فیضانِ رمضان‘‘ پڑھ لیجئے۔اللہ پاک ہمیں ماہِ رمضان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرّسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])بخاری،2/399، حدیث:3277

([2])فیض القدیر،4/52،تحت الحدیث:4479

([3])نزھۃ القاری،3/291

([4])مراٰۃ المناجیح،3/133

([5])فیض القدیر،4/52،تحت الحدیث:4479

([6])مراٰۃ المناجیح، 3/133

([7])معونۃ القاری،4/250

([8])مراٰۃ المناجیح،3/134

([9])عمدۃ القاری،8/27

([10])معونۃ القاری،4/250

([11])پ2،البقرۃ:183

([12])پ2،البقرۃ:185

([13])پ30،القدر:3

([14])ترمذی،5/320،حدیث:3556

([15])بخاری،1/633،حدیث:1923

([16])بخاری،1/645،حدیث:1957

([17])دیکھئے: ابن خُزَیمہ،3/191،حدیث: 1887

([18])دیکھئے: ابن خُزَیمہ،3/191،حدیث: 1887


Share