حضرت سیّدنا سعد بن معاذ رَضِی اللہُ تَعَالٰی عنْہ

میدانِ بدر میں ابھی جنگ کا بازار گرْم نہ ہوا تھا کہ ایک  صحابیٔ رسول  نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یَارَسُو لَ   اللّٰہ   صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم! کیا ہم آپ کے لئے ایک سائبان نہ بنادیں جس میں آپ تشریف فرما ہوں اور قریب ہی آپ کی سواری باندھ دی جائے پھر ہم اسلام کے دشمنوں سے ٹکراجائیں،اگر اللّٰہ  عَزَّ وَجَلَّ نے ہمیں فتح دی تو یہ ہماری خواہش کے مطابق ہوگا اور اگر دشمن ہم پر غالب آگیا تو آپ اپنی سواری پر بیٹھ کر مدینہ طیّبہ تشریف لے جائیے گا،یہ سن کر مدنی سرکار صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے اپنے پیارے صحابی کے لئے تعریفی کلمات ادا کئے اور دُعائے خیر کی۔(اسد الغابہ، ج3،ص324)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مُخْلِصانہ مشورہ دینے اور دُعائے نبوی سے حصّہ پانے والے یہ جانثار صحابی قبیلۂ بنو عبد الاَشْہَل کے سردار،سیّد الانصارحضرت سیّدنا سعْد بن مُعاذ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ تھے۔حلیۂ مبارکہ:آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ لمبے قد کاٹھ کے مالک تھے سُرْخ و سفید چہرے پر بڑی بڑی آنکھوں اور خوبصورت داڑھی نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے حُسْنُ و جمال کو چار چاند لگا دئیے تھے۔ (طبقاتِ ابن سعد ،ج3،ص331) قبولِ اسلام کی برکتیں: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہمُبَلِّغِ اسلام حضرتِ سیّدنا مُصْعَب بن عُمیر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی نیکی کی دعوت پر کلمہ پڑھ کر دائرہ ٔاسلام میں داخل ہوئے۔ پھرخیر خواہی کے جذبے کے تحت اپنی قوم کے پاس گئے اور فرمایا:مجھ پر تمہارے مَردوں اور عورتوں سے اس وقت تک بات کرنا حرام ہے جب تک تم اللہ  عَزَّ وَجَلَّاوراس کے رسول صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم پر ایمان نہیں لے آتے۔ راوی فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! شام کے سائے ابھی پھیلنےبھی نہ پائےتھےکہ پوراقبیلہ دولت ِاسلام سے مالامال ہوگیا۔(سیرت ابن ہشام،ص 174) اس طرح آپرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا مسلمان ہوجانامدینۂ مُنَوَّرہ میں اشاعت ِاسلام کے لئے بہت ہی بابرکت ثابت ہوا۔ اس کے بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے حضرت اُسَیْد بن حُضَیْررضیَ اللہُ تعالٰی عنہکے ساتھ مل کر قبیلے کے تمام خودساختہ جھوٹے خداؤں کو  نیست و نابود(ختم) کر دیا۔ (طبقات ابن سعد ،ج 3،ص321)  جرأت مندی: ایک مرتبہ عُمرہ ادا کرنے کے لئے مکّۂ مکرَّمہ تشریف لے گئے اور پُرانے تعلقات کی بناپر اُمیّہ بن خَلْف کے پاس ٹھہرے، جب طواف کرنے کے لئے حرم میں  پہنچے تو ابو جہل نے روکنا چاہا مگر آپ نے جرأت اور دلیری کے ساتھ جواب دیا: اگر تم لوگوں نے ہمیں کعبہ کی زیارت سے روکا تو ہم تمہاری شام کی تجارت کا راستہ روک دیں گے۔ (بخاری،ج 2،ص509، حدیث:3632 ملتقطاً) مجاہدانہ شان: غزوہ ٔ بدر میں رسول اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے سائبان کا دربان بننے کی سعادت حاصل کی، (طبقات ابن سعد،ج2ص11) معرکۂ اُحُد میں مسلمانوں میں افراتفری کے وقت آپ ثابت قدم رہنے والوں میں شامل تھے۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص321) سن پانچ ہجری میں غزوۂ خَنْدَق کے موقع پر آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ چھوٹی سی زِرَہ (لوہے کا جنگی لباس)پہنے نیزہ ہاتھ میں پکڑے دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ابن العَرِقَہ نامی کافر نے نشانہ باندھ کر ایک تیر پھینکا جس سے بازو کی رگ کَٹ گئی اورآپ شدید زخمی ہوگئے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج3،ص176) حُضور ِاکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّمنے آپ کے علاج معالجہ کے لئے مسجد ِنبوی میں ایک خیمہ نصب کروایا۔(بخاری،ج3،ص56،حدیث:4122)تمنائے شہادت اور شوق جہاد: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا زخم دن بدن  بھرنے لگا اور طبیعت سنبھلنے لگی اس دوران دل میں ایک جانب شہادت کی تمنّا چُٹکیاں لے رہی تھی تو دوسری طرف شوقِ جہاد بلندیوں  کوچھو رہا تھا بالآخر لبوں پر یہ دعا  مچلنے لگی: یا اللہ عَزَّوَجَلَّ! تو جانتا ہے کہ مجھے کفّارِ قریش سے لڑنے کی جتنی آرزو اور خواہش ہے کسی اور قوم سے نہیں کیونکہ اس بدکردار قوم نے تیرے رسولِ کریمصلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کو جُھٹلایا اور انہیں ہجرت پر مجبور کیاتھا ۔لہٰذا اگر کفّار ِقریش سے کوئی جنگ باقی ہے تو مجھے زندہ رکھ تاکہ میں تیری راہ میں ان کافروں سے لڑوں اور اگران لوگوں سے کوئی جنگ باقی نہیں ہے تو میرے اس زخم کو پھاڑ دے اور اسی زخم میں شہادت کی موت عطا فرما دےچنانچہ دعا ختم ہوتے ہی اچانک آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ  کا زَخْم پَھٹا اور خون کے فوَّارے اُبلنے لگے۔ (مسلم، ص753، حدیث:4600ملخصاً) رَحْمت ِعالَم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم خیمے میں تشریف لائے اور آپ کے سر کو اپنی گود مُبارک میں رکھا اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کے لئے ہاتھوں کو اٹھا دیا:’’یا الٰہی! سعد نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تیرے نبی کی تصدیق کی ہے لہٰذا تُو سب سے بہتر طریقےسے ان کی روح قبض فرما۔‘‘یہ مُبارک اوردُعائیہ کلمات جونہی آپرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی سماعت سے ٹکرائے تو آپ نے آنکھیں کھول دیں ۔اس نازُک حالت میں بھی عشقِ رسول کا غلبہ رہا، دل مچل گیا فوراً بارگاہِ رسالت میں سلام پیش کیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ  یَارَسُولَ اللّٰہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے رسالت کاحق ادا کیا ہے۔ اس کے بعد رَحْمت ِ عالَم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم واپس لوٹ آئے۔ چند گھنٹوں بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ (مغازی للواقدی،ج 2،ص525) بعد میں کسی نے عرض کی: یَارَسُولَ اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم! آپ خیمے میں لمبے لمبے قدم کے ساتھ پھلانگتے ہوئے داخل ہوئے حالانکہ خیمہ میں کوئی شخص بھی موجود نہ تھا ، ارشاد فرمایا: خیمہ فرشتوں سے بھرا ہوا تھاکہ قدم رکھنے کی جگہ نہ تھی ایک فرشتہ نے اپنا پر اٹھایا تو میں وہاں بیٹھ گیا۔(طبقات ابن سعد ،ج 3،ص327)فضائل و مناقب: رحمت ِعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے نورانی اور مُشْکبار فرامین سے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے مقام و مرتبے کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :٭سعد بن مُعَاذ کی موت سے عرشِ الٰہی فَرْحَت و شادمانی سے جھوم اُٹھا ہے۔(مسلم، ص 1028، حدیث: 6346)٭ ستّر ہزار (70،000) فرشتے ان کے جنازے میں شریک ہوئے ہیں۔ (نسائی،ص346، حدیث: 2052ملتقطاً)٭فرشتے ان کی روح کا قُرْب پاکرخوش و خرم ہیں۔ (سیرت ابن ہشام، ص403)٭ان کی آمد پر آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں۔(نسائی، ص346، حدیث: 2052 ملتقطاً)

عرش پر دھومیں مچیں، وہ مومنِ صالح ملا

فرش سے ماتم اٹھے، وہ طیب و طاہر گیا

(حدائق بخشش،ص:54 )

جوں جوں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی قبر مبارک کھودی جارہی تھی اس سے مشک کی خوشبو پھیل کر حاضرین کے مشام ِجاں کو معطّر کررہی تھی۔ (طبقات ابن سعد،ج3،ص329) ایک روایت کے مطابق  کسی نے آپ کی قبر کی مٹی اپنی مٹھی میں دبائی اور اپنے ساتھ لے آیا ،بعد میں دیکھا تو وہ مشک تھی جب بارگاہِ رسالت میں اس کا ذکرکیا گیا تورُخسارِ اَنْوَرپر مَسَرَّت کے آثار نمودار ہوگئے پھر ارشاد فرمایا:سُبْحٰنَ اللّٰہ! سُبْحٰنَ اللّٰہ! (زرقانی علی المواھب،ج3،ص 99) ایک مرتبہ کسی نے بارگاہِ رسالت میں ایک ریشمی لباس پیش کیا تو لوگ اس کی بناوٹ اور مُلَائِمَت پر حیران ہونے لگے، دوعالَم کے دولہا  صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے ارشاد فرمایا:تم لوگ اس پر تعجب کررہے ہو، جنّت میں سعد بن مُعاذ کے رومال اس سے بھی عمدہ اورمَلائم ہیں۔ (مسلم، ص 1028، حدیث: 6348) آپرضیَ اللہُ تعالٰی عنہاپنی عمر ِعزیز کی صرف 37بہاریں ہی دیکھ پائے تھے آپ کی قبر مبارک   جنّتُ البقیع میں ہے۔ (طبقات ابن سعد،ج3،ص331)


Share

حضرت سیّدنا سعد بن معاذ رَضِی اللہُ تَعَالٰی عنْہ

مَحَبَّتِ اِلٰہی، عشقِ رسول، عِلْم وحکمت، صبر واِسْتِقْلال، قناعت اور دنیا سے بے رَغبتی حضرت سیِّدنا ذُوالنُّون مِصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مُبارَک سیرت کے نمایاں اَوصاف میں سے ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا نام ”ثَوبان“، کنیت ”ابوالفیض“ اور لقب ”ذُوالنُّون“تھا۔(المنتظم،ج11،ص344) آپ کے والد کا نام ابراہیم ہے جو مِصر کے جنوب میں واقع وسیع وعریض خطے ”نُوبیہ“ (Nubia) کے رہنے والے تھے۔(رسالہ قشیریہ، ص23-معجم البلدان،ج 4 ،ص405) وِلادت اور حلیہ مبارکہ : آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی وِلادت ابوجعفر منصور عباسی کے دورِ حکومت کے آخر میں ہوئی۔ (سیراعلام النبلاء،ج10،ص17)آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہکاجسم دُبلاپَتلا اور رنگ سُرخی مائل تھا، داڑھی مبارک سیاہ تھی۔(رسالہ قشیریہ، ص24)دنیا سے کنارہ کش کیسے ہوئے: حضرت سیِّدنا ذُوالنُّون مصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دنیا سے کنارہ کَشی اختیار کرنے اور آخرت کی جانب مُتَوَجِّہ ہونے کا واقعہ بہت دلچسپ اور حیرت انگیز ہے چنانچہ فرماتے ہیں: میں نے ایک بار مِصْر سے کسی دوسری جگہ  جانے کا ارادہ کیا۔ دورانِ سفر ایک” صحرا“ میں سو گیا۔ جب آنکھ کھلی تو اپنے سامنے قُنْبُرَہ نامی ایک پرندہ دیکھا جو آنکھوں سے اندھا تھا۔ وہ اپنے گھونسلے سے زمین پر گرا، پھر زمین شَقْ ہوئی (یعنی کُھلی) اور اس میں سے سونے اور چاندی کے دو پیالے باہَر آئے۔ ایک پیالے میں تِل اور دوسرے میں پانی تھا۔ پرندہ تِل کھا کر پانی پینے لگا۔(ربّ تعالٰی کی شانِ رزَّاقیت کا یہ ایمان اَفروز منظر دیکھ کر) میں نے کہا: بس، مجھے یہ (نصیحت کے لئے) کافی ہے اور میں نے (اپنی گُزَشتہ حالت سے) توبہ کرلی۔(رسالہ قشیریہ، ص24)علم و حکمت کے دروازے کُھل گئے(حکایت): اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جنگل کی جانب چَل نکلے، جہاں کچھ پُرانے دوست مل گئے اور اتفاق سے ان کے ہاتھ ایک خزانہ لگ گیا جس میں ایک تختہ بھی تھا۔ اُس پر اللّٰہ تعالٰی کے اسمائے مُبَارَک کَنْدَہ(یعنی کُھدے ہوئے) تھے۔ جب خزانہ تقسیم ہونے لگا تو آپ نے صرف وہ تختہ لیا۔  ایک رات خواب میں دیکھا کہ کوئی یہ کہہ رہا ہے: اے ذُوالنُّون! سب نے دولت تقسیم کی اور تُو نے ہمارے نام کو پسند کر لیا جس کے عِوَض ہم نے تیرے اوپر عِلم و حکمت کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ (تذکرۃ الاولیاء، جزء:اوّل، ص113)نفس کی مخالفت کا انعام: مسلسل دس سال تک آپ کو لذیذ کھانوں کی خواہش رہی لیکن کبھی کھایا نہیں، ایک مرتبہ عید کی رات نفس نے تقاضا کیا کہ آج تو کوئی لذیذ غِذا ملنی ہی چاہئے تو فرمایا:اےنفس!اگر تو دو رکعت میں مکمل قراٰنِ کریم ختم کرلے تو میں تیری خواہش پوری کردوں گا۔ نفس نے آپ کی یہ خواہش منظور کر لی اور ختمِ قراٰن کے بعد جب لذیذ کھانا سامنے لایا گیا تو پہلا ہی ”لقمہ“ اُٹھا کر ہاتھ کھینچ لیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ جب لوگوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ پہلے ہی  ”لقمہ“پر نفس نے خوش ہو کر کہا کہ آج دس برس کے بعد تیری خواہش پوری ہو رہی ہے چنانچہ میں نے”لقمہ“رکھ کر کہا کہ میں ہرگز تیری خواہش پوری نہیں کروں گا۔ اسی وقت ایک شخص عمدہ کھانا لئے حاضر ہوا اور عرض کی:میں بہت مُفْلِس اور بال بچوں والا ہوں مگر آج میں نے عید کی وجہ سے لذیذ کھانا پکوایا اور سو گیا، پھر خواب میں حُضُورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت سے مُشَرَّف ہوا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اگر تو محشر میں مجھ سے ملنے کا خواہش مند ہے تو یہ کھانا ذُوالنُّون کے پاس لے جا اور میرا یہ پیغام پہنچا دے کہ وقتی طور پر اپنے نفس سے صُلْح کر کے ایک دو لقمہ یہ کھانا چَکھ لے۔ یہ پیغام سُن کر حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: فرمانبردار کو اس میں کیا انکارہو سکتا ہے یہ کہہ کر آپ نے تھوڑا سا کھانا چکھ لیا۔ (تذکرۃ الاولیاء، جزء:اوّل، ص117)جمادات کی فرمانبرداری: حضرت سیِّدنا ابوجعفر اَعْوَر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں آپ کی مجلس میں موجود تھا، آپ جَمادات(بے جان چیزوں) کی فرمانبرداری  پر گفتگو فرما رہے تھے کہ جَمادات اللہ والوں کے اس دَرَجہ فرمانبردار ہوتے ہیں کہ اگر میں  سامنے والے تخت سے یہ کہہ دوں کہ پورے مکان کا چکر لگا لے تو وہ ہرگز انکار  نہیں کر سکتا۔ اتنا کہناتھا  کہ اس تخت نے پورے مکان کا چکر لگایا اور اپنی جگہ آگیا۔(تذکرۃ الاولیاء، جزء:اوّل، ص116)پتھر زُمُرُّد میں تبدیل ہوگیا: کسی نے آپ سے عرض کی کہ میں مقروض ہوگیا ہوں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک پتھر اٹھایا جو زُمُرُّد (ایک ہیرے) میں تبدیل ہوگیا اور وہی پتھر اس شخص کو دے دیا۔ اس نے چار سو درہم میں فروخت کر کے اپنے قرض کی ادائیگی کر دی۔(تذکرۃ الاولیاء، جزء:اوّل، ص116)وصالِ باکمال:آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے 2 ذوالقعدۃالحرام 245ھ کو انتقال فرمایا، جبکہ246ھ اور 248ھ کے اقوال بھی ہیں۔(سیر اعلام النبلاء، 10،ص19) آپ کا مزارمِصْرکے دارالحکومت قاہِرہ سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع  شہرجِیْزَہ میں ہے۔ اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو بہت بلند مقام عطا فرمایا تھا۔ آپ اہلِ طریقت وحقیقت کے امام اور ان کے پیشوا تھے لیکن مِصْر کے لوگ آپ کے  مقام و مرتبے سے ناواقفیت کی بنا پر آپ کو اَذِیَّت دیتے رہے۔ جب آپ کا انتقال ہوا تو لوگوں نے آپ کی مبارک پیشانی پر یہ کلمات لکھے ہوئے دیکھے:ہٰذَا حَبِیْبُ اللہِ مَاتَ فِیْ حُبِّ اللہِ وَہٰذَا قَتِیْلُ اللہِ مَاتَ مِنْ سَیْفِ اللہِ یعنی یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا دوست ہے اور  اللہ تعالٰی کی محبت میں وفات پائی اور یہ مقتول ہے جو اللّٰہ تعالٰی کی تلوار سے  فوت ہوا ہے۔ جنازے پر پرندوں کا سایہ: دُھوپ کی شِدّت کی وجہ سے آپ کے جنازے پر پرندے سایہ کئے ہوئے تھے۔ جس طرف سے آپ کا جنازہ گزرا وہاں مسجد میں مؤذن اذان دے رہا تھا اور جس وقت وہاَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ پر پہنچا تو آپ نے شہادت کی اُنگلی اُٹھا دی۔ لوگوں کو خیال ہوا کہ شاید آپ کا انتقال نہیں ہوا لیکن جب جنازہ رکھ کر دیکھا گیا تو آپ ساکت تھے اور شہادت کی اُنگلی اُٹھی ہوئی تھی جو کوشش کے باوجود بھی سیدھی نہیں ہوئی چنانچہ اسی طرح آپ کو دفن کر دیا گیا۔ آپ کی یہ کرامت دیکھ کر اہلِ مِصْر آپ کو مُسلسل اَذِیَّت پہنچانے پر نادِم (شرمندہ) ہوئے اور توبہ کی۔(تذکرۃ الاولیاء، جزء:اوّل، ص128 تا 129)پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی آمد: آپ کے انتقال کی رات ستّر (70) اولیائے کرام رحمہم اللہ السَّلام کو حُضُورِ اَنْوَر صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت ہوئی اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میں خدا کے دوست ذُوالنُّون مصری کے خیرمَقْدَم کے لئے آیا ہوں۔(تذکرۃ الاولیاء، جزء:اوّل، ص128)

  


Share