غصے پر قابو

انسان اور نفسیات

غصے پر قابو

*ڈاکٹر زیرک عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2022ء

 ماہرینِ نفسیات کے مطابق انسان میں بنیادی طور پر چھ قسم کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ خوشی ، غم ، خوف ، گھبراہٹ ، حیرت اور غصہ۔ بچپن ہو یا جوانی ، اَدھیڑ پن ہو یا بُڑھاپا۔ زندگی کے ہر موڑ پر کہیں نہ کہیں ہمیں غصے سے پالا پڑ ہی جاتا ہے۔ چاہے کوئی کتنا ہی دعویٰ کرلے کہ مجھے غصہ نہیں آتا ، وہ شخص کبھی بھی درست نہیں ہو سکتا کیونکہ غصے کا آنا ایک فطری عمل ہے۔ قابلِ غور یہ ہے کہ ہم اس غصے کو نافذ کیسے کرتے ہیں۔ اس مضمون میں غصے کا نفسیاتی تجزیہ پیش کیا جائے گا جس میں غصے کی وجوہات ، اس سے بچاؤ کی تدابیر اور اس کے درست نِفاذ کے حوالے سے نکات  ( Points )  پیش کئے جائیں گے۔

انسان کی بہت ساری ضروریات ہوتی ہیں جن کے بغیر زندگی کا گزارا مشکل ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ تو زندہ رہنے کے لئے ضروری ہیں مثلاً کھانا ، پینا ، سونا ، لباس وغیرہا۔ اور کچھ کا تعلق ہماری Safety سے ہے مثلاً جان ، مال ، عزت اور آبرو کی حفاظت ، گرمی سردی سے حفاظت۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کو شفقت ، پیار اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ والدین ، بہن بھائی ، عزیز و اقارب اور دوست احباب کی طرف سے شفقت اور محبت ہماری شخصیت پر گہرا اثر مرتب کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ پر اعتماد اور اپنی ضروری Skills کو پروان چڑھانا ہماری ذہنی صحت کے لئے بہت ہی ضروری ہے۔

اس کے بعد یہ ذہن نشین کرلیں کہ ہماری بنیادی ضروریات اور ہمارے جذبات کا ایک دوسرے سے ڈائریکٹ لِنک ہے جیسا کہ ہم پہلے جان چکے ہیں کہ جذبات بنیادی طور پر چھ قسم کے ہیں: خوشی ، غم ، خوف ، گھبراہٹ ، حیرت اور غصہ۔ پچھلے پیراگراف میں ذکر کی گئی ضروریات اگر پوری ہوتی رہیں گی تو ہم خوش رہیں گے۔ بصورتِ دیگر غم ، خوف ، گھبراہٹ یا پھر غصہ کے جذبات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جس طرح ضروریات اور جذبات کا ڈائریکٹ لنک ہے اسی طرح جذبات اور ہمارے رویے  ( Behavior) کا بھی ڈائریکٹ لِنک ہے۔

بچپن میں تو ہم ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے ہی ہماری کوئی خواہش یا ضرورت پوری نہ ہو تو فوراً ہی غصے میں رونا دھونا شروع کردیتے ہیں۔ یعنی کہ جذبات ہی ہمارے رویے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ لیکن جوں جوں ہم شعور کی منازل طے کرتے ہیں تو ہم اپنے رویے کو کنٹرول کرنا شروع کرتے ہیں۔ والدین کی تربیت یا پھر ذاتی تجربات و حوادث ہمیں سکھا دیتے ہیں کہ کہاں جذبات کا اظہار کرنا ہے اور کہاں نہیں۔ جذبات کو کنٹرول کرنے کی Skill کو ماہرینِ نفسیات Emotional Intelligence کا نام دیتے ہیں۔ عام فہم میں ہم اس کو عقل بھی کہہ سکتے ہیں۔

اب تک کی گفتگو سے ہم اتنا ضرور سمجھ گئے ہوں گے کہ ہماری ضروریات اگر پوری نہ ہوں تو ہمارے اندر مختلف قسم کے جذبات جنم لیتے ہیں جن میں سے غصہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جتنی ہم میں عقل  (Emotional intelligence )  زیادہ ہوگی ہم اتنے ہی اچھے انداز میں غصے پر قابو پا لیں گے۔ اس سے نہ صرف ہماری اپنی زندگی خوشگوار رہے گی بلکہ اس کا مثبت اثر ہماری فیملی اور معاشرے کے دیگر افراد پر بھی پڑے گا۔

غصے پر قابو پانے کے لئے درج ذیل اُمور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں:

سب سے پہلے آپ کو غصے کے حوالے سے بنیادی اسلامی تعلیمات حاصل کرنا ہوں گی۔ بےجا غصہ نافذ کرنے کے نقصانات اور غصہ پر قابو پانے کے دنیوی اور اخروی فوائد کو جاننا اولین ضرورت ہے۔ اس ضمن میں شیخِ طریقت ، امیر اہلِ سنّت کا رسالہ  ” غصے کا علاج “  ضرور پڑھیں ، بلکہ بار بار پڑھیں۔

غصہ آنے پر سب سے پہلے اپنے آپ سے سوال کریں کہ مجھے غصہ کیوں آرہا ہے؟ میری کون سی بنیادی ضرورت پوری نہیں ہو رہی؟ کئی مرتبہ غصہ کسی جسمانی ضرورت کے پورا نہ ہونے پر آرہا ہوتا ہے۔ مثلاً بھوک ، پیاس ، نیند کی کمی یا تھکن وغیرہا۔ تو ایسی صورت میں اپنے بدن کی ضرورت کو پورا کریں۔ غصہ خود بخود دور ہوجائے گا۔

کئی مرتبہ غصہ آنے کی وجہ دوسروں کا رویہ ہوتا ہے۔ کسی نے میری بات نہیں مانی تو کسی نے میری بے عزتی کر دی۔ یا فلاں نے مجھے وہ عزت نہیں دی جو اس کو دینی چاہئے تھی۔ میں نے یہ کام کرنے کو کہا تھا وہ اس نے نہیں کیا۔ دراصل یہ دوسروں کا رویہ نہیں۔ یہ ہمارا اپنا رویہ ہے کہ ہم صرف اپنی ضروریات کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دیں۔ یہ ایک اعلیٰ خصلت ہے اور اس کو اپنانے کی کوشش کریں۔ جب ہم دوسروں کو اپنے آپ پر فوقیت دیں گے تو قدرتی طور پر ہمیں عزت و احترام ملنا شروع ہوجائے گا۔ ہماری بات مانی جائے گی اور غصے تک نوبت نہیں آئے گی۔

کچھ لوگ غصہ آنے پر خود سوزی کا راستہ اپناتے ہیں۔ غصے میں آکر بال نوچنا ، دیوار میں سر مارنا ، بلیڈ سے جلد کاٹنا ، سگریٹ سے اپنے آپ کو داغنا وغیرہ خود سوزی کی کچھ مثالیں ہیں۔ ایسے لوگ عموماً احساسِ کمتری کا شکار ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ حسّاس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسوں کو چاہئے کہ کسی ماہرِ نفسیات سے رابطہ کرکے اپنا علاج کروائیں۔ بعض اوقات سائیکو تھراپی کے ذریعے کافی مدد ملتی ہے۔

غرور اور تکبر بھی غصے کے بہت بڑے اسباب ہیں۔ دنیاوی جاہ و جلال ، عہدہ اور منصب انسان کو آخرت کے عذاب سے غافل کر کے ظالم صفت بنا دیتا ہے ، ایسوں کا علاج کسی ولیِّ کامل کی صحبت سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار اجتماع میں باقاعدگی کے ساتھ شرکت ، مدنی قافلوں میں سفر اور نیک اعمال کے رسالے پر عمل وہ اسباب ہیں جو غرور اور تکبر جیسی بری خصلت کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

بحیثیت مسلمان ہمارے لئے یہ بات جاننا بھی انتہائی ضروری ہے کہ بعض صورتوں میں غصے کا آنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ کئی ایسی صورتیں ہیں جہاں شریعت کے احکامات کے مطابق ہمیں نہ صرف غصہ آنا چاہئے بلکہ اس کا نفاذ کرنا بھی ضروری ہے۔

حاکم کو کس جرم پر کتنی سزا دینی ہے اس کی مکمل گائیڈ لائن موجود ہے۔ گھر کا سربراہ بھی حاکم ہے اپنے ماتحت افراد پر اور حاکم کے لئے یہ جاننا بھی لازم ہے کہ قیامت کے دن اُس سے اِس ذمہ داری کا حساب لیا جائے گا۔ غصے کی جائز صورتیں اور ناجائز غصے پر شریعت کی تجویز کی گئی سزاؤں کا علم حاصل کرنا ہر ایک پر لازم ہے۔

اللہ کریم ہمیں ان نکات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  ماہرِ نفسیات ، U.K


Share

Articles

Comments


Security Code