
وہ جن کے کندھے پر رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا دستِ شفقت مارا
*مولانا ابومحمد عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025
اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بچوں اور بڑوں سب کے ساتھ شفقت و محبت کا انداز نِرالا ہوتا تھا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ کبھی نصیحت کرنے یا کوئی بات ذہن نشین کروانے اور متوجہ کرنے کے لئے سامنے والے کا کندھا پکڑتے، کندھے یا دونوں کندھوں کے درمیان ہاتھ مبارک مارتے اور یہ مارنا بالکل تھپتھپانے کی طرح شفقت و محبت سے ہوتا۔ ([1]) آیئے! ذیل میں ان خوش نصیب صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم میں سے چند کے واقعات پڑھتے ہیں جن کے کندھے یا دونوں کندھوں کے درمیان رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا دستِ شفقت مارا یعنی اس کے ذریعے تھپتھپایا:
حضرت علیُّ المُرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا دستِ شفقت مارا: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت علیُّ المُرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کے دونوں کندھوں کے درمیان ہاتھ مارتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے علی! تجھے سات ایسے فضائل حاصل ہیں کہ جن میں بروزِ قیامت تمہارے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں کرسکے گا:(1)تم اللہ پر ایمان لانے میں (بچوں میں) سب سے پہلے ہو (2)اللہ کے عہد کو سب سے زیادہ پورا کرنے والے (3)اللہ کے حکم کو سب سے زیادہ قائم کرنے والے (4)رعایا میں عدل کرنے والے (5)مساوات کے ساتھ تقسیم کرنے والے (6)فیصلہ کرنے میں سب سے زیادہ صاحبِ بصیرت ہو اور (7)بروزِ قیامت سب سے بلند مرتبے میں ہو گے۔ ([2])
حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا کے کندھے پر اپنا دستِ شفقت مارا: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: میں ایک سفر میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہمراہ تھی، ہم نے ایک جگہ قیام کیا تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو آگے روانہ کر دیا اور مجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا، میرا بدن دُبلا پتلا تھا اس لئے میں آگے نکل گئی، پھر کچھ عرصے بعد کسی اور سفر میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہمراہ تھی، ہم نے ایک جگہ قیام کیا تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو آگے روانہ کر دیا اور مجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا، اس وقت میں فربہ بدن تھی لہٰذا حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آگے نکل گئے۔ پھر میرے کندھے پر اپنا دستِ شفقت مارتے ہوئے فرمایا کہ یہ اُس (جیت) کا بدلہ ہوگیا۔([3])یاد رہے!یہ دوڑ رات کے اندھیرے یا دن میں تنہائی میں تھی۔([4])لہٰذا فی زمانہ ہونے والی مرد و عورت کی دوڑ (Race) کے لئے اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا دستِ شفقت مارا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے تو میں ایک دروازے کے پیچھے چھپ گیا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے پاس تشریف لائے اور میرے دونوں کندھوں کے درمیان (پیار سے) اپنا دستِ شفقت مارا اور فرمایا: معاویہ کو میرے پاس بُلا کر لے آؤ۔([5])
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما کا کندھا پکڑا: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرا کندھا پکڑ کر ارشاد فرمایا: دنیا میں ایسے رہو جیسے تم مسافر ہو یا راہ گیر اور اپنے آپ کو قبر والوں میں سے شمار کرو۔([6])
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: (حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما کا) کندھا پکڑنا قلبی فیض دینے کے لئے تھا قلبی فیض کے بغیر نصیحت اثر نہیں کرتی۔([7])
حضرت مِقدام بن مَعدی کرب رضی اللہُ عنہ کے کندھے پر اپنا دستِ شفقت مارا: حضرت مِقدام بن مَعدی کرب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے کندھے پر اپنا دستِ شفقت مارا اور فرمایا: اے قُدیم! اگر تم حاکم، کاتب اور سردار ہو کر نہ مرو تو فلاح پاؤ گے۔([8])
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: (حضرت مِقدام رضی اللہُ عنہ کے) کندھے پر ہاتھ رکھنا، قُدَیم تصغیر فرماکر خطاب کرنا کرم و محبت کے لئے ہے۔([9])
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہُ عنہ کے کندھے پر اپنا دستِ شفقت مارا: حضرت ابوذر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی: کیا آپ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے کندھے پر اپنا دستِ شفقت مارتے ہوئے فرمایا: اے ابوذر! تم کمزور ہو اور یہ امانت ہے جو قیامت کے دن رسوائی اور شرمندگی کا باعث ہوگی، البتہ جو اس کے حقوق ادا کرے اور اس کی ذمہ داریاں پوری کرے(وہ مستثنیٰ ہے)۔ ([10])
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: (حضرت ابوذر غفاری رضی اللہُ عنہ کے کندھے پر) اَز راہِ شفقت و محبت (اپنا دستِ شفقت مارا) تاکہ ان کو اس سے منع فرمادینے سے رنج نہ ہو۔(مزید فرماتے ہیں:) حکومت و سلطنت ظالم کے لئے رسوائی ہے اور عادل کے لئے ندامت و شرمندگی، وہ سوچے گا کہ میں نے حکومت کرنے کے اوقات عبادت میں کیوں نہ گزارے۔([11])
قارئینِ کرام! ان واقعات سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم اپنے ماتحتوں کے ساتھ گُھل مل کر رہیں، موقع کی مناسبت سے انہیں مفید نصیحتیں کریں اور ان کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کریں تاکہ آپس میں محبت پیدا ہو اور نفرتیں دور ہوں۔ اللہ پاک ہمیں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments