”گفتگو کے آداب“ تعارف و تجزیہ

کتب کا تعارف

 ” گفتگو کے آداب “ تعارف و تجزیہ

*مولانا ابو شیبان عطّاری مدنی

ما ہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2022

گفتگو کے آداب و انداز پر بہت زیادہ گفتگو کی جاسکتی ہے ، گفتگو باقاعدہ ایک فن بھی ہے اسی وجہ سے بعض لوگ اپنے بولنے کا بھاری معاوضہ لیتے ہیں ، گفتگو کبھی کسی گمنام کو ناموَر بنادیتی ہے تو کبھی اسی گفتگو کی وجہ سے نام والا بدنام بھی ہوجاتا ہے۔بہرحال بات چیت کی صلاحیت اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے ، اس کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں ، اسی کے ذریعے انسان اپنا حالِ دل بیان کرتا ہے ، اسی سے اپنا مُدعا و مقصود ، اسی سے اپنی پہچان کراتا اور اسی سے دوسروں کو پہچانتا ہے ، اسی سے رشتہ داریاں نبھاتا اور اسی سے نئے تعلقات قائم کرتا ہے ، کسی سے سُوال کرنا یا کسی کے سُوال کا جواب دینا گفتگو ہی کے ذریعے ہوتا ہے ، لوگوں کی تربیت و اصلاح ، درس و تدریس ، خوش طبعی ، تعزیت و مزاج پُرسی ، کسی کا دل بہلانا ، روٹھے کو منانا ، غم میں ڈھارس دینا ، خوشی پر مبارک باد دینا وغیرہ سارے کام عُموماً گفتگو کے ذریعے ہی کئے جاتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ روز مرّہ زندگی میں گفتگو کی ضرورت بھی زیادہ پیش آتی ہے اور اُخروی نجات و ہلاکت میں اس کا عمل دخل بھی بہت ہے ، لہٰذا ہمیں ضروری گفتگو بھی مختصر الفاظ اور محتاط انداز میں کرنی چاہئے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ! شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ جہاں مختلف پہلوؤں سے اپنے مریدوں ، عقیدت مندوں اور محبت کرنے والوں کی اصلاح میں مگن ہیں وہیں عرصۂ دراز سے مختلف تحریروں کے علاوہ اپنے بیانات و مدنی مذاکروں میں گفتگو کے طور طریقے ، ڈھنگ اور آداب کی راہنمائی بھی کرتے آئے ہیں ، آپ ہمیشہ سے زبان کے بےجا استعمال کی روک تھام پر زور دیتے رہے ، اس کے لئے آپ نے کبھی قفلِ مدینہ پتھر ، کبھی قفلِ مدینہ کارڈ تو کبھی قفلِ مدینہ پیڈ استعمال کرنے کا ذہن دیا ، نیز کچھ کُتب و رَسائل بھی لکھے جن میں کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب ، 28کفریہ کلمات ، گانوں کے35کفریہ اشعار اور خاموش شہزادہ شامل ہیں۔ آپ نے کئی کتب و رسائل میں گفتگو کے آداب کو ضمناً بھی بیان کیا ہے جبکہ اس عنوان کی نزاکت و اہمیت کے پیشِ نظر ذو الحجہ 1443ھ مطابق جولائی 2022ء کو آپ کی نئی کتاب منظرِ عام پر آئی جوکہ ” فیضانِ سنّت جلد3 کے2 حصوں “ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی اہمیت اور افادیت اس کے نام سے ہی آشکار ہے ، اس کا نام ہے : ” (1) گفتگو کے آداب  ( 2 ) فضول باتوں سے بچنے کی فضیلت “ پہلا حصّہ 37 اور دوسرا 105 صفحات پر مشتمل ہے۔

 * اس کتاب میں آپ دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے قراٰن و سنّت کی تعلیمات کے مطابق آدابِ گفتگو بیان کرتے ہوئے صفحہ 13 پر جہاں سے کتاب کا آغاز ہو رہا ہے وہاں بلند آواز سے بات کرنے کی قراٰنِ پاک سے مذمت بیان کی ہے اور * صفحہ 15 اور 16 پر چِلّا چِلّا کر بات کرنے کی ممانعت ذکر کرتے ہوئے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک گفتگو کے مختلف انداز بیان کئے ہیں جن میں یہ بھی ہے کہ ” آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صاف صاف گفتگو فرماتے ، ہر سُننے والا اسے سمجھ لیتا۔ “ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اس ادب سے ناواقف ہیں یا پھر گفتگو میں اس کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں ، بات اتنی تیزی سے کرتے ہیں کہ سننا اور سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے اور بعض لوگ چِلّا چِلّا کر اپنی ہر بات پر زور دینے ہی کو اپنی بات کا وزن دار ہونا سمجھتے ہیں۔ * صفحہ 18 پر زبان کی لغزشوں اور خطاؤں کی روک تھام کے تحت مراٰۃُ المناجیح کے حوالے سے یہ بیان کیا کہ ” 80 فیصد گناہ زبان سے ہوتے ہیں۔ “ مگر بعض لوگ جہاں خاموش رہنا یا کم بولنا ضروری ہو وہاں بھی اس قدر بولتے ہیں کہ گویا سیلاب کے آگے سے بند ٹوٹ گیا ہو ، ایسے لوگوں کو بولتے رہنے کی مصروفیت بول تولنے کی فرصت ہی نہیں دیتی لہٰذا وہ جھوٹ ، غیبت ، بہتان اور دل آزاریوں سے بھی رُک نہیں پاتے۔

 * صفحہ 26 پر بچّوں کو جھوٹا بہلاوا دینے کے متعلق تابعی بزرگ حضرت امام مجاہد رحمۃُ اللہ علیہ کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ ” گفتگو لکھی جاتی ہے حتّٰی کہ ایک شخص اپنے بیٹے کو چُپ کرانے کے لئے کہتا ہے : میں تمہارے لئے فُلاں فُلاں چیزیں خریدوں گا ( حالانکہ خریدنے کی نیت نہیں ہوتی ) ۔ “ آج کل بچوں ہی سے نہیں بلکہ بڑوں سے بھی طرح طرح کے جھوٹ بولنا مَعاذَ اللہ آسانی سے جان چھڑانے کا مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس سے اُخروی ذلت کے علاوہ بسااوقات دنیا میں بھی ذلت اٹھانی پڑ جاتی ہے۔ * صفحہ 31 تا 36 پر بات چیت کے وقت مذاق مسخری کرنے اور خود پسندی میں مبتلا ہونے کی قباحت و بُرائی بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان : ” جو مذاق کرتا ہے وہ لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ “ اور حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ فرمان : ” عُجب  ( یعنی خود پسندی )  70 سال کے اعمال برباد کرتا ہے۔ “ بھی ذکر کیا ہے۔ حالانکہ آج کل نجی محفلوں اور دوستوں کے حلقوں میں تو مذاق مسخری سے بچنا دور کی بات جہاں سنجیدہ و عالمانہ گفتگو کرنی ہو وہاں بھی لوگ مذاق مسخری اور عامیانے پَن کا مظاہرہ کرتے ہیں ، بعض لوگ بے تکلفی کی بنیاد پر دوسروں کے لئے غیر مہذب الفاظ استعمال کرکے اسے ہنسی مذاق کا رنگ دیتے ہیں ، اسی طرح بعض لوگ دوستوں ، رشتے داروں اور ہم مرتبہ افراد کے درمیان بات چیت کرتے ہوئے مختلف معاملات میں ان پر بالا دستی اور برتری جتا رہے ہوتے ہیں جس سے ان کی خود پسندی جھلکتی ہے۔ * صفحہ 37 تا 39 پر فحش گوئی کی اُخروی ہلاکت و بربادی بیان کرتے ہوئے 4 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ذکر کئے ہیں جن میں یہ بھی ہے : ” فُحش گوئی اگر انسانی شکل میں ہوتی تو بُرے آدمی کی صورت میں ہوتی۔ “ انہی صفحات میں فحش گوئی کیا ہوتی ہے ؟ اس کی وضاحت بھی ذکر فرمائی ہے۔ آج کل یہ ادبِ گفتگو بھی وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ کئی بدنصیب لوگ بات بات پر گالی دینے کو محض اپنے تکیہ کلام کی حیثیت دیتے ہیں اور آپسی محفلوں میں فُحش گوئی کو کوئی معیوب بات نہیں سمجھتے۔

کتاب کے آخر میں مفید و دلچسپ 25 واقعات بھی ذکر کئے گئے ہیں آئیے صفحہ 137 پر دیا گیا ایک واقعہ پڑھئے : حضرت سیِّدُنا ابوبکر بن عَیّاش رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : چار ملکوں فارس ، روم ، ہند اورچین کے بادشاہ ایک جگہ جمع ہوئے اورچاروں بادشاہوں نے چارایسی باتیں کیں گویا ایک ہی کمان سے چار تیر پھینکے گئے ہوں ، ایک نے کہا : میں کہی ہوئی بات کے مقابلے میں نہ کہی ہوئی بات سے رُکنے پرزیادہ قادر ہوں۔ دوسرے نے کہا : جو بات میں نے منہ سے نکال دی وہ مجھ پر حاوی اور جو بات منہ سے نہ نکالی اس پر میں حاوی ہوں۔ تیسرے نے کہا : مجھے نہ کی ہوئی بات پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی البتہ کی ہوئی بات پرضرورشرمندہ ہوا ہوں۔ چوتھے نے کہا : مجھے بولنے والے پرتعجُّب ہے کہ اگر وہی بات اس کی طرف لوٹ جائے تو اسے نقصان دے اور اگر نہ لوٹے توفائدہ بھی نہ دے۔

بہرحال گفتگو کی ضرورت سبھی کو پڑتی ہے تو یہ کتاب بھی یقیناً سبھی کی ضرورت ہے ، یقین جانئے! اس کو پڑھنا آخرت کے لئے تو مفید ہوگا ہی ، دنیاوی طور پر بھی بول چال میں نکھار ، گفتگو کی احتیاط اور فضول و مُضِر باتوں سے پرہیز کے لئے کافی فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اِن شآءَ اللہ

اللہ پاک ہمیں دین و دنیا کے فائدے کیلئے اس کتاب کا مطالعہ کرنے ، اسلامی تعلیمات کے مطابق مفید و کارآمد ضروری گفتگو کرنے اور فضول و بے کار باتوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ما ہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code