حسن معاشرت کے نبوی اصول(پانچویں اور آخری قسط)

اسلام کی روشن تعلیمات

حسنِ معاشرت کے نبوی اصول ( پانچویں اور آخری قسط )

*مولانا ابوالحسن عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2023ء

اصول68 : کمزوروں کے لئے کوشش کرو !

اَلسَّاعِي عَلَى الْاَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ اَوِ الْقَائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهَارَ یعنی بیوہ اور مسکین کی خدمت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس آدمی کی مانند ہے جو رات بھر قیام کرتا ہو اور دن بھر روزہ رکھتا ہو۔  [1]

اصول69 : حتّی الامکان بھائیوں کی معاونت کرتے رہو !

وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ اَخِيهِ یعنی جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے تب تک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا رہتا ہے۔[2]

اصول70 : نقصان پہنچانے سے بچو !

لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ کسی کو بلاسبب نقصان نہ پہنچاؤ اور نہ ہی بدلہ لینے میں تجاوز کرو۔[3]

اصول71 : اپنی محنت سے کماؤ !

مَا اَكَلَ اَحَدٌ طَعَامًا خَيْرًا مِّنْ اَنْ يَّاْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهٖ وَاِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ دَاوُدَ كَانَ يَاْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهٖ یعنی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کسی نے نہیں کھایا۔ اللہ کے نبی داؤد علیہ السّلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔[4]

اصول72 : آپس میں خونریزی مت کرو !

مَن حَمَلَ عَلَينَا السَّلَاحَ فَلَيسَ مِنَّا یعنی جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں۔[5]

اصول37 : خونی رشتوں کو جوڑو کہ یہ فراخی کا سبب ہے !

مَنْ اَحَبَّ اَنْ يُّبْسَطَ لَهٗ فِي رِزْقِهٖ وَيُنْسَاَ لَهٗ فِي اَثَرِهٖ فَلْيَصِلْ رَحِمَهٗ یعنی جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے رزق اور عمر میں اضافہ ہو ، اسے اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنا چاہئے۔[6]

صِلَةُ الرَّحِمِ تَزِيدُ فِي العُمُرِ یعنی رشتہ داروں سے حُسنِ سلوک عمر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔[7]

اصول74 : ماں باپ کا اکرام کرو !

 عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ اَبِيهِ عَنْ جَدِّهٖ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہ مَن اَبَرُّ ؟ قَالَ اُمَّكَ ثُمَّ اُمَّكَ ثُمَّ اُمَّكَ ثُمَّ اَبَاكَ ثُمَّ الاَقرَبَ فَالاَقرَبَ یعنی حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کیا کہ میں سب سے زیادہ حسن سلوک کس سے کروں ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اپنی ماں سے ، پھر اپنی ماں سے ، پھر اپنی ماں سے ، پھر اپنے باپ سے پھر درجہ بدرجہ رشتہ داروں سے۔[8]

اصول75 : لوگوں کے لئے باعثِ شَر نہ بنو !

اِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ اتِّقَاءَ شَرِّهٖ یعنی اللہ کے نزدیک بدترین حیثیت کا حامل قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جس کی بدسلوکی سے بچنے کے لئے لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں۔[9]

اصول76 : قرضداروں پر آسانی کرو !

كَانَ الرَّجُلُ يُدَايِنُ النَّاسَ وَكَانَ يَقُولُ لِفَتَاهُ اِذَا اَتَيْتَ مُعْسِرًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ لَعَلَّ اللَّهَ اَنْ يَتَجَاوَزَ عَنَّا فَلَقِيَ اللَّهَ فَتَجَاوَزَ عَنْهُ یعنی ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا وہ اپنے ملازم سے کہتا جب تم کسی تنگ دست سے وصولی کرنے جاؤ تو درگزر کرنا۔ شاید اللہ تعالیٰ بھی ہم سے درگزر کر لے۔ چنانچہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچا  ( وفات پا گیا )  تو اللہ نے اس سے درگزر کا معاملہ کیا۔[10]

اصول77 : حلال کماؤ اور خیر میں لگاؤ !

لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْاَلَ عَنْ اَرْبَعٍ عَنْ عُمُرِهٖ فِيْمَا اَفْنَاهُ ؟ وَعَنْ جَسَدِهٖ فِيْمَا اَبْلَاهُ ؟ وَعَنْ مَالِهٖ مِنْ اَيْنَ اکْتَسَبَهٗ وَفِيْمَا وَضَعَهٗ ؟ وَعَنْ عِلْمِهٖ مَاذَا عَمِلَ فِيهِ ؟ یعنی قیامت کے دن بندہ اس وقت تک قدم نہ ہٹاسکے گا جب تک اس سے چار سوالات کر لئے جائیں۔  ( 1 ) اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں گزارا ؟  ( 2 ) اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں استعمال کیا ؟  ( 3 ) اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ؟  ( 4 ) اس کے علم کے بارے میں کہ اس کے مطابق کہاں تک عمل کیا۔[11]

اصول78 : دنیا کی حرص و لالچ سے بچو !

لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغٰى ثَالِثًا وَلَا يَمْلَاُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ اِلَّا التُّرَابُ یعنی اگر آدمی کے پاس دو وادیاں مال سے بھری ہوئی ہوں تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا۔ اِبنِ آدم کے پیٹ کو سوائے مٹی کے کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔[12]

اصول79 : گالی گلوچ اور قتل و غارت سے بچو !

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهٗ كُفْرٌ یعنی مسلمان کو گالی دینا گناہ اور اسے قتل کرنا کفر  ( یعنی کافروں جیسا عمل )  ہے۔[13]

اصول80 : غیرعورتوں سے کامل اجتناب کرو !

مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً اَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ یعنی میں اپنے بعد مَردوں کے لئے عورتوں سے بڑھ کر نقصان دہ فتنہ نہیں چھوڑ کر جا رہا۔[14]

اصول81 : عورتیں شوہروں کے حقوق کا خیال رکھیں !

اَيُّمَا اِمْرَاَةٍ مَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَنْهَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ یعنی جو عورت اس حال میں فوت ہوئی کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا وہ جنّت میں داخل ہو گی۔[15]

اصول82 : قدرتی فیصلوں پر راضی رہو !

اِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ ‏‏‏‏‏‏قَالَ اللَّهُ لِمَلَائِكَتِہٖ قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِی فَيَقُولُونَ‏‏‏‏ نَعَمْ فَيَقُولُ قَبَضْتُمْ ثَمَرَةَ فُؤَادِهٖ فَيَقُولُونَ نَعَمْ فَيَقُولُ مَاذَا قَالَ عَبْدِي فَيَقُولُونَ حَمِدَكَ وَاسْتَرْجَعَ فَيَقُولُ اللَّهُ ابْنُوا لِعَبْدِي بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُّوهُ بَيْتَ الْحَمْدِ یعنی جب بندے کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے : تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کر لی ؟ وہ کہتے ہیں : جی ہاں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تم نے اس کے دل کے ٹکڑے کو لے لیا ہے ؟ وہ کہتے ہیں : جی ہاں۔ تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میرے بندے کا کیا کہنا تھا ؟ وہ کہتے ہیں : اس نے تیری تعریف کی اور اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُون پڑھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے کیلئے جنّت میں ایک عظیم الشان گھر بناؤ اور اس کا نام بیتُ الحمد رکھو۔[16]

اصول83 : انجام پر نظر لازمی رکھو !

اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيْمِ یعنی اعمال کی قبولیت کا انحصار خاتمہ پر ہے۔[17]

اصول84 : بچوں ، ملازموں حتّٰی کہ استعمالی چیزوں کا بھی اکرام کرو !

لَا تَدْعُواعَلٰی اَنْفُسِکُمْ وَلَا تَدْعُواعَلٰى اَوْلَادِكُمْ وَلَا تَدْعُوا عَلٰی خَدَمِكُمْ وَلَا تَدْعُوا عَلٰی اَمْوَالِكُمْ لَا تُوَافِقُوْا مِنَ اللَّهِ سَاعَةَ نَيْلٍ فِيْهَا عَطَاءٌ فَيَسْتَجِيْبَ لَكُمْ یعنی اپنی ذات ، اپنی اولاد ، اپنے خدام اور اپنے اموال کے لئے بد دعا نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم دعا کرتے وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے قبولیت کی اس گھڑی کو پا لو جس میں تمہاری بُری دعا قبول ہو جائے  ( پھر تم پچھتانے لگو ) ۔[18]

اصول85 : غلطی پر اصرار نقصان دہ جبکہ اعتراف و رجوع اصل کامیابی ہے !

كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِيْنَ التَوَّابُونَ یعنی ہر آدمی محلِ خطا ہے اور خطاکاروں میں بہتر وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں۔[19]

اصول86 : تیسرے کے سامنے دو کی سرگوشی باعثِ فتنہ ہے !

اِذَا كَانُوا ثَلَاثَةٌ فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ یعنی جب تین لوگ ایک جگہ بیٹھے ہوں تو ان میں سے دو افراد تیسرے کو چھوڑ کر آپس میں کھسر پھسر نہ کریں۔  ( اس سے تیسرے کی دل شکنی ہوتی ہے ) ۔[20]

اصول87 : ترجیح مال یا حسب و نسب کو نہ دو !

تُنْكَحُ الْمَرْاَةُ لِاَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدَّینِ یعنی کسی عورت سے چار چیزوں کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے ، اس کے مال ، حسب و نسب ، حسن و جمال یا دین کی وجہ سے۔تم دین والی کو ترجیح دو۔[21]

اصول88 : عیادت اور تیمارداری میں ہمیشہ بھلا چاہو !

مَنْ عَادَ مَرِيضًا ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَحْضُرْ اَجَلُهٗ فَقَالَ عِنْدَهٗ سَبْعَ مِرَارٍ اَسْاَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ اَنْ يَّشْفِيَكَ اِلَّا عَافَاهُ اللَّهُ مِنْ ذٰلِكَ الْمَرَضِ یعنی جو کسی ایسے مریض کی عیادت کرے جس کی موت کا وقت نہ آیا ہو پھر اس کے پاس سات مرتبہ یہ پڑھے : ”اَسْئَلُ اللّٰہَ الْعَظِیمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ اَنْ یَّشفِیَکَ “ میں عظمت والے اللہ ، عرش عظیم کے رب سے سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا دے ، تو اللہ تعالیٰ اس بیماری سے اسےشفا عطا فرماتا ہے۔[22]

اصول89 : علاج ڈھونڈو ! کیونکہ ہر درد کی دوا ہے

لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ فَاِذَا اُصِيْبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَاَ بِاِذْنِ اللهِ عَزَّوَجَلَّ یعنی ہر بیماری کی دوا ہے ، جب دوا بیماری تک پہنچا دی جاتی ہے تواللہ پاک کے حکم سے مریض اچھا ہو جاتا ہے۔[23]

اصول90 : علم کو فروغ دو !

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ یعنی علم حاصل كرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔[24]

اصول91 : راستوں کی تکلیفیں دور کرو !

لَقَدْ رَاَيْتُ رَجُلًا يَتَقَلَّبُ فِي الْجَنَّةِ فِي شَجَرَةٍ قَطَعَهَا مِنْ ظَهْرِ الطَّرِيقِ كَانَتْ تُؤْذِي المُسلِمِینَ یعنی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمايا کہ میں نے ایک شخص کو جنت میں مزے سے پھرتے دیکھا ، اس سبب سے کہ اس نے راستہ کے کنارے سے ایک ایسا درخت کاٹ دیا تھا جو لوگوں کے لئے باعثِ تکلیف تھا۔[25]

اصول92 : منصب اور احوال کی رعایت کرو !

يُسَلِّمُ الرَّاکِبُ عَلَى المَاشِی وَالمَاشِی عَلَى الْقَاعِدِ وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ وَفِی رِوَایَۃٍ يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ یعنی سوار شخص پیدل کو ، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو ، تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرنے میں پہل کرے۔[26]

اصول93 : فتنے اور بدامنی کے بنیادی اسباب کو کنڑول کرو !

مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ ، وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ اَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ یعنی جو مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔  [27]

اصول94 : باپ کی عزّت و فرماں برداری کرو !

رِضَى الرَّبِّ فِي رِضَى الْوَالِدِ وَسَخَطُ الرَّبِّ في سَخَطِ الْوَالِدِ یعنی رب تعالیٰ کی رضا والد کی رضامندی میں ہے اور رب تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔  [28]

اصول95 : ظاہر کے ساتھ ساتھ باطنی نفاست کے اسباب بھی اختیار کرو !

اَرَاَيْتُمْ لَوْ اَنَّ نَهْرًا بِبَابِ اَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ هَلْ يَبْقَى مِنْ دَرَنِهٖ شَيْءٌ قَالُوا لَا يَبْقَى مِنْ دَرَنِهٖ شَيْءٌ قَالَ فَکَذٰلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ يَمْحُو اللهُ بِهِنَّ الْخَطَايَا یعنی تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو جس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو ، کیا اس کے بدن پر کچھ میل کچیل رہ جائے گا ؟ صحابہ نے عرض کیا : بالکل نہیں رہے گا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : پانچ نمازوں کی مثال ایسی ہی ہے۔اللہ ان کے ذریعے خطاؤں کو مٹاتا ہے۔[29]

اصول96 : صفائی ستھرائی اپناؤ !

الطُّهُورُ شَطْرُ الْاِيْمَانِ یعنی طہارت نصف ایمان ہے۔[30]

اصول97 : بھلائی اور تعاونِ خیر کے ذرائع مت روکو !

مَا مَنَعَ قَومٌ الزَّكاةَ اِلَّا ابتَلَاهُمُ اللہ بِسِنِينَ یعنی کوئی قوم جب زکوٰۃ دینا بند کر دیتی ہے تو اللہ اسے قحط سالی میں مبتلا کر دیتا ہے۔[31]

اصول98 : خیانت بہت بڑی محرومی ہے !

اِنَّ اللَّهَ ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ اَنَا ثَالِثُ الشَّرِيْكَيْنِ مَا لَمْ يَخُنْ اَحَدُهُمَا صَاحِبَهٗ فَاِذَا خَانَهٗ خَرَجْتُ مِنْ بَيْنِهِمَا یعنی اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : کسی چیز یا کاروبار میں شریک دو افراد جب تک ایک دوسرے کے ساتھ خیانت نہ کریں تب تک ان کے ساتھ تیسرا میں ہوتا ہوں ، مگر جب کوئی ایک خیانت کرتا ہے تو میں ان کے درمیان سے نکل جاتا ہوں۔[32]

اصول99 : معاشرتی تباہی کے اسباب سے بچو !

اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ قِيْلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا هُنَّ قَالَ الشِّرْكُ بِاللَّهِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ وَاَكْلُ الرِّبَا وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ یعنی سات تباہ کرنے والے گناہوں سے بچو۔ عرض کیا گیا : یارسولَ اللہ ! وہ کون سے گناہ ہیں ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ، جادو ، کسی شخص کو ناحق قتل کرنا ، یتیم کا مال کھانا ، سودکھانا ، جنگ کے دن میدانِ جنگ سے بھاگنا ، پاک دامن اور بھولی بھالی مؤمنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔[33]

اصول100 : برائی کی آمیزش سے بھلائی کو بےفائدہ نہ کرو !

مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهٖ ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِيْ اَنْ يَدَعَ طَعَامَهٗ وَشَرَابَهٗ یعنی جو روزے دار گناہ کی بات اور گناہ کا کام کرنے سے باز نہیں آتا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔[34]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] بخاری ، 3/511 ، حدیث : 5353

[2] مسلم ، ص1110 ، حدیث : 6853

[3] مسند امام احمد ، 1/672 ، حدیث : 2867

[4] بخاری ، 2/11 ، حدیث : 2072

[5] بخاری ، 4/433 ، حدیث : 7070

[6] مسلم ، ص1062 ، حدیث : 6524

[7] معجمِ کبیر ، 8/261 ، حدیث : 8014

[8] ابوداؤد ، 4/433 ، حدیث : 5139

[9] بخاری ، 4/108 ، حدیث : 6032

[10] بخاری ، 2/470 ، حدیث : 3480

[11] سنن دارمی ، 1/145 ، حدیث : 539 ، معجم کبیر ، 20/60 ، حدیث : 111

[12] بخاری ، 4/228 ، حدیث : 6436

[13] بخاری ، 1/30 ، حدیث : 48

[14] بخاری ، 3/431 ، حدیث : 5096

[15] ترمذی ، 2/386 ، حدیث : 1164

[16] ترمذی ، 2 / 131 ، حدیث : 1023

[17] بخاری ، 4 / 274 ، حدیث : 6607

[18] ابو داؤد ، 2/126 ، حدیث : 1532

[19] ترمذی ، 4 / 224 ، حدیث : 2507

[20] بخاری ، 4 / 185 ، حدیث : 6288

[21] بخاری ، 3/429 ، حدیث : 5090

[22] ابو داؤد ، 3/251 ، حدیث : 3106

[23] مسلم ، ص933 ، حدیث : 5741

[24] ابن ماجہ ، 1/146 ، حدیث : 224

[25] مسلم ، ص1081 ، حدیث : 6671

[26] بخاری ، 4/166 ، حدیث : 6233-6234

[27] بخاری ، 4/240 ، حدیث : 6474

[28] ترمذی ، 3/360 ، حدیث : 1907

[29] مسلم ، ص263 ، حدیث : 1522

[30] مسلم ، ص115 ، حدیث : 534

[31] معجم اوسط ، 3/275 ، حدیث : 4577

[32] ابوداؤد ، 3/350 ، حدیث : 3383

[33] بخاری ، 2/242 ، حدیث : 2766

[34] بخاری ، 1/628 ، حدیث : 1903۔


Share

Articles

Comments


Security Code