حُجّۃُ الاِسْلَام، امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی

حُجّۃُ الاِسْلَام، امام ابو حامد محمد بن محمد بن محمد غزالی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (سالِ وفات 505ھ) کی شخصیت   علمائے حقّہ  میں بلند پایہ مقام رکھتی ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ایک عظیم مبلّغِ اسلام تھے۔

حصولِ علمِ دین: آپ نے ابتدائی تعلیم طُوس(صوبہ خراسان، ایران) میں حاصل کی، اس کے بعد نیشاپور(ایران) کا قصد کیا جہاں امام الحرمین عبدالملک بن عبداللہ جُوَینی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی سے اکتسابِِ علم کیا۔(سیر اعلام النبلاء،ج14،ص320) آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی پوری زندگی مختلف علوم حاصل کرنے، انہیں پھیلانے اور اُمّت ِ مسلمہ کی اصلاح میں گزری۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہنے اپنی دینی خدمات پیش کرکے جن  شعبہ جات میں اہم کردار ادا کیا ان میں سے چند کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

تدریس: آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا دور فلسفہ اور عقلیت پسندی کا دور تھا۔ لوگ دین سے دُور ہوتے جارہے تھے۔اس صورتِ حال میں دین و مذہب کی خدمت کیلئے آپ نے درس و تدریس کا انتخاب فرمایا اور لوگوں کے عقائد و اعمال  کی اصلاح کے لئے شاگردانِ رشید تیار فرمائے۔شروع میں بغداد(مدرسہ نظامیہ ) اور نیشاپور میں تدریس فرمائی اور پھر اپنے علاقہ طُوس میں مدرسہ قائم فرمایا جس سے تادمِ آخر وابستہ رہے۔کثیر طلبہ  نے آپ سے اکتسابِِ فیض کیا۔ آپ کے مشہور شاگردوں میں سے قاضی  ابونصر احمد بن عبداللہ، ابو الفتح احمد بن علی، ابومنصور محمد بن اسماعیل، امام ابوسعید محمد بن یحییٰ نیشاپوری وغیرہ رحمۃ اللہ علیھم ہیں۔(اتحاف السادۃ المتقین،ج1،ص8تا65ملتقطاً)

تصانیف: دینی خدمت کیلئے آپ نے تدریس کے ساتھ جس طرف توجہ فرمائی وہ تصنیف  ہے۔ آپ نے بہت تھوڑے عرصہ میں  کثیر کُتُب عقائد، فقہ، اصولِ فقہ اور تصوف وغیرہ کے موضوعات پر تالیف فرمائیں۔ آپ کی تالیفات  سے امت آج تک مستفیض ہو رہی ہے۔ بالخصوص علم تصوف اورعلم الاخلاق پر آپ کی کتاب اِحْیَاءُ عُلُوْمِ الدِّین (جس کو اختصار کے پیشِ نظر احیاء العلوم کہا جاتا ہے۔) مشہور زمانہ ہے۔ اس کی تعریف ہر زمانے کے عُلَما کرتے آرہے ہیں۔ شیخِ طریقت،  امیرِاہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ بھی اس کتاب کے مطالعہ کی بہت تاکید فرماتے ہیں۔ آپ کی سینکڑوں کتب میں سے اَلْمُنْقِذُ مِنَ الضَّلَال، کِیمِیَائے سَعَادَت، اَرْبَعِین، اَلْاِقْتِصَادُ فِی الْاِعْتِقَاد،  اَیُّھَا الْوَلَد، مِنْہَاجُ الْعَارِفِین، مِنْہَاجُ الْعَابِدِین وغیرہ بہت مشہور ہیں۔

خانقاہ کا قیام: آپ نے جہاں تصنیف و تدریس کے ذریعے صاحبانِ علم افراد تیار فرمائے وہیں آپ نے لوگوں کی عملی تربیت اور تزکیۂ نفس (باطن کی صفائی) کا بھی اہتمام فرمایا۔ اس کیلئے آپ نے اپنے قائم کردہ مدرسے کے ساتھ ایک خانقاہ بھی قائم فرمائی جس میں ختم قراٰن کا اہتمام ہوتا، ذکر و  اذکار کی محافل  منعقِد کی جاتیں، وعظ و نصیحت کا سلسلہ ہوتا، جس سے لوگ اپنے باطن کی اصلاح کرتے اور فکرِ آخرت حاصل کرتے۔

 (سیر اعلام النبلاء،ج14،ص322ملخصاً)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ مُدَرِّس جامعۃ المدینہ،ماریشس


Share

Articles