شبِ براءت میں رسول اللہ ﷺ کے معمولات

کچھ نیکیاں کمالے

شب براءت میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معموملات

*مولانا عدنان چشتی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025

شعبانُ المعظم کی پندرھویں شب کو دینِ اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس کی خصوصیات کے باعث اسے شبِ براءت بھی کہتے ہیں۔ حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس شب میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں عبادت فرمایا کرتے تھے جیساکہ

مسجد میں عبادت:

حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے کسی کام سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا کے گھر بھیجا تو میں نے ان سے عرض کی: جلدی کیجئے کہ میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو نصف شعبان (شبِ براءت)کے بارے میں کچھ باتیں بتا رہے تھے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا نے فرمایا: اے اُنیس یہاں بیٹھو! میں تمہیں نصف شعبان کے بارے میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیثِ مُبارکہ سناتی ہوں۔ ایک دفعہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے ہاں تشریف فرما تھے۔ رات کے وقت جب میری آنکھ کھلی تو میں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بستر میں نہ پایا، میں دیگر ازواجِ مطہرات رضی اللہُ عنہن کے حُجروں میں گئی مگر میں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نہیں پایا تو میں نے گمان کیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہُ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے ہیں، میں گھر سے نکلی اور مسجد سے گزری تو میرا پاؤں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ٹکرایا، اس وقت آپ سجدے میں تھے۔([1])

گھر میں عبادت و مناجاتِ نبوی:

پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شبِ براءت میں اللہ پاک کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر جو دُعائیں مانگیں اس کے بارے میں حافظ و مُؤرِّخ ابو عبدُاللہ محمد بن سعید المعروف علّامہ ابنِ دُبیثی رحمۃُ اللہِ علیہ(وفات:637ھ)شبِ براءت کے فضائل پر مشتمل اپنے رسالے میں روایت نقل فرماتے ہیں: اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا ارشاد فرماتی ہیں: میں نے رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنے حجرے میں گرے ہوئے کپڑے کی طرح (یعنی بغیر کسی حرکت کے) سجدے کی حالت میں دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یوں مُناجات کر رہے ہیں: سَجَدَ لَکَ سَوَادِیْ وَخَیَالِیْ وَاٰمَنَ بِکَ فُؤَادِیْ ھٰذِہٖ یَدِیْ وَمَا جَنَیْتُ بِھَا عَلٰی نَفْسِیْ یَا عَظِیْمُ رَجَاءٌ لِکُلِّ عَظِیْـمٍ اِغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِیْمَ سَجَدَ وَجْھِـی لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ یعنی میرے قلب و خیال نے تجھے سجدہ کیا اور میرا دل تجھ پر ایمان لایا،یہ میرے ہاتھ ہیں ان سے میں نے کوئی گُناہ نہیں کیا، اے عظمت والی ذات جس سے ہر عظیم چیز کی امید کی جاتی ہے، گُناہِ عظیم کو معاف فرما، میرا چہرہ اس ذات کے لئے سجدہ ریز ہے جس نے اسے پیدا کیا اور اس میں کان اور آنکھیں بنائیں۔ پھر حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سجدے سے سر ِ مُبارک اُٹھایا اور دوبارہ سجدہ ریز ہوکر عرض گزار ہوئے: اَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَ بِکَ مِنْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ اَقُوْلُ کَمَا قَالَ اَخِیْ دَاوُدُ اَعْفِرُ وَجْھِی فِی التُّرَابِ لِسَیِّدِیْ وَ حَقٌّ لَہُ اَنْ یُسْجَدَ یعنی میں تیری ناراضی سے تیری رضا کی،تیری پکڑ سے تیرے عفو و درگزر کی اور تیرے جلال سے تیری ہی پناہ طلب کرتا ہوں،تو اسی ثَناء و تعریف کے لائق ہے جو تونے خود بیان فرمائی،میں وہی عرض کرتا ہوں جو میرے بھائی داؤد (علیہ السّلام) نے عرض کی:میں اپنا چہرہ اپنے مَولا کے لئے خاک آلود کرتا ہوں اور جو اسی لائق ہے کہ اُس کے سامنے جبینِ نیاز خَم کی جائے۔پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سجدے سے سر اُٹھا کر یہ دُعا مانگی:اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ قَلْبًا نَقِـیًّا لَاکَافِرًا وَّلَا شَقِـیًّا یعنی اے اللہ! مجھے پاکیزہ دل عطا فرما جو نہ تو  ناشکری کرنے والا ہو اور نہ ہی بدبخت۔([2])

شبِ براءت میں حضور کے طویل سجدے:

شبِ براءت میں ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سجدے کس قدر طویل ہوا کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک رات نماز ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور اتنا طویل سجدہ کیا کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رُوح قبض کر لی گئی ہے۔ جب میں نے یہ دیکھا تو کھڑی ہوئی اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے انگوٹھے کو ہلایا تو انگوٹھے میں حرکت پیدا ہوئی،میں واپس چلی گئی پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سجدے سے سرِ مُبارک اُٹھایا اور نماز سے فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہارا یہ گمان تھا کہ میں تمہارے ساتھ بے وفائی کروں گا؟ میں نے عرض کی:یا نبیَّ اللہ!خدا کی قسم ایسا نہیں مگر آپ کے طویل سجدے سے مجھے یہ گمان ہوا تھا کہ کہیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی روح تو نہیں قبض کر لی گئی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتی ہو کہ یہ کونسی رات ہے؟ میں نے عرض کی:اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا: یہ نصف شعبان کی رات ہے اس رات اللہ پاک اپنے بندوں پر نَظرِ رحمت فرماتا ہے تو بخشش مانگنے والوں کو بخش دیتا ہے اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے اور بغض رکھنے والوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔([3])

پیارے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو بھی شبِ براءت کی اہمیت بتایا کرتے تھے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہُ عنہ نے اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے عرض کی کہ جلدی کیجئے میں رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم کے سامنے پندرہ شعبان کی باتیں بتا رہے تھےنیز مختلف احادیثِ مُبارکہ کی روشنی میں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پیارے آقا،مکی مدنی مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہرسال شبِ براءت کبھی گھر میں اور کبھی مسجد میں عبادت اور ذکر و دُعا میں مشغول رہتے تھے اور وہ بھی اس اہتمام کے ساتھ کہ بسا اوقات اس عبادت میں ساری رات گزر جاتی جیسا کہ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا شبِ براءت سے ہی متعلق ایک مرتبہ کا واقعہ بیان فرماتی ہیں: فَمَا زَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم یُصَلِّیْ قَائِماً وَقَاعِدًا حَتّٰی اَصْبَحَ فَاَصْبَحَ وَ قَدِاصْمَغَدَّتْ قَدَمَاہُ فَاِنِّیْ لَاَغْمِزُہَا یعنی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کھڑے ہو کر اور بیٹھ کرمسلسل نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی، صبح تک حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مُبارک قدم سوج گئے تھے چنانچہ میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدم مبارک دبانے لگی۔([4]) کبھی ایسا بھی ہوا کہ اُمّت کے لئے فکر مند رہنے والے ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شبِ براءت میں قبرستان تشریف لے گئے اور وہاں جاکر اپنے رَبّ سے اہلِ قبور کے لئے دُعائیں مانگیں جیساکہ حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پندرہ شعبان کی رات جنتُ البقیع میں اس حال میں پایا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمان مَردوں، عورتوں اور شہیدوں کے لئے دعائے مغفرت کر رہے تھے۔([5])

صد شکر خدایا تو نے دیا، ہے رحمت والا وہ آقا

جو امت کے رنج و غم میں، راتوں کو اشک بہاتا رہے([6])

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ رحمت و مغفرت والی اس مُبارک رات کو شب بیداری کرتے ہوئے عبادات اور ذکر و دُعا میں گزاریں اور اپنی مغفرت کی دُعا کےساتھ ساتھ قبرستان جاکر اپنے مرحومین کے لئے بھی دُعائے مغفرت کریں۔

شبِ براءت میں قبرستان جانا:

پیارے اسلامی بھائیو! مسلمانوں کا معمول چلا آرہا ہے کہ شبِ براءت میں قبرستان جاکر اپنے مرحوم رشتے داروں اور عام مسلمانوں کیلئے فاتحہ خوانی، ایصالِ ثواب اوردُعائے مغفرت کرتے ہیں نیز مزاراتِ اولیا و علما پر حاضری کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے یہ نہ صرف ایک اچھا عمل ہے بلکہ حدیثِ پاک میں زیارتِ قبور کو دُنیا سے بے رغبتی اورفکرِ آخرت کا سبب قرار دیا گیا ہے چنانچہ پیارے آقا، مکی مدنی مُصْطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا فَاِنَّهَا تُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا وَتُذَكِّرُ الْاٰخِرَةَ یعنی میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا اب زیارتِ قبور کر لیا کرو کہ بے شک یہ دُنیا سے بے رغبت کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔([7]) معلوم ہوا کہ وقتاً فوقتاً قبرستان جاتے رہنا چاہئے تاکہ قبروں کو دیکھ کر ہمارے دل میں فکرِ آخرت پیدا ہو، خاص طور پر پندرہ شعبان کی رات کو قبرستان جاکر اپنے مرحومین اور دیگر مسلمانوں کے لئے دُعائے مغفرت کرنی چاہئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



[1]… فضائل الاوقات،باب فی فضل لیلۃ النصف من شعبان، ص32، حدیث:36

[2]…ذکر احادیث رویت عن النبی فی ذکر لیلۃ النصف من شعبان و فضلہ،ص 134 ماخوذا

[3]…شعب الایمان، باب فی الصیام، ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان، 3/382، حدیث:3835

[4]…الدعوات الکبیر،باب القول و الدعا لیلۃ البراءۃ، 2/145،حدیث:530 ماخوذا

[5]شعب الایمان، باب فی الصیام، ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان، 3/384، حدیث:3837 ماخوذا

[6]…وسائلِ بخشش،ص475

[7] ابن ماجہ، كتاب الجنائز،باب ماجاء فی زيارة القبور،2/252، حدیث:1571


Share