آنکھ میں کاجل لگے ہونے کی صورت میں وضو اور غسل کا حکم

اسلامی بہنوں کے شرعی مسائل

*مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2024ء

آنکھ میں کاجل لگے ہونے کی صورت میں وضو اور غسل کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آنکھ میں کاجل لگے ہونے کی صورت میں کیا وضو اور غسل ہوجائے گا؟ یا پھر وضو اور غسل سے پہلے کاجل صاف کرنا ہوگا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

وضو اور غسل میں آنکھ کے اندرونی حصے میں پانی پہنچانا واجب یا سنت نہیں، لہٰذا آنکھ میں کاجل لگے ہونے کی صورت میں بھی وضو اور غسل ادا ہوجائے گا ۔ البتہ کاجل یا سُرمے کا جِرم اگر آنکھ کے کوئے (یعنی ناک کی طرف آنکھ کے کونے) پر یا پلکوں پر لگا ہو تو وضو اور غسل میں اُسے چھڑانا ہوگا، کیونکہ وضو یا غسل میں چہرہ دھوتے ہوئے آنکھوں کے کوئے اور پلکوں کو دھونا فرض ہوتا ہے۔(فتاوٰی عالمگیری،1/7، 13 ملتقطاً-بدائع الصنائع، 1/19-فتاوٰی رضویہ،1(الف)/444)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

شوہر کی وفات کے بعد دیور سے شادی کرنا کیسا؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت کے چار بچے ہیں اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے اور انتقال کی عدت بھی ختم ہوچکی ہے، تو کیا اس صورت میں اس عورت کا نکاح شوہر کے چھوٹے بھائی یعنی اپنے دیور سے ہوسکتا ہے، جبکہ اس عورت کی سب سے بڑی لڑکی اور اُس کے دیور کی عمر میں فقط چار سال کا ہی فرق ہے ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جی ہاں! پوچھی گئی صورت میں اس عورت کا اپنے دیور سے نکاح کرنا جائز ہے جبکہ ممانعت کی کوئی اور وجہ نہ ہو، کیونکہ قرآن عظیم میں محرمات یعنی جن عورتوں سے نکاح حرام قرار دیا گیا ہے ان کو واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے اور بھابھی ان محرمات میں سے نہیں۔ نیز دیور کا اپنی بھابھی سے عمر میں کافی چھوٹا ہونا بھی کوئی وجہِ ممانعت نہیں۔(فتاوٰی رضویہ، 11/290 -فتاوٰی فیض الرسول، 1/578)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نفلی روزے میں حیض آگیا تو کیا نفلی روزےکی قضا لازم ہوگی؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگرکسی عورت نے نفلی روزہ رکھا اور اسے روزے کے دوران حیض آگیا تو کیا نفلی روزے کی قضا لازم ہوگی یا روزہ معاف ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں مذکورہ عورت پراس نفلی روزے کی قضا لازم ہے۔

درّ مختار میں ہے:”ولو شرعت تطوّعاً فيهما فحاضت قضتهما یعنی اگر عورت نے نفلی روزہ رکھا یا نفلی نماز شروع کی اور اس دوران حیض آگیا تو نفلی نمازیانفلی روزے دونوں صورتوں میں قضا لازم ہے۔(الدرّ المختارمعہ ردّ المحتار، 1/533)

صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں: ”روزے کی حالت میں حیض یا نفاس شروع ہو گیا تو وہ روزہ جا تا رہااس کی قضا رکھے، فرض تھا تو قضا فرض ہے اور نفل تھا تو قضا واجب۔“(بہار شریعت، 1/382)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محققِ اہلِ سنّت، دارالافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code