امام العادلین حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ

صحرائے عرب کی چِلْچِلا  تی اور سخت دھوپ میں ایک شخص اپنے سَر پر چادر ڈالے مدینہ منورہ زاد ہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماً  کی جانب بڑھ رہا تھا، راستے میں گدھے پر سوار ایک غلام کو دیکھا تو اس سے کہا: گرمی بہت ہے مجھے اپنے پیچھے سوار کرلو، غلام نے اس شخص کو پہچان لیا، فوراً اُتر کر عرض کی: آپ اس پر سوار ہوجائیے، مگر اس شخص نے کہا: تم سوار ہوجاؤ اور میں تمہارے پیچھے بیٹھوں گا، غلام نے پھر عرض کی: آپ سوار ہوجائیے اور میں پیدل چلتا ہوں، مگر وہ شخص نہ مانا بالآخر غلام نے اس شخص کو اپنے پیچھے سوار کرلیا۔ دونوں سوار جب مدینۂ منوّرہ کی حدود میں داخل ہوئے تو لوگ اس شخص کو حیرت سے تَک رہے تھے۔(تاریخِ ابنِ عساکر، ج44،ص318 ملخصاً)

 میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غلام کے پیچھے سوار ہونے والا کوئی عام آدمی نہ تھا بلکہ وہ عظیم ہستی تھی جس نے کفر و گمراہی کے شہروں میں ہدایت کی شمعیں روشن کیں، قیصر و کسریٰ کے غرور کو خاک میں ملایا، جس کے دورِ حکومت میں ایک ہزار سے زائد شہر فتح ہوئے، چار ہزار سے زائد مساجد تعمیر کی گئیں۔ یہ محترم ہستی  امامُ العادِلین،غیظُ المنافقین ،امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا عُمَر فاروق اعظمرضی اللہ تعالٰی عنہ کی ذاتِ مقدّسہ ہے۔ کنیت، لقب، حلیہ مبارکہ: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کنیت ”ابو حفص“ اور  لقب ”فاروقِ اعظم“ ہے۔ آپ دراز قد، بھاری جسم اور سفید رنگت والے جبکہ داڑھی مبارَکہ گھنی اور گھنگریالی تھی۔(فیضانِ فاروقِ اعظم، ج1،ص59تا60) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ عامُ الفیل کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے، یوں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تاریخِ ولادت 583 عیسوی ہے۔ اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد: آپ اشرافِ قریش میں اپنی ذاتی و خاندانی وجاہت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز تھے۔ آپ نے زمانۂ جاہلیّت میں کفّارِ مکّہ کے لئے کئی جنگوں میں سِفارَت کے فرائض بھی سر انجام دئیے تھے۔(تاریخ الخلفاء، ص99 ملخصاً) ایک روایت کے مطابق آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ 39مَردوں کے بعد، رحمتِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دُعا سے اِعلانِ نبوت کے چھٹے سال ایمان لائے۔آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایمان لانے پر مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی یہاں تک کہ کفّار و مشرکین یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آج ہماری طاقت گَھٹ کر آدھی رَہ گئی ہے۔(درمنثور،ج4،ص487،پ10،الانفال:تحت الآیۃ:67) مجاہدانہ زندگی: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ تمام غزوات میں مجاہدانہ شان کے ساتھ کفّار سے لڑتے رہے۔ کئی مَعْرِکوں میں سپہ سالار کے فرائض بھی سرانجام دئیے جبکہ وزیر و مشیر کی حیثیت سے تمام اسلامی معاملات اور صُلح و جنگ وغیرہ کی تمام منصوبہ بندیوں میں حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وفادار  رفیقِ کار رہے۔(تاریخ ابن عساکر،ج44،ص54-ج2،ص67، ریاض النضرہ،ج1،ص335ملخصاً) روشن سیرت: آپ رضی اللہ  تعالٰی عنہ زُہد و تقویٰ، عدل و انصاف اور خدا خوفی کے جس مقام پر فائز تھے وہ آپ ہی کا حصّہ ہےسفر ہو یا حَضَر، گھر میں ہوں یا باہر آپ نے اپنی زندگی نہایت سادَگی سے گزاری۔ جہاں آرام کرنا ہوتا تو زمین پر چادر بچھاتے اور اس پر لیٹ جاتے، کبھی درخت پر چادر ڈال کر اس کے سائے میں آرام کرلیتے۔(فیضانِ فاروقِ اعظم،ج1،ص64 ملخصاً) ایک مرتبہ خطبہ دیا تو اس وقت بدن پر موجود چادر میں 12 پیوند لگے ہوئے تھے۔(الزھد لاحمد، ص152) تکبر کو دور کردیا: ایک عظیم سلطنت کے عظیم امیر ہونے کے باوجود عاجزی کا یہ عالَم تھا کہ ایک بار کندھے پر پانی سے بھرا ہوا مَشْکِیزہ اٹھایا ہوا  تھا، کسی نے عرض کی: اے مسلمانوں کے امیر! یہ کام آپ کے لئے مناسب نہیں ہے۔ فرمایا: میرے پاس لوگوں کے وفد دَر وفد آتے ہیں جس کی وجہ سے مجھے اپنے دل میں فخر و بڑائی کی لہر محسوس ہوئی لہٰذا مشکیزہ اٹھا کر اس لہر کو پاش پاش کردینا چاہتا ہوں۔ پھر انصاری صحابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہَا کے گھر کے قریب تشریف لائے اور ان کے برتنوں کو پانی سے بھر دیا۔ (رسالہ قشیریہ، ص 185) خوفِ خدا اور عبادات: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینۂ منوّرہ کے بچّوں سے اپنے لئے دُعا کراتے کہ دُعا کرو عُمَر بخشا جائے۔(فضائل دعا ، ص 112) آپ کی زبانِ اقدس پر اکثر ”اَللہُ اَکْبَر“ جاری رہتا تھا۔(ریاض النضرہ،ج1،ص) آخری عمر میں مسلسل روزے رکھنا شروع کردیئے تھے۔ (ریاض النضرہ،ج1،ص363) زمانۂ خلافت: سن 13 ہجری میں مسندِ خلافت پرجلوہ فرما ہوئے اور دس سال چھ ماہ تک فائز رہے۔ بیٹے پر گِرِفت: یہ رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت اور تربیَت کا گہرا اثر تھا کہ اسلامی احکامات نافذ کرنے اور ان پر عمل کروانے میں کسی قسم کی رعایت نہیں کرتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ بازار میں ایک بہت موٹا اونٹ فروخت  ہوتے دیکھا تو پوچھا: یہ اونٹ کس کا ہے؟ لوگوں نے بتایا: آپ کے بیٹے کا ہے، فوراً بیٹے کو بلوایا اور اونٹ کے موٹا تازہ ہونے کا سبب دریافت کیا، انہوں نے عرض کی: یہ اونٹ سرکاری چراگاہ میں چَرتا ہے اس لئے اتنا فَربہ ہوگیا ہے۔ آپ نے حکم ارشاد فرمایا: اس اونٹ کو بیچ کر اونٹ کی عام رقم اپنے پاس رکھ لو اور باقی رقم سرکاری خزانے میں جمع کروادو۔ (تاریخِ ابن عساکر،ج 44،ص326ملخصاً) اثاثہ جات کی فہرست: کسی شخص کو کسی صوبے پر حاکم مقرّر کرتے تو اس کے تمام مال و اثاثوں کی فہرست لکھوا کر اپنے پاس محفوظ کرلیتے تھے۔ بعد میں جن افسران کے اثاثے زائد ہوتے (اور وہ ان کی کوئی صحیح وجہ بیان نہ کرپاتے) تو ان اثاثوں کو بیتُ المال میں جمع کروانے کا حکم فرما دیتے۔(فتوح البلدان، ص307) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ خود فرماتے تھے: لوگ تب تک راہِ راست پر رہتے ہیں جب تک ان کے راہنما اور سربراہ راہِ راست پر رہتے ہیں۔(طبقات ابنِ سعد،ج 3،ص222) نماز کی اہمیت:آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز کے معاملہ میں کسی دوسری چیز کو اَہمیت نہ دیتے تھے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے تمام صوبوں کے گورنروں کے پاس یہ فرمان بھیجا کہ میرے نزدیک نماز تمہارے سب کاموں میں اہم ہے جس نے نماز کی حفاظت کی اور اس پر ہمیشگی اختیار کی اس نے اپنا دین محفوظ کرلیا اور جس نے اسے ضائع کیا وہ دیگر معاملات کو بھی ضائع کردے گا۔(موطا امام مالک، ج1،ص35،حدیث:6) شہادت: تاریخِ عالَم کے اس عظیم حکمران کی پوری زندگی عزّت و شرافت اور عظمت کے کارناموں کی اعلیٰ مثال تھی، 26ذو الحجۃ الحرام کی صبح ایک مجوسی غلام ابو لؤلؤ فیروز نے آپ پر فجر کی نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا اور شدید زخمی کردیا، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نماز پڑھانے  کا حکم دیا، جب لوگ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اٹھا کر آپ کے گھر میں لائے تو مسلسل خون بہنے کی وجہ سے آپ پر غشی طاری ہوچکی تھی ہوش میں آتے ہی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا اور وضو کرکے نمازِ فجر ادا کی  پھر چند دن شدید زخمی حالت میں گزار کر اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔ حضرتِ صُہَیْب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ آپرضی اللہ تعالٰی عنہ کو یکم محرَّم الحرام 24ہجری روضۂ رسول میں خلیفۂ اوّل  حضرتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔(طبقات ابن سعد، ج3،ص266، 280، 281- تاریخ ابن عساکر،ج 44،ص422، 464) بوقتِ شہادت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عُمْر مبارک 63برس تھی۔آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے روایت کردہ احادیث کی تعداد 537 ہے۔


Share