اللہ والوں سے مدد (قسط:01)

اسلامی عقائد و معلومات

اللہ والوں سے مدد ( قسط : 01 )

*مولانا عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر2022

کائنات میں رات دن ہونے والی بڑی بڑی تبدیلیوں سے لےکر پتوں کی کھڑکھڑاہٹ تک ہر کام اللہ پاک کی مرضی ، اسی کی قدرت اور اختیار سے ہوتا ہے۔اس کی مرضی کے بغیر پتّا تو دور ریت کا ایک ذرّہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہِل سکتا۔ تمام تر قوّتوں اور طاقتوں کا مالک ہمارا پیارا پروردگار جب کسی سے راضی ہو جائے ، کسی پر مہربان ہو جائے تو اپنے لامحدود اختیارات اور قدرتوں میں سے جتنا چاہتا ہے اپنے اس خاص بندے کو عطا فرما دیتا ہے جس سے اس کے خزانوں میں بھی کوئی کمی نہیں آتی ، نہ ہی مَعاذَ اللہ وہ بندہ خدا بن جا تا ہے۔

اللہ پاک کی ایسی عطا کے بے شمار نظارے ہمیں انبیائے کرام اور اولیائے عظام کی زندگیوں میں صاف نظر آتے ہیں جیسا کہ بیماروں کو شفا دینے والا اللہ کریم ہے ، اس نے اپنے پیارے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو اس قدرت کا مَظہر بنا دیا جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے : ( اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ- )  ترجَمۂ کنزُ العرفان : میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں۔  [1] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام فرما رہے ہیں میں شفا دیتا ہوں ، میں زندہ کرتا ہوں ساتھ ہی اس بات کو بھی ذکر فرما دیا کہ یہ سب کچھ خود سے اپنی ذاتی طاقت و قوّت سے نہیں کرتا بلکہ یہ سب اللہ کریم کی دی ہوئی طاقت و اختیار سے ہی کرتا ہوں۔ جب اللہ والے اللہ پاک کی قدرت کے مظہر ہیں تو ان سے مصیبت ، پریشانی اور دکھ درد میں مدد مانگنا بالکل جائز ہے۔ اس لیے کہ اللہ کے مقبول بندوں کی مدد دراصل اللہ کریم ہی کی مدد ہے۔

عقیدہ : اِسلامی عقیدے کے مطابق اگر کوئی آدمی یہ عقیدہ رکھتے ہوئے انبیائے کرام اور اولیائے کرام سے مدد مانگے کہ وہ اللہ پاک کی اجازت کے بِغیر بذاتِ خود نفع و نقصان کے مالک ہیں تو یہ یقیناً شرک ہے جبکہ اِس کے برعکس اگر کوئی آدمی حقیقی مددگار اور نَفْع و نقصان کا حقیقی مالک اللہ کریم کو مان کر کسی کومَجازًا  ( یعنی غیر حقیقی طور پر)  اور محض عطائے الٰہی سے مددگار سمجھتے ہوئے مدد مانگے تو یہ بالکل جائز ہے ، ہرگز شِرک نہیں اور یہی ہمارا عقیدہ ہے۔

اللہ والوں کے مددگار ہونے کے ثبوت پر ایک قراٰنی آیت ملاحظہ فرمائیے :  ( فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ ( ۴ ) ) ترجَمۂ کنزُ العرفان : تو بےشک اللہ خود ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مددگار ہیں۔[2] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آیت میں حضرت جبریل علیہ السّلام اور نیک مسلمانوں کو مولیٰ یعنی مددگار فرمایا گیا اور فرشتوں کو ظہیر یعنی معاون قرار دیا گیا ، جس سے روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے کہ اللہ کریم کے بندے مددگار ہیں۔ جب یہ مددگار ہیں تو ان سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔

اللہ ربُّ العزت ایک اور مقام پر غیرُاللہ سے مدد مانگنے کا یوں حکم ارشاد فرماتا ہے :  ( وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ- )  ترجَمۂ کنزُ العرفان : اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔  [3] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ یہ آیتِ مبارکہ نقل کر کے فرماتے ہیں :

کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے؟ کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت کو ارشاد کیا ہے۔ دوسری آیت میں فرماتا ہے : ( وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪- )  ترجَمۂ کنز الایمان : اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔[4]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

کیوں صاحب ! اگرغیرِ خدا سے مددلینی مطلقاً محال ہے تو اس حکمِ الٰہی کا حاصل کیا؟ اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مِل سکتی ہے اس سے مدد مانگنے میں کیا زہرگھل گیا !  [5]

غیرُ اللہ سے مدد مانگنے کے بارے میں بہت سی احادیث بھی ہیں ، جن کے بارے میں سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت فرماتے ہیں :

حدیثوں کی تو گنتی ہی نہیں بکثرت احادیث میں صاف صاف حکم ہے کہ  ( ۱ ) صبح کی عبادت سے استعانت کرو  ( ۲ ) شام کی عبادت سے استعانت کرو  ( ۳ ) کچھ رات رہے کی عبادت سے استعانت کرو  ( ۴ ) علم کے لکھنے سے استعانت کرو  ( ۵ ) سحری کے کھانے سے استعانت کرو  ( ۶ ) دوپہر کے سونے سے استعانت و صدقہ سے استعانت کرو  ( ۷ ) حاجت روائیوں میں حاجتیں چھپانے سے استعانت کرو ۔[6]

مزید  چند احادیث ملاحظہ فرمائیے :

 ( 1 ) ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اِذَا نَفَرَتْ دَابَّةُ اَحَدِكُمْ ، اَوْ بَعِيرُهٗ بِفَلاةٍ مِنَ الاَرْضِ لاَ يَرٰى بِهَا اَحَدًا فَلْيَقُلْ اَعِينُوا عِبَادَ اللهِ یعنی جب تم میں سے کسی کی سواری یا اونٹ ایسی ویران جگہ میں بھاگ جائے جہاں کوئی بندہ نظر نہ آئے تو تم یوں پکارو : اَعِينُوا عِبَادَ اللهِ یعنی اے اللہ کے بندو ! مدد کرو ! فَاِنَّهٗ سَيُعَانُ تو بے شک جلد اس کی مدد کی جائے گی۔[7]   ( 2 ) حضرت عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : اِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً فَضْلًا سِوَى الْحَفَظَةِ يَكْتُبُونَ مَا یَسْقُطُ مِنْ وَّرَقِ الشَّجَرِ ، فَاِذَا اَصَابَتْ اَحَدَكُمْ عَرْجَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُنَادِ اَعِينُوا عِبَادَ اللَّهِ رَحِمَكُمُ اللَّه یعنی بے شک اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ اللہ پاک کے کچھ ایسے فرشتے بھی ہیں جو درختوں سے گرنے والے ہر پتے کو لکھ لیتے ہیں۔تو جب تم میں سے کسی کو سفر میں رکاوٹ پیش آئے تو اسے چاہئے کہ یوں پکارے : اَعِينُوا عِبَادَ اللَّهِ رَحِمَكُمُ اللَّه یعنی اے اللہ کے بندو ! مدد کرو ، اللہ کریم تم پر رحم فرمائے۔[8] ( 3 ) ایک روایت میں غیرُاللہ سے مدد طلب کرنے کی یوں ترغیب دلائی گئی : اُطْلُبُوا الحَوائِجَ اِلَى ذَوِي الرَّحْمَةِ مِنْ اُمَّتِي تُرْزَقوا وتُنْجَحُوا یعنی میرے رَحْم دل اُمّتیوں سے حاجتیں مانگو رِزق اور مطلوب پالو گے۔[9]   ( 4 )  اُطْلُبُواالْخَيْرَ وَالْحَوَائِجَ مِنْ حِسَانِ الْوُجُوهِ یعنی بھلائی اور حاجتیں خوبصورت چہرے والوں سے مانگو۔[10]

جاری ہے۔۔۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ ، کراچی



[1] پ3 ، اٰل عمرٰن : 49

[2] پ 28 ، التحریم : 4

[3] پ1 ، البقرة : 45

[4] پ6 ، المائدۃ : 2

[5] فتاویٰ رضویہ ، 21/305 ملتقطاً

[6] فتاویٰ رضویہ ، 21/305 ملتقطاً

[7] مصنف ابن ابی شیبہ ، 15/384 ، حدیث : 30438

[8] مصنف ابن ابی شیبہ ، 15/345 ، حدیث : 30339

[9] جامع الصغیر ، ص72 ، حدیث : 1106

[10] المعجم الکبیر ، 11/67 ، حدیث : 11110۔


Share

Articles

Comments


Security Code