
قراٰنی تعلیمات
فلاح و کامیابی کے قراٰنی اصول
*مولانا ابوالنّور راشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025
گذشتہ ماہ کے شمارے میں فلاح کا معنیٰ اور قراٰنِ کریم میں بیان کردہ فلاح کا ذریعہ بننے والے امور بیان کئے گئے تھے۔ ان میں درج ذیل اصول شامل تھے:
(1)تقویٰ (2)نیکی کی دعوت اور بُرائی سے ممانعت (3)حق ہی کو حق سمجھنا اور اللہ سے ڈرنا (4)شیطانی اعمال سے بچنا (5) اللہ کی نعمتوں کا ذکر و شکر کرنا (6)کفر کے مقابل ثابت قدمی اور طلبِ مددِ الٰہی (7)نماز اورعملِ صالح(صلہ رحمی و مکارمِ اخلاق) (8)ایمان کے ساتھ ساتھ نمازوں میں خشوع و خضوع اپنانا، بیہودہ باتوں کی جانب التفات نہ کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بدکاری سے بچنا، امانت ادا کرنا، عہد پورا کرنا اور نمازوں کی پابندی کرنا (9)شرم و حیا اور پردہ و عِفّت (10)اللہ کی بکثرت یاد۔
ذیل میں ”فلاح و کامیابی کے مزید 8 قراٰنی اصول“ پیش ہیں:
(1)نفس کی پاکیزگی کا اہتمام:
نفس کا انسانی زندگی میں بڑا اہم کردار ہے۔ اس کی اصلاح ہو گئی تو بندہ کامیاب ہے، یہ بگڑا رہا تو نقصان ہی نقصان ہے، قراٰنِ کریم نے فلاح و کامرانی کا ایک اصول نفس کی پاکیزگی ارشاد فرمایا ہے جیسا کہ سورۃُ الاعلیٰ میں فرمایا:
(قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(۱۵))
ترجَمۂ کنزالایمان:بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔ ([1])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
یعنی جس نے ایمان لا کر، اللہ کا نام لے کر، تکبیر کہہ کر نماز پڑھ کر، نفس کی پاکیزگی کا اہتمام کیا وہ فلاح و مراد کو پہنچا۔ تفسیراتِ احمدیہ میں ہے کہ تَزکّٰی سے صدقۂ فطر دینا اور رب کا نام لینے سے عید گاہ کے راستہ میں تکبیریں کہنااور نماز سے نمازِ عید مراد ہے۔([2])
(2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و توقیر و اطاعت:
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و تعظیم کامیابی و کامرانی کا واضح قراٰنی اصول ہے، سورۃُ الاعراف میں ہے:
(فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ- اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷))
ترجَمۂ کنزالایمان:تو وہ جو اس پرایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔([3])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(3)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہر فیصلہ پر سرتسلیم خم کرنا:
فلاح و کامیابی کا ایک بنیادی اصول ہر طرح کے معاملے میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فیصلے اور حکم کو فوراً تسلیم کرلینا ہے۔چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:
(اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵۱) وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَیَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲))
ترجَمۂ کنزالایمان: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول اُن میں فیصلہ فرمائے تو عرض کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا اوریہی لوگ مراد کو پہنچے۔ اور جو حکم مانے اللہ اور اس کے رسول کا اور اللہ سے ڈرے اور پرہیزگاری کرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔([4])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
کسی اختلاف میں فیصلہ فرمانا اگرچہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے لیکن آج بھی اگر کسی معاملے میں حق و باطل کا فیصلہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات سے کیا جائے تو کامیابی و فلاح اسی میں ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کے مطابق فیصلہ مانا جائے اور سرِتسلیم خم کردیا جائے۔
(4)اہل قرابت اور مساکین پر خرچ کرنا:
خونی رشتوں سے ایک فطری الفت اور طبیعت میں ان کا احساس ہوتا ہے، لیکن دنیا کا مال ایسا ناسور ہے کہ بعض لوگوں کو یہ رشتے بھی بھلا دیتاہے، ربّ کریم نے قراٰنِ پاک میں اور رسولِ عظیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی تعلیمات میں صلہ رحمی کی بہت تاکید فرمائی، یہاں تک کہ قراٰنِ کریم نے اہلِ قرابت پر خرچ کرنے کو فلاح و کامیابی کا ذریعہ ارشاد فرما یا ہے اور ساتھ ہی اس بات پر تاکید فرمائی ہے کہ” کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ اللہ رزق وسیع فرماتا ہے جس کے لئے چاہے اور تنگی فرماتا ہے جس کے لئے چاہے “ چنانچہ اہلِ قرابت کے ساتھ سلوک اور احسان کرو صدقہ دے کر اور مہمان نوازی کر کے ان کے حق دو، اسی طرح غُربا و مساکین پر خرچ کرنا بھی فلاح و کامرانی کا اصول ہے البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں مقصود اللہ کریم کی رضا ہو۔([5])
(5)دشمنانِ اللہ و رسول سے دوری:
کسی بھی معاشرے یا لیول کا فرد ہو وہ یہ احساس رکھتا ہے کہ جو اپنا ہے اس سے محبت و موافقت ہوگی اور جو اپنوں کا دشمن ہے اس سے کبھی موافقت نہ ہوگی، البتہ دینِ اسلام جو کہ انسانیت کا حقیقی مذہب ہے، اس نے جامع اصول دیا ہے کہ جس سے بھی محبت ہوگی صرف اللہ اور رسول کے لئے اور جس کی بھی مخالفت ہوگی صرف اللہ و رسول کے لئے، قراٰنِ کریم نے اس اصولِ محبت و مخالفت کو بہت واضح فرمایا اور اسے فلاح و کامیابی کا ذریعہ اور اس پر عاملین کو اللہ کا گروہ فرمایا چنانچہ سورۃ المجادلۃ میں ہے:
(لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ-وَیُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُؕ-اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۲۲) )
ترجَمۂ کنزالایمان: تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ اُن کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں ان میں ہمیشہ رہیں اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یہ اللہ کی جماعت ہے سنتا ہے اللہ ہی کی جماعت کامیاب ہے۔([6])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
قراٰنِ کریم نے واضح کردیا کہ مومنین سے یہ ہوہی نہیں سکتا اور ان کی یہ شان ہی نہیں اور ایمان اس کو گوارا ہی نہیں کرتا کہ خدا اور رسول کے دشمن سے دوستی کریں۔ ([7])
(6)بخل سے پرہیز اور جذبۂ ایثار:
ربّ العزّت نے قراٰنِ کریم میں صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان کی شان و عظمت بیان فرمائی اور ان کے ایسے اعمال کا ذکر فرمایا جو اللہ کو محبوب اورفلاح و کامیابی کا اصول ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت و ہمدردی، حسنِ معاشرت اور باہمی دلداری کا ذریعہ ٔ اولین ہیں۔ ان اوصاف میں ”خود کو ضرورت ہونے کے باوجود اپنی چیزیں دوسروں کے لئے ایثار کرنا اور نفس کے لالچ سے بچا رہنا“ شامل ہیں جیسا کہ سورۃ الحشر میں ہے:
(وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹))
ترجَمۂ کنزالایمان: اور جنہوں نے پہلے سے اس شہر اور ایمان میں گھر بنالیا دوست رکھتے ہیں انہیں جو ان کی طرف ہجرت کرکے گئے اور اپنے دلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتے اس چیز کی جو دئیے گئے اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اُنہیں شدید محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔([8])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(7)سیدھی بات کرنا:
فلاح و کامرانی کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سچی اور سیدھی بات کی جائے جیسا کہ قراٰنِ کریم میں فرمایا:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰) یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱) )
ترجَمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمان برداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔([9]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
سیدھی اور سچی بات کے کچھ مزید فوائد کو صدرالافاضل رحمۃُ اللہِ علیہ نے یوں بیان فرمایا کہ ”سچّی اور درست حق و انصاف کی سیدھی بات کہو اور اپنی زبان اور کلام کی حفاظت رکھو، یہ بَھلائیوں کی اصل ہے ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا، تمہیں نیکیوں کی توفیق دے گا، تمہاری طاعتیں قبول فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دےگا۔“([10])
(8)صبر اور استقامت:
دین کے معاملے میں آنے والی مصیبتوں، پریشانیوں اور بالخصوص ایمان کے مقابل ہونے والی مخالفت پر صبر کرنا اور ایمان پر ڈٹے رہنا بہت سعادت کی بات اور فلاح وکامرانی کا ذریعہ ہے۔([11])رب العزّت نے ایمان پر استقامت اور صبر والوں کے بارے میں واضح اعلان فرمایا کہ
(اِنِّیْ جَزَیْتُهُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوْۤاۙ-اَنَّهُمْ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۱۱۱) )
ترجَمۂ کنزالایمان: آج میں نے اُن کے صبر کا انہیں یہ بدلہ دیا کہ وہی کامیاب ہیں۔([12])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
استقامت بڑی چیز ہے، کہتے ہیں کہ استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی استقامت کی اہمیت کو ”وَاَنَّ اَحَبَّ الاَعْمَالِ اِلَى اللَّهِ اَدْوَمُهَا وَاِنْ قَلَّ“ سے بیان فرمایا۔ یعنی بے شک اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جو دائمی ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔([13])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ایم فل اسکالر/فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments