مَرحومین کو فائدہ پہنچائیے (قسط :01)

اسلامی عقائد و معلومات

مَرحومین کو فائدہ پہنچائیے (قسط : 01)

* مولانا محمد عدنان چشتی عطاری مدنی

ماہنامہ فروری2022

یوں تو اللہ کریم کا فضل و احسان اور عطائیں ساری مخلوق پر ہیں لیکن اہلِ ایمان پر اس کا جود و کرم اور نوازشات و عنایات سب سے جدا ہیں۔ ربِّ کریم کی ان بےحساب عطاؤں میں سے ایک عطا یہ بھی ہے کہ ایمان والوں کو ایسے اعمال و معمولات بھی عطافرمائے کہ جن کے کرنے والوں کو تو اجر و ثواب ملتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ وہ اہل ِ ایمان جو دنیا سے چلے گئے اور اب وہ خود کوئی نیکی نہیں کرسکتے ان کو بھی اس کا فائدہ و اجر پہنچتاہے ، سادہ لفظوں میں یوں کہئے کہ زندوں کا عمل فوت شُدہ مسلمانوں کو بھی فائدہ دیتا ہے۔ یہ بات احادیثِ مبارکہ سے ثابت اور عقائد و معمولاتِ اہلِ سنّت کا حصّہ ہے جیسا کہ

100مسلمان جنازہ پڑھ دیں تو : اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : مَنْ صَلَّى عَلَيْهِ مِائَةٌ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ غُفِرَ لَهُ یعنی جس میت پر سو مسلمان نمازِ جنازہ پڑھ دیں اسے بخش دیا جائے گا۔ [1]

اس حدیث ِپاک سے صاف واضح ہے کہ زندوں نے عمل کیا اور مُردہ کو اس کا فائدہ پہنچا۔ یہ اللہ پاک کا فضل ہے۔ دو مزید روایات پڑھئے اور اللہ پاک کے فضل و احسان پر شکر ادا کیجئے۔

اگر 40 مسلمان جنازہ پڑھیں : حضرت کُرَیب  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں : حضرت ابنِ عباس  رضی اللہُ عنہما کے بیٹے کا انتقال ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا : اے کُریب! ذرا دیکھو! کتنے لوگ جمع ہوئے؟ میں نے جا کر دیکھا تو کافی لوگ جمع ہو چکے تھے۔ میں نے بتایا توآپ  رضی اللہُ عنہ  نے پوچھا : تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ چالیس ہو جائیں گے؟ میں نے کہا : جی۔ تو حضرت ابنِ عباس  رضیَ اللہ عنہما نے فرمایا : (اب) جنازہ لے چلو کہ میں نے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا ہے کہ جو مسلمان فوت ہو جائے اور اس کی میت پر چالیس مسلمان نماز پڑھیں تو اللہ پاک ان کی سفارش میت کے حق میں قبول فرماتا ہے۔ [2]

جنّت واجب ہو جاتی ہے : اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : جو مسلمان فوت ہو جائے او ر اس پر مسلمانوں کی تین صفیں نماز جنازہ پڑھیں تو اللہ پاک اس پر جنّت واجب فرما دیتا ہے۔ [3]

اللہ کریم کی عطا کی بھی کیا بات ہے! کبھی سو افراد ، کبھی چالیس افراد اور کبھی صرف تین صفوں کی وجہ سے فوت شدہ مسلمان کی بخشش فرما دیتا ہے۔

نمازِ جنازہ میں مقتدیوں کی تعداد میں روایات کے اختلاف کی کئی وجوہات ہیں ان میں تطبیق بیان کرتے ہوئے حضرت امام نَوَوِی شافعی  رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : (1)سائل کی حالت اور ا س کے سوال کے مطابق جواب دیا گیا۔ یعنی سائل نے سوال کیا اور اس وقت شُرکائے جنازہ کی تعداد 100 تھی تو آپ نے 100 پر مغفرت کی بشارت سنائی ، اور جب تعداد 100 سے کم تھی اور سائل چالیس کے بارے میں سوال کر رہاتھا تو آپ نے چالیس لوگوں پر بھی مغفرت کی خبر دی ، اور جب جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی تو سائلین کی چاہت کے مطابق انہیں خوشخبری دی (2)جب پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کواللہ پاک کی طرف سے 100لوگوں کی سفارش قبول ہونے کی خبر دی گئی توآپ نے وہی فرمایا اور جب 40 لوگوں کی بھی سفارش قبول ہونے کی خبر دی گئی تو آپ نے 40 لوگوں کا فرمایا ، پھر جب تین صف پر مشتمل لوگوں کی سفارش کے بارے میں بتایا گیا اگرچہ تعداد کم ہو تو آپ نے تین صفوں کے بارے میں فرمایا (3)یہاں تعداد بیان کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ شُرکائے جنازہ تعداد میں 100 ہوں یا بہت تھوڑے ، اللہ پاک ان سب کی سفارش قبول فرماتا ہے۔ [4]

حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ہوسکتا ہے کہ اولًا سو کی قید ہو پھر رب نے اپنی رحمت وسیع فرمادی ہو اور چالیس کی نماز پربھی بخشش کا وعدہ فرمالیا ہو ، بعض روایات تو اوربھی امید افزاء ہیں۔ [5]

زندوں کے جن اعمال کا مُردوں کو فائدہ پہنچتاہے ان میں سے ایک “ قبروں اور مزارات پر سبز شاخیں یا پھول ڈالنا “ بھی ہے۔

شریعتِ مطہّرہ میں قبروں پر سبز شاخیں ڈالنا یا گاڑنا جائز و مستحَب ہے اسی طرح پھول ڈالنابھی مستحسن ہے۔ جیسا کہ فتاوی ٰ عالمگیری میں ہے : وَضْعُ الْوُرُودِ وَالرَّيَاحِينِ عَلَى الْقُبُورِ حَسَنٌ وَاِنْ تَصَدَّقَ بِقِيمَةِ الْوَرْدِ كَانَ اَحْسَنَ یعنی گلاب کے پھول یا دوسری قسم کے پھول قبروں پر رکھنا اچھا ہے اور ان پھولوں کی قیمت صدقہ کر دینا زیادہ اچھا ہے۔ [6]

قبر پر سبز ٹہنی لگاناتو سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے عمل سے بھی ثابت ہے۔ صحابۂ کرام اس پر عمل کرتے ، تابعینِ عُظّام اس کی وصیت فرماتے اور فُقہاء و محدّثین اس عمل کی تحسین بیان کرتے آئے ہیں جیساکہ

حضرت عبدُاللہ  بن عباس  رضی اللہُ عنہما  فرماتےہیں : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو ارشاد فرمایا : ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اورکسى بڑى بات پر نہىں ہو رہا بلکہ ان مىں سے ایک پىشاب کےچھىنٹوں سےنہىں بچتا تھا اور دوسرا چُغل خورى کرتا تھا پھر آپ نے اىک تر شاخ لےکر اس کے دو ٹکڑے کئے اور دونوں قبروں پر ایک ایک گاڑ دىا۔ صحابَۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  نےعرض کی : یارسولَ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! آپ نے یہ کیوں کیا؟ ارشاد فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں گی ان قبروالوں کے عذاب میں تخفیف رہے گی۔ [7]

مختلف شارحین نے یہاں مختلف احتمالات بیان کئے ہیں انہی میں  سے ایک یہ بھی ہے کہ ان شاخوں کی تسبیح کی برکت سے قبر والوں کے عذاب میں تخفیف ہوگی جیسا کہ شارحِ بخاری امام ابنِ حجر عسقلانی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : اِنَّ الْمَعْنَى فِيهِ اَنَّهُ يُسَبِّحُ مَادَامَ رَطْبًا فَيَحْصُلُ التَّخْفِيفُ بِبَرَكَةِ التَّسْبِيحِ وَعَلَى هَذَا فَيَطَّرِدُ فِي كُلِّ مَا فِيهِ رُطُوبَةٌ مِنَ الْاَشْجَارِ وَغَيْرِهَا وَكَذَلِكَ فِيمَا فِيهِ بَركَةٌ كَالذِّكْرِ وَتِلَاوَة الْقُرْآنِ مِنْ بَابِ الْاَوْلٰى یعنی مطلب یہ ہے کہ جب تک ٹہنیاں سبز رہیں گی تسبیح کرتی رہیں گی تو ان کی تسبیح کی برکت سے عذاب میں کمی ہوگی۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے درختوں وغیرہ کی ہر وہ چیز قبر پر ڈالی جا سکتی ہے جو تَر ہو۔ اسی طرح ہر برکت والی چیز سے عذاب میں کمی ہوتی ہے جیسے ذکر و اذکار اور قرآن پاک کی تلاوت سے بدرجہ اولیٰ (کمی ہو گی ) ۔ [8]

حضرت علامہ علی بن سلطان قاری  رحمۃُ اللہِ علیہ  مسلم شریف کی روایت کے تحت لکھتے ہیں : اَفْتَى بَعْضُ الْاَئِمَّةِ مِنْ مُتَاَخِّرِي اَصْحَابِنَا بِاَنَّ مَا اعْتِيدَ مِنْ وَضْعِ الرَّيْحَانِ وَالْجَرِيدِ سُنَّةٌ لِهَذَا الْحَدِيثِ یعنی ہمارے بعض مُتاخرین اماموں نے اس حدیث کی وجہ سے فتویٰ دیا کہ پھول اور کھجور کی ٹہنی ڈالنے کی جو عادت ہے وہ سنّت ہے۔ [9]

حضرت امام ابوعبدُاللہ حُسین بن ابراہیم جُورقانی  رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات : 543ھ) اسی طرح کی ایک روایت مسلم شریف سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلىٰ اسْتِحْبَابِ وَضْعِ الْجَرِيدَةِ الرَّطْبَةِ عَلَى الْقَبْرِ عَلَى مَا فَعَلَهٗ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یعنی اس حدیثِ پاک میں قبر پر تَر شاخ رکھنے کے مستحب ہونے کی دلیل ہے اس کی وجہ سے جو رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے کیا۔ [10]

شارحِ بخاری امام سراجُ الدّین ، ابوحَفص عُمر بن علی المعروف ابنِ مُلَقِّن شافعی  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے بھی اس عبارت کو نقل فرمایا ہے۔ [11]

بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکن مجلس المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر)کراچی



[1] ابنِ ماجہ ، 2 / 213 ، حدیث : 1488

[2] مسلم ، ص368 ، حدیث : 2199

[3] ابوداؤد ، 3 / 270 ، حدیث : 3166

[4] شرح النووی علی مسلم ، 7 / 17مفہوماً

[5] مراٰۃ المناجیح ، 2 / 465

[6] فتاویٰ عالمگیری ، 5 / 351 ، فتاویٰ صدر الافاضل ، ص303 ملخصاً

[7] بخاری ، 1 / 96 ، حدیث : 218

[8] فتح الباری ، 2 / 288

[9] مرقاة المفاتیح ، 2 / 59 ، تحت الحدیث : 338

[10] الاباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير ، 1 / 361 ، تحت الحدیث : 347

[11] الاعلام بفوائد عمدۃ الاحکام ، 1 / 544


Share

Articles

Comments


Security Code