احسان نہ جتائے

اسلام کی روشن تعلیمات

اِحسان نہ جتائیے

*مولاناسید بہرام حسین شاہ عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025

اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں اِرشاد فرمایا:

(اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ)

ترجَمۂ کنزالایمان:بیشک اللہ حکم فرماتا ہے اِنصاف اور نیکی کا۔([1])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:

(وَاَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ)

ترجَمۂ کنزالایمان: اور اِحسان کر جیسا اللہ نے تجھ پر اِحسان کیا۔([2])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اِن آیاتِ بینات میں اللہ پاک نے اِحسان اور نیکی کرنے کا حکم دیا ہے۔ دینِ اسلام میں کسی کے ساتھ اِحسان و بھلائی کرنے اور اس کی حاجات پوری کرنے کی بڑی اَہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، جبکہ یہ اِحسان و بھلائی اور حاجت روائی اِحسان جتانے اور عار دِلانے کی نیت سےنہ ہو بلکہ اللہ پاک کی رضا پانے اور ثواب کمانے کی نیت سے ہو۔اِس کی جزا بیان کرتے ہوئے اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:

(اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًىۙ-لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۶۲))

ترجَمۂ کنز الایمان: وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر دیئے پیچھے نہ اِحسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ (ثواب) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔([3])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

فِی زمانہ کوئی کسی کی مدد کرنے کے لئے اَوَّلاً تو تیار ہی نہیں ہوتا اور اگر مدد کر بھی دے تو عموماً کسی نہ کسی موقع پر اِحسان جتا دیتا ہے کہ میں نے فلاں وقت تمہارے ساتھ یہ اِحسان کیا، وہ اِحسان کیا،تم مطلبی شخص ہو،اِحسان فراموش ہو وغیرہ وغیرہ۔ اِس سے جہاں سامنے والے کو سخت تکلیف اور اَذیت پہنچتی ہے وہاں نیک اَعمال کا اَجر وثواب بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ اِسلام کی روشن تعلیمات میں سے یہ ہے کہ کسی کے ساتھ اِحسان و بھلائی اور مدد کرتے وقت اللہ پاک کی رضا و خوشنودی کو پیشِ نظر رکھا جائے تاکہ سامنے والے کا دِل خوش ہو اور اُسے تکلیف بھی نہ پہنچے، اور دے کر اِحسان نہ جتایا جائے تاکہ اِس کا عمل ضائع نہ ہواور اسے اَجر و ثواب بھی ملے چنانچہ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے اِرشاد فرمایا:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًاؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَاللّٰهُ لَایَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۲۶۴))

ترجَمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اپنے صدقے باطل نہ کر دو اِحسان رکھ کر اور اِیذا دے کر اس کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دِکھاوے کے لیے خرچ کرے اور اللہ اور قیامت پر ایمان نہ لائے تو اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے ایک چٹان کہ اس پر مٹی ہے اب اس پر زور کا پانی پڑا جس نے اسے نرا پتھر کر چھوڑا اپنی کمائی سے کسی چیز پر قابو نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔([4])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یعنی جس طرح منافق کو رضائے الٰہی مقصود نہیں ہوتی وہ اپنا مال رِیاکاری کے لئے خرچ کر کے ضائع کر دیتا ہے اس طرح تم اِحسان جتا کر اور اِیذا دے کر اپنے صدقات کا اَجر ضائع نہ کرو۔([5])

اللہ پاک نے اگر کسی کو دینے کے لائق بنایا ہے،کسی کے ساتھ اِحسان و بھلائی کرنے کے قابل کیا ہے تو اُسے چاہئے کہ اِحسان جتائے بغیر،رضائے اِلٰہی کی نیت سے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرے اور مشکل وقت میں ان کے کام آئے کہ اِس سے دُنیا و آخرت میں اپنا ہی فائدہ ہے کہ دُنیا میں مال میں برکت ہو گی اور آخرت میں اِنْ شآءَ اللہ پورا پورا بدلہ ملے گا، اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:

(وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْؕ-وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِؕ-وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۲))

ترجَمۂ کنز الایمان:اور تم جو اچھی چیز دو تو تمہارا ہی بھلا ہے اور تمہیں خرچ کرنا مناسب نہیں مگر اللہ کی مرضی چاہنے کے لئے اور جو مال دو تمہیں پورا ملے گا اور نقصان نہ دیئے جاؤ گے۔([6])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

جس طرح قراٰنِ کریم کی آیاتِ بینات میں اِحسان جتانے کی ممانعت بیان فرمائی گئی اِسی طرح اَحادیثِ مبارکہ میں بھی اِحسان جتانے پر سخت وعیدات اِرشاد فرمائی گئی ہیں چنانچہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:دھوکے باز،بخیل اور اِحسان جتانے والا جنَّت میں داخل نہیں ہو گا۔([7])ایک اور حدیثِ پاک میں فرمایا: اِحسان جتانے والا، والدین کا نافرمان اور شراب کا عادی جنَّت میں نہیں جائے گا۔([8])

تابعی بزرگ حضرت حسن بَصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بعض لوگ کسی شخص کو راہِ خُدا میں جہاد وغیرہ پر بھیجتے ہیں یا کسی آدمی پر کچھ خَرْچ کرتے ہیں اور اس کے نان و نَفَقہ (اَخراجات) کا اِہتمام کرتے ہیں تو بعد میں اس پر اِحسان جتاکر اسے اِیذا پہنچاتے ہیں مثلاً اِحسان جتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے راہِ خُدا میں اتنا اتنا خرچ کیا، بارگاہِ خداوندی میں ان کے عمل کا کوئی ثواب نہیں۔ جو لوگ کسی کو دے کر یہ کہتے ہیں کہ کیا میں نے تم کو اتنی اتنی چیز نہیں دی تھی؟ وہ یہ کہہ کر اس کو اِیذا پہنچاتے ہیں۔([9])

کسی کے ساتھ اِحسان کر کے بھول جانا چاہئے تاکہ نہ اِحسان یاد رہے اور نہ اِحسان جتانے کی نوبت آئے۔ مشہور محاورہ ہے: ’’نیکی کر دریا میں ڈال۔ “ اِس معاملے میں ہمارے بزرگانِ دِین رحمۃُ اللہِ علیہم کا طرزِ عمل بھی کیا خوب تھا کہ کسی پر اِحسان کر کے جتانا تو دور کی بات اُس سے دُعائے خیر کے بھی طالب نہ ہوتے کہ کہیں یہ دُعا ان کے اِحسان کا بدلہ نہ ہوجائے،اگر کوئی خود دُعا دے بھی دیتا تو اس کے بدلے میں اس کیلئے بھی دُعا فرما دیا کرتے، چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ اور اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہُ عنہما جب فقیر کی طرف کوئی ہدیہ بھیجتیں تو لے جانے والے سے کہتیں کہ اس کے دُعائیہ کلمات کو یاد رکھے، پھر اس جیسے کلمات کے ساتھ جواب دیتیں اور فرماتیں:دُعا کے بدلے اس لئے دعا دی ہے تاکہ ہمارا صدقہ محفوظ رہے۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم اور آپ کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔([10])

یاد رکھئے!اِحسان جتانا اللہ پاک کی اعلیٰ صفات جبکہ ہماری مذموم صفات ميں سے ہے کيونکہ اللہ پاک کا اِحسان جتانا مہربانی اور مخلوق کو اس کا واجب کردہ شکر ادا کرنے کی ياد دِہانی ہے جبکہ ہمارا اِحسان جتانا عار دِلانا ہوتا ہے کيونکہ صدقہ لينے والا غير کا محتاج ہونے کی وجہ سے شکستہ دل ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ کے اوپر ہونے کا معترف ہوتا ہے، لہٰذا جب دينے والا اپنی نعمت کا اِظہار کرے يا بَرتری جتائے يا اس اِحسان کے عِوض کوئی خدمت يا شکر کا مطالبہ کرے تو یہ چیز لینے والے کے نقصان، شکستہ دلی، عار محسوس کرنے اور دِل کے ٹوٹنے میں اِضافہ کرتی ہے جو کہ عظیم قباحتیں ہیں۔([11])

بہرحال اِحسان نہیں جتانا چاہئے، ہاں جس پر اِحسان کیا جائے اُسے چاہئے کہ اپنے محسن کے اِحسان کا حتَّی المَقْدُور بدلہ دے۔ حدیثِ پاک میں ہے:جس پر کوئی اِحسان کیا جائے اور وہ طاقت رکھتا ہو تو اس اِحسان کا بدلہ ضرور دے،ورنہ اِحسان کرنے والے کی تعريف ہی کر دے کيونکہ جس نے اِحسان کرنے والے کی تعريف کی اس نے شکریہ ادا کيا اور جس نے کسی کے اِحسان کو چھپايا اس نے ناشکری کی۔([12]) اللہ پاک ہمیں اپنی رضا کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ اِحسان و بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ذمہ دار شعبہ مدنی مذاکرہ المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])پ14،النحل:90

([2])پ20،القصص:77

([3])پ3، البقرہ: 262

([4])پ3،البقرۃ: 264

([5])خزائن العرفان،پ 3، البقرۃ، تحت الآيۃ:264

([6])پ3،البقرۃ:272

([7])ترمذی، 3/388، حدیث:1970

([8])نسائی،ص895،حدیث:5683

([9])درمنثور، البقرۃ، تحت الآيۃ:262، 2/39

([10])احیاء العلوم، 1/292

([11])الزواجر،1/414

([12])ترمذی،3/417، حدیث:2041۔


Share