خود نُمائی

اسلام کی روشن تعلیمات

خود نُمائی

*مولانا محمد اُحد رَضا عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء

میں سب سے الگ اور نمایا ں دِکھوں، میرے ملبوسات کے ڈیزائن اور کلرز کسی اور کے پاس نہ ہوں،نئےنئے فیشن اپناؤں،اعلیٰ برانڈ کی گھڑی اور گاڑی ہو، کسی محفل یا بیٹھک میں جاؤں تو مجھے نمایاں جگہ پر بٹھایا جائے! تعریف کی جائے، کوئی مخاطب ہوتو کچھ اعزازی اور توصیفی القابات کے ساتھ ہو، وغیرہ وغیرہ امور کی خواہش اور طلب کرنا اور پھر ان کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہنا،جن کے ذریعہ انسان دوسروں پر اپنی برتری جتا سکے نیز ہر وہ کام جس کے ذریعے دوسروں کو زیر کرکے ان پر فوقیت چاہنا مقصود ہوخودنمائی جیسی مذموم صفت میں داخل ہے۔

یہ کیا بَلا ہے ہر دَم کرتا ہے خود نمائی

خودنمائی کا مرادی معنی نمود و نمائش ہے۔ آسان لفظوں میں اسے یوں کہئے کہ اپنی ذات و شخصیت کو نمایاں اور دوسروں سے ممتاز کرنے کی خواہش خودنمائی کہلاتی ہے۔

خود نمائی کے لئے بھاگ دوڑ: زندگی کے مختلف پہلوؤں میں خود نمائی اس طرح داخل ہوچکی ہے کہ احساس تک نہیں ہوتا، خودنمائی میں مبتلا شخص مختلف ذرائع سے اپنے مفاد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے؛ اب چاہے اس کو حاصل کرنے کے لئے اسے اپنے اندر کتنی ہی قابلیتیں اور خصوصیتیں پیدا کرنی پڑیں، گھنٹوں اور مہینوں اس کی محنت و مشق صرف نام و شہرت کی خاطر ہوگی، الغرض ایسا شخص ہر اس موقع سے باخبر رہے گا جس کے ذریعے نمایاں ہوسکے، واہ واکروانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نکلنے نہیں دے گا۔ ”میں پہچانا جاؤں“، ”فین فالونگ“ کا بھوت اسے تھکنے نہیں دے گا بلکہ اس تھکن اور سعی و کاوش کو ایک نا قابلِ بیان تسکین اور خوشی قرار دے گا اور اس کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کے دلوں میں اپنا سکّہ بٹھانا ہوتاہے، ترقیاتی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں اس کے نظارے جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔

خود نمائی کی تباہی و آفات: عارف باللہ عبد العزیز دباغ رحمۃُ اللہِ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:ایساشخص بُرا ہے جو سواری، لباس، مکان یا غذا وغیرہ چیزوں میں اپنے آپ کو دوسروں سے نمایاں کرنے کا خواہش مند ہو! آپ رحمۃُ اللہِ علیہ سے جب اس کی قباحت کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا: خودنمائی کے سبب انسان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مشغول ہوجاتا ہے اور اللہ پاک سے غافل ہوکر رہ جاتا ہے یوں خود نمائی اس کے لئے ربِّ کریم سے تعلق ٹوٹنے کا سبب بن جاتی ہے نیز جو پہلے سے ہی اللہ پاک سے دور ہوں تو یہ (یعنی خود نمائی کا مرض) اس کی مزید دوری کا سبب بنتا ہے اور ایسے شخص کی روح اس فعل سے نفرت کرتی ہے کیونکہ اس خود نمائی میں اسے اپنے رب کریم سے جوڑنے والا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا اور اپنی بربادی صاف دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔([1])

اِس بات کو بیان کرنے کےبعد شیخ عبد العزیز دباغ کے مرید ِخاص شیخ احمد بن مبارک رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ”گویا خودنمائی میں دو آفات پائی جاتی ہیں ایک اپنی ذات کے اعتبار سے اور دوسری دیگر لوگوں کے لحا ظ سے“(اپنی ذات کے اعتبار سے تو پچھلے کلام سے واضح ہے یعنی اللہ کریم سے دوری جبکہ لوگوں کے اعتبار سے یوں کہ ان کی طرف سے ملنے والی شہرت اور مقبولیت سے بَرآمد ہونے والے بھیانک نتائج۔)([2])

اسی طرح مختلف باطنی امراض میں مبتلا ہونے کا سخت امکان ہے کہ اب یا توان باطنی امراض میں فِی نفسہٖ خودنمائی اور نمود و نمائش کا عنصر ہوگا یا پھر اس تک پہنچانے والا جذبہ و جنون۔ یہاں چند نمایاں اور ہلاکت میں ڈالنے والی بُرائیوں کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ خود نمائی کی تباہ کاری مزید واضح ہو:

ریاکاری: خودنمائی کے مریض کو اگر اپنے مفاد کا حصول عبادات و اعمال کی نمود و نمائش سے کرنا پڑا تو کر گزرے گا، حالانکہ ریا کے سبب عمل بربادہوجاتے ہیں۔ حل: ریاکار ی کے متعلق علم رکھے، عمل خالصۃً اللہ پاک کی رضا و خوشنودی کے لئے کرے، اپنےاعمال کو بلاضرورت و حاجت لوگوں میں ظاہر کرنے سے بچے اور پھر اللہ پاک کی جناب میں ان کی قبولیت کی امید رکھے۔

خود پسندی: جب انسان خود نمائی کے ذریعہ حاصل ہونے والے ثمرات کو دیکھے گا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ خود کو کچھ سمجھ بیٹھے، اس کے اندر انانیت پیدا ہونے لگے اور یہ بات بھول جائے کہ کوئی ایسی ذات بھی ہےجس کی طرف سب محتاج ہیں۔ تمام انعامات اورعزتیں اس کی عطا کردہ ہیں،وہ چاہےتو پَل بھر میں تمام نوازشات و نعمتیں واپس لے لے مگر حقیقت سے بےخبر،صرف ظاہر کو دیکھنے والا تمام ملی ہوئی نعمتوں مثلاً صِحّت یاحسن وجمال یا دولت یا ذِہانت یا خوش الحانی یا کسی منصب وغیرہ کو اپنا کارنامہ سمجھ بیٹھتا ہے اوریہ بھول جاتا ہے کہ سب اللہ پاک ہی کی عنایت ہے،یہی خود پسندی ہے۔ جیسا کہ لُبابُ الاحیاء میں ہے: آدمی کو یہی برتری، تکبر اور اَنا کہ ”میں کچھ ہوں“ کا احساس جانے اَنجانے میں ہلاکت کی وادیوں تک پہنچا دیتا ہے۔([3])

تکبر: انسان حق بات کو قبول نہ کرے،خود کو افضل سمجھے اور دوسروں کو حقیر جانے یہ تکبر ہے۔لوگوں پر رعب جمانے کے لئے سینہ تانے اَکڑ اَکڑکے چلنا بھی تکبر ہے اور یہ خود نمائی کی ایک صورت ہے حالانکہ متکبرانہ اور اَوباشوں اور لَفنگوں والی چال اللہ پاک کو ناپسند ہے۔ مفتی محمد قاسم عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی لکھتے ہیں: تکبر و خود نمائی سے کچھ فائدہ نہیں البتہ کئی صورتوں میں گناہ لازم ہو جاتا ہے لہٰذا اترانا چھوڑو اور عاجزی قبول کرو۔([4]) الغرض خود نمائی تکبر کا مرض پیدا کرنے کا ایک سبب ضرور بنتی ہے، عافیت اس سے جان چھڑانے میں ہے۔

حرص و لالچ: خود نمائی کی آفات میں سے ایک آفت لالچ اور حرص کا پیدا ہوجانا بھی ہے، ایسا شخص اپنی ذات کو دوسروں پرترجیح دیتا ہے،صورتحال جیسی بھی ہو ذاتی سہولت اور مفاد ہر وقت پیشِ نظر رکھتا ہے، ایثار و خیر خواہی کا جذبہ لالچ کے پہاڑ کے نیچے کچل دیتا  ہے، بےحسی جذبۂ احساس کو مات دے دیتی ہے، کھانے پینے یا کسی اور چیزکی قلت کے موقع پر اس کی  خود بینی کی عادت (یعنی اپنی ذات کو مقدم رکھنا)یہی کہے گی کہ میں سب کچھ سمیٹ لوں، میرا تَن بدن ڈھکنا چاہیے لوگ کن حالات سے گزر رہے ہیں مجھے  اس کی کچھ پرواہ نہیں۔ حل: ایثار اور مسلمانوں کی خیرخواہی کرے نیز ابتداً تکلف کے ساتھ نیکی کی راہ میں مال خرچ کرے۔

خلاصہ یہ کہ باطنی بیماری کا علاج وحل اس کی ضد سے ہوتا ہے جیسےتکبر کا علاج تواضع سے،بخل کا علاج سخاوت سے ہوتا ہے۔ یوں ہی خودنمائی کے علاج کے لئے ان تمام چیزوں سے بچنا لازم ہے جو اس کی طرف لے جانے یا اس مرض کے پیدا ہونےکا سبب بنیں: جیسے شہرت طلبی کہ میرا نام ہو، واہ وا کی جائے، فیمس ہوجاؤں وغیرہ۔ اس کے علاوہ حُب ِجاہ یعنی کسی عہدے یا منصب وغیرہ کی جستجو وغیرہ۔

نوٹ:خود نمائی پر تمام گفتگو کو پڑھنے کے بعد ان علامات و حالات کے مطابق اپنی ذات کا محاسبہ کیا جائے نہ کہ ان پر دوسروں کو پَرَکھتے اور خودنمائی کا الزام لگاتے پھریں کیونکہ عین ممکن ہے کہ جس چیز کے پیشِ نظر ہم ان پر خود نمائی کا حکم لگا رہے ہوں، سامنے والا وہ کام کسی ایسی نیت کے تحت کر رہا ہو کہ جو جائز یا کم اَز کم قباحت کے دائرے سے باہر ہو کیونکہ اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: لاکھوں مسائل و احکام فرقِ نیت سے متبدل (تبدیل) ہوجاتے ہیں۔([5]) جیسا کہ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: ”بعض فخر کے طور پر خود نمائی کرنے والوں کو اللہ پاک پسند فرماتاہے اور بعض کو ناپسند، جن خودنمائی کرنے والوں کو اللہ پاک پسند فرماتا ہے وہ جہاد کے دوران اَکڑ کر چلنا یا صدقہ دیتے وقت فخر کرنا ہے اور جن کو اللہ پاک ناپسند فرماتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی ظلم اور فخر کی حالت میں اِترا کر چلے۔“([6]) مفسرقراٰن مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ ایک مقام پر لکھتے ہیں:ریا اور خود نمائی اور خود سرائی کی ممانعت فرمائی گئی لیکن اگر نعمتِ الٰہی کے اعتراف اور اطاعت و عبادتِ پُر مسرّت اور اس کے ادائے شکر کے لئے نیکیوں کا ذکر کیا جائے تو جائز ہے۔([7]) مزیدوضاحت کے لئے فتاویٰ رضویہ سے یہ عبارت ملاحظہ کیجیے: ”یہ کہنا کہ میں عالم ہوں اگر کسی وقت، کسی ضرورت ومصلحت شرعی کے سبب ہے تو حرج نہیں،اور اگر بلاضرورت ہے تو جَہل اور خود نمائی ہے،خود ستائی کے لئے ہے تو سخت گناہ ہے۔“([8])

رب کریم ہمیں نفس کی چالوں، شیطان کے مکر و فریب، ظاہری وباطنی گناہوں سے بچائے، خود نمائی اور اُس کی آفات سے محفوظ رکھے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ اُردو لغت، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])الابریز، 1/478، 479

([2])الابریز، 1/478، 479

([3])لباب الاحیاء،ص289ملتقطاً

([4])صراط الجنان،5/463 ملتقطاً

([5])فتاویٰ رضویہ، 8/11

([6])ابو داؤد،3/69،حدیث:2659

([7])خزائن العرفان، پ27، النجم، تحت الآیۃ: 32

([8])فتاویٰ رضویہ،16/68۔


Share