خود انحصاری

اسلام کی روشن تعلیمات

خُوداِنْحِصَاری  ( Self Reliance )

*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2023

دینِ اسلام ہمیں خود انحصاری یعنی اپنی ضروریات خود اپنی محنت سے پوری کرنے  کا درس دیتا ہے اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے  اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے سے منع کرتا ہے۔ ہمیں اپنی غریبی کا رونا رونے کے بجائے خود پر اِنحصار کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بروئےکار لاکر ، اپنی قابلیت کا بھرپور استعمال کرکے ، سخت محنت و مشقت برداشت کرتے ہوئے حلال مال کا حصول ممکن بنانا چاہئے ، تاکہ ہم اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بناسکیں۔ اس کے لئے کوئی جاب کرلیں۔ ترقی کرنی ہے تو ایسی ملازمت کو عار مت سمجھیں یا کوئی ہنر سیکھ کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔ مختلف اسکلز سیکھیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا  میں  جائز طریقوں سے پیسا کمائیں۔ یوں بھی کرسکتے ہیں کہ  بچت کے راستوں سے کچھ مناسب رقم جمع کرکے پارٹ ٹائم کوئی  مختصر اور چھوٹا کام شروع کرلیں۔ مطلب یہ ہے کہ خود انحصاری کو ترجیح دینی ہےتاکہ محنت و مشقت کی عادت پڑے ، محض والدین کی کمائی پر نہ رہیں یا ان پر بوجھ نہ بنیں۔

خود انحصاری کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہم قناعت سے کام لیں ، اپنے پاس دستیاب وسائل پر انحصار کریں ، اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں ، آمدن اور خرچ میں توازن قائم رکھیں ، اگر ہم  یہ کرنے میں  کامیاب ہوگئے تو  اس کے کثیر فوائدو منافع چاروں طرف سے ہمارا رُخ کرلیں گے ، جس کی برکت سے ہماری روزمرہ مشکلات قابو میں آجائیں گی اور زندگی آسان ہوجائے گی۔  اِن شآءَ اللہ

خود انحصاری کے تقاضے

 ( 1 ) اپنے ربِّ کریم پر بھروسا کریں۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا اپنے پروردگار پر توکل  مضبوط تر ہونا چاہئے اور دل میں یہ بات پختہ کرلیں کہ ہمارے پاس محدود وسائل میں برکت دینے والی ذات اُسی ربِّ ذُوالجلال کی ہے۔وہی ذرے کو آفتاب کرتا ہے۔بے وقعت کو رشکِ قمر بناتا ہے۔ دانے کو درخت میں  بدل دیتا ہے۔ عام دھات  کو سونا بنادیتا ہے۔سیپ کے اندر  داخل ہونے والے بارش کے قطرے کو موتی سے بدل دیتا ہے۔الغرض ساری طاقت و قدرت اُسی کے قبضہ واختیار میں ہے ، لہٰذا خود انحصاری میں پہلا کام اللہ پاک پر بھروسا ہے۔

 ( 2 )  خودانحصاری تب ہی فائدہ مند ہوگی جب ہم اپنا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دیں گےاور اس کے لئے وقت کا استعمال عقل مندی کے ساتھ ہو۔ فارغ وقت کو قابلِ استعمال بنایا جائےاورمزید  ایسے طریقے  تلاش کئے جائیں جن سے اپنے کام میں بہتری وترقی آئے۔

 ( 3 ) مشکلات سے گھبرانے کے بجائے اُن کا حل ڈھونڈیں۔ پیش آنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں کو مختلف طریقوں سے دور یا ختم کرنے کی بھرپور کوشش کریں ، اگر خود مسئلہ حل کرنے میں کامیاب نہ ہوں  یا درست سمت سوچ نہ سکیں  تو کسی مخلص و خوفِ خدا رکھنے والے سے مشورہ کرلیں۔ قراٰن پاک میں حضرت یوسف علیہ السّلام کی مثال ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ قحط کے سات سالوں سے گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے بلکہ اپنی فہم وفراست اور خود انحصاری کو بُروئے کار لاتے ہوئے اِس پریشانی کا بہترین وبے مثال حل نکال لیا۔

  ( 4 ) خوداِنحصاری کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اَخْراجات پر کنٹرول رکھیں تاکہ  زندگی خوشحال اور پُرسکون  رہے۔ اگرخرچ کو منظم انداز میں نہ چلایا جائے ، بچت پر توجہ نہ دی جائے تو بے سکونی ، بے اطمینانی ، بے برکتی ، شکوہ و شکایت ، گھریلو جھگڑے اور ذہنی الجھن جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خوش حالی کا دارو مَدار دوچیزوں پر ہے ، کمانا ، خرچ کرنا مگر ان دونوں میں” خرچ کرنا“ بہت ہی کمال ہے ، کمانا سب جانتے ہیں خرچ کرنا کوئی کوئی جانتا ہے ، جسے خرچ کرنے کا سلیقہ آگیا وہ اِن شآءَ اللہ ہمیشہ خوش رہے گا۔ ( مراٰۃ المناجیح ، 6 / 634 )

آج ہم  محض دکھاوے کے شوق یا دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش یا جھوٹی خوشیوں کی خاطر اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ کبھی فیشن  ( Fashion )  کے نام پر ، کبھی مہنگے ریستوران  ( Restaurant )  میں کھانا کھاکر ، کبھی نئے موبائل ، نئی سواری اور نئے فرنیچر کی وجہ سے ، کبھی بلاضرورت گھر کی تزئین وآرائش  کرکے اور کبھی تقریبات میں نت نئے ملبوسات و جیولری کے نام پرخرچ کرڈالتے ہیں اور پھرطرح طرح کے مسائل کا شکار ہوتے اور  لوگوں سے ادھار مانگتے نظرآتے ہیں۔ حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی: اپنے پاس موجود مال میں حُسنِ تدبیریعنی کفایت شِعاری سے کام لینا اور لوگوں سے بے نیاز ہوجانا۔

 ( امام اعظم کی وصیتیں ، ص32 )

 ( 5 )  اپنی تعلیم کو مضبوط  کریں۔ غور وفکر اور دل جمعی کے ساتھ تعلیم حاصل کریں۔ ممکن ہو تو مختلف کورسز اور ڈپلومے کریں۔  کتابوں اور کامیاب لوگوں سے ترقی کرنے ، آگے بڑھنے کے طریقے سیکھیں کیونکہ بسا اوقات مسائل کا حل تجربہ و مہارت نیز  مضبوط یا مزید تعلیم میں ہوتا ہے ، جتنا زیادہ یا پختہ علم ہوگا اورجتنا تجربہ و مہارت ہوگی اتنی  ہی آپ کو ترجیح دی جائے گی۔ الغرض آپ کے پاس قابلِ فروخت مہارت ہونی چاہئے۔

  ( 6 ) دیانتداری ، امانت داری اور ایمان داری  ہر وقت اور ہرجگہ پیشِ نظر رکھیں۔مال ودولت دیکھ کر  بے ایمانی و خیانت  نہ کریں۔مشکل وقت میں بھی ہمارے اخلاقیات پر حرف نہ آئے۔ہمارے معیار اور حوصلے  میں کمی نہیں آنی چاہئے۔

اللہ ربُّ العزّت ہمیں خودانحصاری ، قناعت ، توکّل اور دیانت کی دولت سے نوازے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ تراجم ، المدینۃُ العلمیہ   Islamic Research Center


Share

خود انحصاری

اسلام کی روشن تعلیمات

خُوداِنْحِصَاری  ( Self Reliance )

*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2023

دینِ اسلام ہمیں خود انحصاری یعنی اپنی ضروریات خود اپنی محنت سے پوری کرنے  کا درس دیتا ہے اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے  اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے سے منع کرتا ہے۔ ہمیں اپنی غریبی کا رونا رونے کے بجائے خود پر اِنحصار کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بروئےکار لاکر ، اپنی قابلیت کا بھرپور استعمال کرکے ، سخت محنت و مشقت برداشت کرتے ہوئے حلال مال کا حصول ممکن بنانا چاہئے ، تاکہ ہم اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بناسکیں۔ اس کے لئے کوئی جاب کرلیں۔ ترقی کرنی ہے تو ایسی ملازمت کو عار مت سمجھیں یا کوئی ہنر سیکھ کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔ مختلف اسکلز سیکھیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا  میں  جائز طریقوں سے پیسا کمائیں۔ یوں بھی کرسکتے ہیں کہ  بچت کے راستوں سے کچھ مناسب رقم جمع کرکے پارٹ ٹائم کوئی  مختصر اور چھوٹا کام شروع کرلیں۔ مطلب یہ ہے کہ خود انحصاری کو ترجیح دینی ہےتاکہ محنت و مشقت کی عادت پڑے ، محض والدین کی کمائی پر نہ رہیں یا ان پر بوجھ نہ بنیں۔

خود انحصاری کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہم قناعت سے کام لیں ، اپنے پاس دستیاب وسائل پر انحصار کریں ، اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں ، آمدن اور خرچ میں توازن قائم رکھیں ، اگر ہم  یہ کرنے میں  کامیاب ہوگئے تو  اس کے کثیر فوائدو منافع چاروں طرف سے ہمارا رُخ کرلیں گے ، جس کی برکت سے ہماری روزمرہ مشکلات قابو میں آجائیں گی اور زندگی آسان ہوجائے گی۔  اِن شآءَ اللہ

خود انحصاری کے تقاضے

 ( 1 ) اپنے ربِّ کریم پر بھروسا کریں۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا اپنے پروردگار پر توکل  مضبوط تر ہونا چاہئے اور دل میں یہ بات پختہ کرلیں کہ ہمارے پاس محدود وسائل میں برکت دینے والی ذات اُسی ربِّ ذُوالجلال کی ہے۔وہی ذرے کو آفتاب کرتا ہے۔بے وقعت کو رشکِ قمر بناتا ہے۔ دانے کو درخت میں  بدل دیتا ہے۔ عام دھات  کو سونا بنادیتا ہے۔سیپ کے اندر  داخل ہونے والے بارش کے قطرے کو موتی سے بدل دیتا ہے۔الغرض ساری طاقت و قدرت اُسی کے قبضہ واختیار میں ہے ، لہٰذا خود انحصاری میں پہلا کام اللہ پاک پر بھروسا ہے۔

 ( 2 )  خودانحصاری تب ہی فائدہ مند ہوگی جب ہم اپنا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دیں گےاور اس کے لئے وقت کا استعمال عقل مندی کے ساتھ ہو۔ فارغ وقت کو قابلِ استعمال بنایا جائےاورمزید  ایسے طریقے  تلاش کئے جائیں جن سے اپنے کام میں بہتری وترقی آئے۔

 ( 3 ) مشکلات سے گھبرانے کے بجائے اُن کا حل ڈھونڈیں۔ پیش آنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں کو مختلف طریقوں سے دور یا ختم کرنے کی بھرپور کوشش کریں ، اگر خود مسئلہ حل کرنے میں کامیاب نہ ہوں  یا درست سمت سوچ نہ سکیں  تو کسی مخلص و خوفِ خدا رکھنے والے سے مشورہ کرلیں۔ قراٰن پاک میں حضرت یوسف علیہ السّلام کی مثال ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ قحط کے سات سالوں سے گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے بلکہ اپنی فہم وفراست اور خود انحصاری کو بُروئے کار لاتے ہوئے اِس پریشانی کا بہترین وبے مثال حل نکال لیا۔

  ( 4 ) خوداِنحصاری کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اَخْراجات پر کنٹرول رکھیں تاکہ  زندگی خوشحال اور پُرسکون  رہے۔ اگرخرچ کو منظم انداز میں نہ چلایا جائے ، بچت پر توجہ نہ دی جائے تو بے سکونی ، بے اطمینانی ، بے برکتی ، شکوہ و شکایت ، گھریلو جھگڑے اور ذہنی الجھن جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خوش حالی کا دارو مَدار دوچیزوں پر ہے ، کمانا ، خرچ کرنا مگر ان دونوں میں” خرچ کرنا“ بہت ہی کمال ہے ، کمانا سب جانتے ہیں خرچ کرنا کوئی کوئی جانتا ہے ، جسے خرچ کرنے کا سلیقہ آگیا وہ اِن شآءَ اللہ ہمیشہ خوش رہے گا۔ ( مراٰۃ المناجیح ، 6 / 634 )

آج ہم  محض دکھاوے کے شوق یا دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش یا جھوٹی خوشیوں کی خاطر اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ کبھی فیشن  ( Fashion )  کے نام پر ، کبھی مہنگے ریستوران  ( Restaurant )  میں کھانا کھاکر ، کبھی نئے موبائل ، نئی سواری اور نئے فرنیچر کی وجہ سے ، کبھی بلاضرورت گھر کی تزئین وآرائش  کرکے اور کبھی تقریبات میں نت نئے ملبوسات و جیولری کے نام پرخرچ کرڈالتے ہیں اور پھرطرح طرح کے مسائل کا شکار ہوتے اور  لوگوں سے ادھار مانگتے نظرآتے ہیں۔ حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی: اپنے پاس موجود مال میں حُسنِ تدبیریعنی کفایت شِعاری سے کام لینا اور لوگوں سے بے نیاز ہوجانا۔

 ( امام اعظم کی وصیتیں ، ص32 )

 ( 5 )  اپنی تعلیم کو مضبوط  کریں۔ غور وفکر اور دل جمعی کے ساتھ تعلیم حاصل کریں۔ ممکن ہو تو مختلف کورسز اور ڈپلومے کریں۔  کتابوں اور کامیاب لوگوں سے ترقی کرنے ، آگے بڑھنے کے طریقے سیکھیں کیونکہ بسا اوقات مسائل کا حل تجربہ و مہارت نیز  مضبوط یا مزید تعلیم میں ہوتا ہے ، جتنا زیادہ یا پختہ علم ہوگا اورجتنا تجربہ و مہارت ہوگی اتنی  ہی آپ کو ترجیح دی جائے گی۔ الغرض آپ کے پاس قابلِ فروخت مہارت ہونی چاہئے۔

  ( 6 ) دیانتداری ، امانت داری اور ایمان داری  ہر وقت اور ہرجگہ پیشِ نظر رکھیں۔مال ودولت دیکھ کر  بے ایمانی و خیانت  نہ کریں۔مشکل وقت میں بھی ہمارے اخلاقیات پر حرف نہ آئے۔ہمارے معیار اور حوصلے  میں کمی نہیں آنی چاہئے۔

اللہ ربُّ العزّت ہمیں خودانحصاری ، قناعت ، توکّل اور دیانت کی دولت سے نوازے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ تراجم ، المدینۃُ العلمیہ   Islamic Research Center


Share