مدنی کلینک

معمولاتِ مصطفےٰ اور صحت و تندرستی

* محمد حامد سراج مدنی عطاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

آج لوگ گوناگوں مسائل میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں ، معاشی ، اخلاقی ، سماجی اور معاشرتی مسائل تو درپیش ہیں ہی مگر آج کے دور میں صحت و تندرستی برقرار رکھنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ دینِ اسلام ہر شعبے میں مکمل راہنمائی کرتا ہے ، اسلامی تعلیمات جہاں عقائد و عبادات ، معاشرت و معاملات اور اخلاق و آداب کے تمام پہلوؤں کو شامل ہیں وہیں حفظانِ صحت اور تندرستی کے معاملات میں بھی اسلام نے ایسا نظام عطا فرمایا ہے جو صحت مند زندگی کی ضمانت ہے۔ آئیے! صحت و تندرستی برقرار رکھنے کے تعلق سے آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقدس زندگی کے تین معمولات کے بارے میں جانتے ہیں۔

کھانا اور معمولاتِ مصطفےٰ :

 صحت کی حفاظت میں خوراک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ بِنا کھائے پیئے کوئی زندہ نہیں رہ سکتا لیکن اس میں اعتدال کا قائم رہنا بہت ضروری ہے۔ متوازِن خوراک سے ہی انسان کی صحت برقرار رہتی ہے اور وہ مناسب نشو و نما پاتا رہتا ہے۔ متوازن غذا کسے قرار دے سکتے ہیں؟ قراٰنِ پاک نے اس بارے میں قدیم و جدید طب کی تمام تحقیقات کو ان تین جملوں میں بیان فرما دیا ہے : ( كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْاۚ-) ترجمۂ کنزُ الایمان : کھاؤ اور پیو اور حدسے نہ بڑھو۔ [1] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

کھانے پینے میں یہ ضروری ہے کہ توازن کو قائم رکھا جائے۔ یعنی اتنا زیادہ بھی نہ کھا لیا جائے کہ معدہ قدم قدم پر صدائے احتجاج بلند کرتا سنائی دے۔

حُضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا کھانے پینے کا انداز بھی انتہائی قابلِ تقلید بلکہ صحت و تندرستی کی بقا کے لئے ضروری ہے۔ کھانے سے پہلے اور بعد کی دعائیں پڑھنا ، [2] خواہش کے بغیر نہ کھانا ، پیٹ بھر کر نہ کھانا ، [3] تکیہ (ٹیک) لگا کر نہ کھانا ، [4] تین انگلیوں سے کھانا ، [5] کھانے میں عیب نہ نکالنا ، [6] اپنے سامنے سے کھانا[7] اور کھانے سے پہلے اور بعد ہاتھ منہ دھونا[8] یہ آداب خوراک کے بارے میں آپ  علیہ السّلام کے نفیس مزاج کا پتا دے رہے ہیں۔

نوٹ : کھانے کے بارے میں مزید آداب جاننے کے لئے “ فیضانِ سنّت جلد اوّل “ کے باب “ آدابِ طعام “ کا مطالعہ کیجئے۔

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی غذائیں :

 آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی غذاؤں میں کدو ، [9] کھجور ، [10] انگور ، [11] خربوزہ ، تربوز ، [12]گوشت ، [13]دودھ ، [14] جَو ، [15] شہد ، [16]سِرکہ ، [17] اور سَتّو[18] وغیرہ شامل تھے۔ یہ وہ غذائیں ہیں جن کی اِفادیت  پر قدیم و جدید تمام طبی تحقیقات متفق ہیں اور ہر ملک میں ان کا استعمال صحت بخش اور مفید ہے۔

مشروبات اور معمولاتِ مصطفےٰ :

 انسانی زندگی کو قائم رکھنے کے اہم ذرائع میں سے ایک پانی ہے۔ وہی پانی صحت بخش اور مفید ہے جو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک و صاف ہو اور ضرورت کے وقت مناسب طریقے سے پیا جائے۔ پانی اور دیگر مشروبات کے بارے میں بھی نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا اسوۂ نور ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے۔ آپ نے سادہ پانی بھی نوش فرمایا[19] اور پانی میں دودھ یا شہد ملا کر بھی نوش فرماتے۔ [20] اسی طرح پانی میں کشمش[21] اور کھجور ملا کر[22] بھی اسے شرف بخشا ہے۔ خالص سادہ پانی صرف پیاس بجھاتا ہے جبکہ دودھ اور شہد وغیرہ میں ملا پانی مشروب اور غذا دونوں کا کام دیتا ہے۔ سیّدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہُ عنہا  فرماتی ہیں کہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو محبوب ترین شربت ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ [23] اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ بہترین مشروب وہی ہے جس میں یہ دو وصف ہوں۔ تجربہ بھی شاہد ہے کہ جو مشروب مناسب حد تک مٹھاس اور ٹھنڈک پر مشتمل ہو اس سے انسان اکثر فرحت اور سرور محسوس کرتا ہے جبکہ شہد ملا ہوا پانی تو کئی امراض کا علاج ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پینے سے متعلق آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مزید ہدایات و معمولات جیسے بیٹھ کر پینا ، [24]مشروبات کی دعائیں پڑھنا ، [25] تین سانس میں پینا[26] اور برتن میں سانس نہ لینا[27] وغیرہ سے بھی پتا چلتا ہے کہ آپ نے کھانے پینے کے معاملے میں صحت و تندرستی کے بنیادی اصولوں کو پیشِ نظر رکھا بلکہ ان اصولوں کو اپنی تعلیمات کے ذریعے مزید جِلا بخشی۔

نیند اور معمولاتِ مصطفےٰ :

صحت اور تندرستی کے لئے مناسب حد تک نیند بھی بہت ضروری ہے ، دن بھر کی محنت اور کام کاج کرنے سے انسانی اعضاء تھک جاتے ہیں ، اللہ پاک نے نیند کی صورت میں اس انسانی ضرورت کی تکمیل کا سامان فرمایا ہے۔ نیند کے بارے میں بھی آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا اسوۂ رحمت بالکل فطری اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین موافق ہے۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا اسوۂ نور یہ تھا کہ مختلف دعائیں پڑھ کر آرام فرماتے۔ [28] جب بیدار ہوتے تو پھر دعا پڑھتے اور رب کا شکر ادا کرتے ، [29] پھر مسواک فرماتے ، [30] نماز پڑھنی ہوتی تو اس کے لئے وُضو فرماتے۔ سونے میں آپ کا مبارک طریقہ یہ تھا کہ دایاں ہاتھ رُخسار کے نیچے رکھ کر سوتے[31] اور دائیں پہلو پر سوتے۔ [32] سونے کا یہ طریقہ صحت اور تندرستی کو برقرار رکھنے کے قریب ہے کہ اس سے دل پر بوجھ نہیں بنتا ، معدے کا اینگل ایسا رہتا ہے کہ کھانا اچھی طرح ہضم ہوتا ہے اور تمام اعضاء سے آہستہ آہستہ تھکاوٹ دور ہوتی ہے۔ اس کے برعکس بائیں کروٹ پر سونے سے دل پر بوجھ بنتا ہے اور امراضِ قلب کا اندیشہ رہتا ہے۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بلا ضرورت نہ سوتے ، صحت کے اعتبار سے سونے کا سب سے بُرا طریقہ اوندھے منہ پیٹ کے بل سونا ہے اور آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس کی تعبیر جہنمیوں کے سونے سے فرمائی ہے۔ [33] ان تین سمیت آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے کئی معمولات ہیں جو تندرست رہنے میں مدد کرتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ، اٰمین۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ سیرت مصطفےٰ ، المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی



[1] پ8 ، الاعراف : 31

[2] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص118-119

[3] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص100 ، حدیث : 140

[4] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص96 ، حدیث : 132

[5] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص96 ، حدیث : 133

[6] بخاری ، 3 / 531 ، حدیث : 5409

[7] شعب الایمان ، 5 / 79 ، حدیث : 5846

[8] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص116 ، حدیث : 178

[9] بخاری ، 3 / 536 ، حدیث : 5433 مفہوماً

[10] الشمائلِ المحمدیہ للترمذی ، ص67 ، حدیث : 134

[11] معجم کبیر 12 / 115 ، حدیث : 12727

[12] الشمائلِ المحمدیہ للترمذی ، ص 121 ، حدیث : 188-189

[13] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص 102 تا 112 ماخوذاً

[14] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص124 ، حدیث : 196

[15] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص99 ، حدیث : 137

[16] بخاری ، 3 / 536 ، حدیث : 5431

[17] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص109 ، حدیث : 164

[18] الشمائلِ المحمدیہ للترمذی ، ص97 ، حدیث : 134

[19] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص 120 ، حدیث : 187

[20] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 79

[21] ابوداؤد ، 3 / 469 ، حدیث : 3713

[22] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص120 ، حدیث : 187

[23] ترمذی ، 3 / 356 ، حدیث : 1902

[24] مسلم ، ص863 ، حدیث : 2024

[25] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص124 ، حدیث : 196و ابو داؤد ، 3 / 476 ، حدیث : 3730

[26] الشمائل المحمدیہ للترمذی ، ص127 ، حدیث : 201

[27] ابوداؤد ، 3 / 475 ، حدیث : 3728

[28] بخاری ، 4 / 192 ، حدیث : 6312-13

[29] بخاری ، 4 / 192 ، حدیث : 6312

[30] مسلم ، ص124 ، حدیث : 596

[31] ترمذی ، 5 / 550 ، حدیث : 259

[32] صحیح ابن خزیمۃ ، 2 / 149 ، حدیث : 1093

[33] ابن ماجہ ، 4 / 214 ، حدیث : 3724


Share

Articles

Comments


Security Code