اسلام کا نظامِ زکوٰۃ

اسلام کا نظام

اسلام کا نظامِ زکوٰۃ

*مولانا فرمان علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025

کوئی بھی ملک معاشی طور پرچاہے کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو، لیکن اس میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر غربت و افلاس کی زندگی گزارتے ہیں۔ مختلف تہذیبوں اور ریاستوں نے اس کے مختلف حل نکالے ہیں، جبکہ اسلام نے زکوٰۃ کی صورت میں ایک عظیم نظام سینکڑوں سال پہلے ہی مہیا کردیا ہے، جس کے ذریعے غریب اور محتاج افراد کی ضروریاتِ زندگی پوری ہونے کا انتظام ہوتا ہے۔ اسلام نے مالداروں پر زکوٰۃ فرض کی تاکہ وہ اس کے ذریعے کمزور اور نادار طبقے کی مدد کریں اور اس طرح دولت چند لوگوں کی مٹھیوں میں قید ہونے کے بجائے مفلوک الحال افراد تک پہنچے اور یوں معاشی توازن کی فضا قائم رہے۔ پارہ 8، سُورۃُ الاَنعام، آیت نمبر165 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(وَهُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْؕ   )

ترجَمۂ کنز الایمان: اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب کیااور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ تمہیں آزمائے اس چیز میں جو تمہیں عطا کی۔([1])

یعنی آزمائش میں ڈالے کہ تم نعمت و جاہ و مال پا کر کیسے شکر گزار رہتے ہو اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کے سلوک کرتے ہو۔([2])

زکوٰۃ کی اہمیت:زکوٰۃ اراکین ِاسلام میں سے ایک اہم رکن ہے۔ زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قراٰنِ کریم میں نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر 32مرتبہ آیا ہے۔([3]) زکوٰۃ کی فرضیت کے حوالے سے قراٰنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

(1)(وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ)

ترجَمۂ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو۔([4])

(2)اسی طرح سورۃ التوبۃ میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حکم دیا گیا:

(خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّیْهِمْ بِهَا)

ترجَمۂ کنزالایمان:اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔([5])

(1)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت معاذ رضی اللہُ عنہ کو جب یمن کی طر ف روانہ کیا توان سے فرمایا:ان کو بتاؤ کہ اللہ پاک نے ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو مالداروں سے لے کر فقرا کو دی جائے۔([6]) (2)ایک اور موقع پر حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے،یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج کرنا اوررمضان کے روزے رکھنا۔([7])

زکوٰۃ کس پر فرض ہے:اسلام کے نظامِ زکوٰۃ کی یہ خوبی ہے کہ ہرایک پر فرض نہیں کی گئی ہے بلکہ چند قیود و شرائط کے ساتھ مالکِ نصاب افراد پر فرض ہے، اگر اسے بھی نماز روزہ وغیرہ عبادات کی طرح ہر ایک پر لازم کردیا جاتا تو غریب و مفلس لوگ جنہیں خود اپنی حاجت و ضرورت کے لئے مال درکار ہوتا ہے مشقت میں مبتلا ہوجاتے، لہٰذا یہ صرف مالداروں پر ہی فرض کی گئی اور وہ بھی چند شرائط کے ساتھ تاکہ اس سے مستحق اور محتاج لوگوں کی مالی مدد کی جاسکے۔زکوٰۃ کس پر فرض ہے ملاحظہ کیجئے:

زکوٰۃ دینا ہر اس عاقل، بالغ اور آزاد مسلمان پر فرض ہے جس میں یہ شرائط پائی جائیں: (1)نصاب کا مالک ہو (2)یہ نصاب نامی ہو (3)نصاب اس کے قبضے میں ہو (4)نصاب اس کی حاجتِ اصلیہ (یعنی ضروریاتِ زندگی) سے زائد ہو (5)نصاب دَین سے فارغ ہو(یعنی اس پر ایسا قرض نہ ہو جس کا مطالبہ بندوں کی جانب سے ہو، کہ اگر وہ قرض ادا کرے تو اس کا نصاب باقی نہ رہے) (6)اس نصاب پر ایک سال گزر جائے۔([8]) ان شرائط کی تفصیل جاننے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب ”فتاویٰ اہلِسنّت احکامِ زکوٰۃ“ کا ضرور مطالعہ کیجئے۔

زکوٰۃ ادا کرنے کی حکمتیں: اسلام کے بیان کردہ احکام میں ہمارے لئے ہی کثیر فوائد اور بہت سی حکمتیں ہیں۔ آئیے! زکوٰۃ کی فرضیت میں جو حکمتیں ہیں ان میں سے چند ملاحظہ کیجئے: (1)سخاوت انسان کاکمال ہے اور بخل عیب۔ اسلام نے زکوٰۃ کی ادائیگی جیسا پیارا عمل مسلمانوں کو عطا فرمایا تاکہ انسان میں سخاوت جیسا کمال پیدا ہو اور بخل جیسا قبیح عیب اس کی ذات سے ختم ہو (2)جیسے ایک ملکی نظام ہوتا ہے کہ ہماری کمائی میں حکومت کا بھی حصہ ہوتا ہے جسے وہ ٹیکس کے طور پر وصول کرتی ہے اور پھر وہی ٹیکس ہمارے ہی مفاد میں یعنی ملکی انتظام پر خرچ ہوتا ہے بلا تشبیہ ہمیں مال و دولت اور دیگر تمام نعمتوں سے نوازنے والی ہمارے ربّ ہی کی پیاری ذاتِ پاک ہے اور زکوٰۃ اللہ پاک کا حق ہے، جو ہمارے ہی غربا پر خرچ کیا جاتا ہے (3)ربّ چاہتا تو سب کو مال و دولت عطا فرماکر غنی کردیتا لیکن اس کی مشیت ہے کہ اس نے اپنے ہی بندوں میں بعضوں کو امیر اور دولت مند کیا اور بعضوں کو غریب رکھا اور امیروں یعنی صاحبِ نصاب پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازم کردی تاکہ اس سے امیروں اور غریبوں میں محبت وانسیّت اور باہمی امداد کا جذبہ پیدا ہو اور اللہ پاک کی نعمت کو سب مل بانٹ کر کھائیں اور اس کا شکرادا کریں (4)شریعت نے زکوٰۃ فرض کرکے کوئی انہونی چیز فرض نہیں کی بلکہ اگر ہم اپنے اطراف میں غوروفکر کریں تو زکوٰۃ کی حقیقت ہر جگہ موجود ہے۔ جیسے کہ پھلوں کا گودا انسان کے لئے ہے مگر چھلکا جانوروں کا حق ہے۔ گندم میں پھل ہمارا حصہ مگر بھوسہ جانوروں کا، گندم میں بھی آٹا ہمارا ہے تو بھوسی جانوروں کی۔ ہمارے جسم میں بال اور ناخن وغیرہ کا حدِّ شرعی سے بڑھنے کی صورت میں علیحدہ کرنا ضروری ہے کہ یہ سب جسم کی زکوٰۃ یعنی اضافی چیزمَیل ہیں۔ بیماری تندرستی کی زکوٰۃ، مصیبت راحت کی، نمازیں دنیاوی کاروبار کی گویا زکوٰۃ ہیں (5)اگر ہر وہ شخص جس پر زکوٰۃ فرض ہے زکوٰۃ کی ادائیگی کا التزام کرلے تو مسلمان کبھی دوسروں کے محتاج نہ ہوں گے۔ مسلمانوں کی ضرورتیں مسلمانوں سے ہی پوری ہوجائیں گی اور کسی کو بھیک مانگنے کی بھی حاجت نہ ہوگی۔([9])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])پ8، الانعام:165

([2])خزائن العرفان، پ8، الانعام، تحت الآیۃ:165

([3])ردالمحتار، 3/202

([4])پ1، البقرۃ:43

([5])پ11، التوبۃ:103

([6])ترمذی،2/126، حدیث625

([7])بخاری،1/14، حدیث:8

([8])بہارشریعت، 1/488تا578ملخصاً

([9])رسائل نعیمیہ، ص298، بتصرف


Share