شیخ عبدالحق محدّث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی تصنیفی خدمات

برِّ عظیم پاک و ہندمیں علمِ حدیث کی  ترویج و اِشاعت کرنے والےعظیم محدّث،مُحَقِّقْ عَلَی الْاِطْلاق حضرتِ سیّدناشیخ عبدالحق محدّث دہلوی قادری علیہ رحمۃ اللہ القَوی ہیں، آپرحمۃاللہ تعالٰی علیہکی ولادت محرم الحرام958ھ بمطابق 1551ء کو ہند کے شہر ”دہلی“ میں ہوئی۔

حصولِ علمِ دین:آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِگرامی شیخ  سیفُ الدین دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی سے حاصل كی۔ صرف بارہ،تیرہ سال کی عمر میں شرح شمسیہ اور شرح عقائد جبکہ پندرہ ،سولہ برس کی عمر میں مختصر اور مطوّل جیسی مشکل کُتُب پڑھ لیں۔(اشعۃ اللمعات،مترجم،ج1،ص 71) آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ دن رات حصولِ علم میں مشغول رہتے تھے، حصولِ علم کا جذبہ اس قدر تھا کہ خود لکھتے ہیں: ’’بچپن سے ہی  مجھے نہیں معلوم کہ کھیل کُود کیا ہوتا ہے؟آسائش کے کیا معنیٰ ہیں؟ میں نہیں جانتا کہ سیر کیسے ہوتی ہے؟‘‘(اشعۃ اللمعات،مترجم ،ج1،ص 72 ملخصاً)

سلسلۂ بیعت:آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہنے سب سے پہلے اپنے والد شیخ سیف الدین قادری سے بیعت کی اوران کے حکم سے حضرت سیّدموسیٰ پاک شہیدگیلانی قادری (مدینۃ الاولیاء ملتان،پنجاب) رحمۃ اللہ تعالٰی علیہسےمستفیض ہوئے۔پھرمکّہ معظّمہ میں حضرت شیخ عبدالوہاب متّقی مہاجرمکّی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اِرشاد و سُلوک کی منزلیں طے کیں اور شیخ نے انہیں چاروں سلسلوں چشتیہ،قادِریہ،شاذلیہ اورمدنیہ کی اجازت عطا فرمائی۔(نور نور چہرے،113وغیرہ)

دینی خدمات:حضرتِ شیخِ محقّقرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی زندگی دینِ اسلام کے تحفظ اور اس کا پیغام عام کرنے میں صَرْف کر دی۔اپنی 94 سالہ زندگی کا بیش تَر حصّہ کُتُب و رسائل کی تصنیف وتالیف میں بسرفرمایا۔(ماخوز از نور نور چہرے ، ص 114،116) علمِ حدیث و اصولِ حدیث میں تقریباً 13 کتابیں اور شرحیں لکھیں۔ جن میں سےمِشکوٰۃُالْمصابیح کی10جلدوں پرعربی شرح لَمْعَاتُ التَّنْقِیْح اور 4جلدوں پرمشتمل فارسی شرح    اپنی مثال آپ ہے،آپ  نے اَشِعَّۃُ اللَّمْعَات  1019ھ تا 1025ھ کے درمیان تقریباً چھ سال کی محنت شاقّہ کے بعد مکمل تحریر فرمائی۔

آپ کی کتب  میں  حدیث ، اُصولِ حدیث کے علاوہ عقائدِ اہلِ سنّت کا بیان بھی ہے۔اَشِعَّۃُ اللَّمْعَات  میں ایک حدیثِ پاک کے اس حصّے”فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ“کی شرح میں عقیدۂ اہلِ سنّت کا اس طرح بیان فرمایا: حضور سیّدِعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوگیا جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمینوں میں ہے، اس سے یہ مراد ہے کہ تمام جزئی و کلی علوم حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو حاصل ہوگئے اور حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سب کا اِحاطہ فرمالیا۔ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں:تو اس سے حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عالَم اور عالَم کے تمام حقائق کو جان لیا۔(اشعۃ اللمعات،مترجم،ج1،ص333)

مشہور تصانیف:آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی تصانیف کثیر ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:(1) لَمْعَاتُ التَّنْقِیْحْ فِیْ شَرحِ مِشْکاۃِ الْمَصَابِیحْ (2)اَشِعَّۃُ اللَّمْعَات فِیْ شَرْحِ الْمِشْکاۃ(3)جَذْبُ الْقُلُوْب اِلٰی دِیَارِ الْمَحْبُوْب(4)زُبْدَۃُ الْآثارِ فِیْ اَخْبَارِ قُطبِ الْاَخْیار (5)مِفْتَاحُ الْفُتُوْح لِفَتْحِ اَبْوَابِ النُّصُوْص (6)شَرْحُ الشَّمْسِیّۃ (7) مَدَارِجُ النُّبُوَّۃ  وغیرہ۔

وفات:علم و تحقیق اور رُشد و ہدایت کا یہ آفتاب 94 سال کی عمر میں غروب ہوگیا۔آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے 2 ربیع الاوّل 1052ھ کو ہند کے شہر ”دہلی“ میں وفات فرمائی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی تدفین آپ کی وصیت کے مطابق  ”حوضِ شمسی“ کےقریب(نزدباغ مہدیاں بالمقابل قلعہ کہنہ (الھند)میں) کی گئی۔(اشعۃ اللمعات،مترجم ،ج1،ص 93،94)اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 


Share

Articles

Comments


Security Code