روشن ستارے

فَنا فِی الرَّسول حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ[1]

* مولانا ابو الحسّان عطاری مدنی

ماہنامہ جنوری2022

ہر کامل مسلمان کے لئے عموماً اور صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  کے لئے خصوصا زندگی کا سب سے بڑا مقصد اور مراد یہ ہے کہ اپنی تمام حرکات و سکنات اور دل و اعضا کے سب اعمال میں اپنے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو مکمل طور پر Follow کریں۔ اس مقصد میں جو جتنا زیادہ کامیاب ہوتا ہے اسے اللہ کے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے اتنی زیادہ مُشابہت (Resemblance) حاصل ہوتی ہے اور اسی قدر وہ اللہ پاک کا قُرب و نزدیکی پانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اللہ پاک کی رضا مندی و خوشنودی سب سے پہلے اپنے محبوب نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی طرف توجہ فرماتی ہے اور پھر ان کے صدقے میں انہیں Follow کرنے والوں کو درجہ بدرجہ نصیب ہوتی ہے۔

آخرت میں نجات کی بنیاد :

 آخرت میں حتمی نجات اور جنّت میں بلندیٔ درجات کا دارو مدار اللہ کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے مُشابہت (Resemblance) پر ہے۔ انسان کی باتیں اور عمل آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اقوال اور اعمال سے جتنے مختلف (Different) ہوں گے وہ اللہ پاک سے اتنا ہی دُور ہوگا اور جس قدر ملتے جُلتے ہوں گے اُسی قدر اللہ پاک کی نزدیک حاصل ہوگی۔ کافروں نے اپنے اقوال و اعمال کو رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے بالکل مُخالف (Opposite) کرلیا اور ہمیشہ کے لئے دوزخ کے حقدار قرار پائے جبکہ صحابہ نے کامل مُشابہت اختیار کی تو ساری امت سے افضل ہوگئے۔

یہ ساری گفتگو ان اقوال و افعال کے بارے میں ہے جن میں کسی کے ساتھ مُشابہت یا مُخالفت انسان کے اختیار میں ہوتی ہے۔ اللہ پاک جس بندے پر اپنا غیر معمولی فضل و کرم فرماتا ہے اسے غیر اختیار ی احوال میں بھی اپنے محبوب نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے رنگ میں رنگ دیتا ہے اوراس کی پسند و ناپسند ، سوچ و فکر اور طبیعت و فطرت کو مصطفےٰ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے دامن سے ایسا وابستہ کردیتا ہے کہ وہ اس شعر کا مِصداق بن جاتا ہے :

فنا اتنا تو ہوجاؤں میں تیری ذاتِ عالی میں

مجھے جو دیکھ لے اُس کو ترا دیدار ہوجائے

اُمّت میں سے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ سب سے زیادہ مُشابہت صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  کو حاصل ہے ، صحابہ میں سے چاروں خلفائے راشدین کو یہ سعادت سب سے زیادہ نصیب ہوئی جبکہ چاروں خلفائے کرام میں سے حضرت سیدنا صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  مُشابہتوں کی تعداد (Quantity) اور قُوّت کے اعتبار سے سب سے آگے ہیں۔ آپ کو اپنے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے جن ذاتی اوصافِ مبارکہ میں مُشابہت عطا ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آئی۔ ایسی کثیر مُشابہتوں میں سے یہاں صرف 4 کا ذکر کیا جاتا ہے :

(1)سوچ و فکر میں ہم رنگی :

 اللہ پاک نے عاشقِ اکبر حضرت صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  کی سوچ و فکر کو افکارِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے ہم رنگ فرمادیا تھا۔ دو آئینے(Mirrors) اگر آمنے سامنے رکھ دئیے جائیں تو جو چیز ایک میں نظر آتی ہے وہی دوسرے میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ قلبِ صدیقِ اکبر گویا قلبِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے لئے آئینے کی طرح تھا ، قلبِ اقدس میں جو بات آتی وہی بات قلبِ صدیق میں آجاتی ، جس رائے کی طرف قلبِ اقدس کا رُجحان ہوتا اسی طرف قلبِ صدیق کا میلان ہوجاتا ، یہ عظمت و فضیلت حضرت صدیق اکبر  رضی اللہُ عنہ  کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  کے ساتھ مصطفےٰ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مختلف مواقع پر مشورے اور دیگر واقعات کی تفصیل پڑھنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ ایک مثال ملاحظہ فرمائیے :

صلح حدیبیہ کے موقع پر جو شرائط طے پائیں ان میں بظاہر مسلمانوں کی کمزوری کا تأثر اُبھرتا تھا ۔ حضرت فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اپنا دلی درد عر ض کیا جس پر اللہ کے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ان کی دلی تسلی کے لئے کچھ کلمات ارشاد فرمائے اور سوالات کے جوابات عنایت فرمائے۔

یہاں سے نکل کر حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  حضرت صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  کے پاس گئے کہ شاید ان کی رائے میری رائے کے مطابق ہواوریہ بارگاہِ رسالت میں عرض کریں۔ جب انہوں نے عاشقِ اکبر کے سامنے اپنے جذبات اور سوالات پیش کئے تو حضرت صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  کی زبان سے ہر سوال کا حرف بحرف وہی جواب نکلا جو سرورِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا تھا۔ [2]

(2)بُتوں اور بُت پرستی سے نفرت :

جُھوٹے خداؤں اور ان کی عبادت سے نفرت اللہ پاک کے ہر نبی کی فطرت میں شامل ہوتی ہے۔ کسی نبی نے اپنے بچپن میں بھی بُتوں کی تعظیم نہ کی جبکہ نبیوں کے سردار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شان تو یہ ہے کہ آپ نے پیدا ہو تے ہی اللہ پاک کو سجدہ کیا اور کُھلے عام توحید کا اعلان فرمایا ۔

حضرت سیدنا صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  نے بھی اس وَصف کا عظیم حصہ پایا اور کبھی بُت کو سجدہ نہ کیا۔ چندبر س کی عمر میں آپ کے والد آپ کو بُت خانے میں لے گئے اورکہا : یہ تمہارے بلند وبالا خدا ہیں ، انہیں سجدہ کر و ، یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ آپ  رضی اللہ عنہ  نے بُت کے سامنے جاکر فرمایا : میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے ، میں  بےلباس ہوں مجھے کپڑادے ، میں پتَّھر مارتا ہوں اگرتُوخدا ہے تو اپنے آپ کو بچالے۔ وہ بُت بَھلا کیا جواب دیتا ، آپ نے ایک پتَّھر مارا تو وہ بُت منہ کے بل گر پڑا۔ [3]

(3)اُمّت پر رَحمت :

 رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تمام مخلوق پر عموماً جبکہ اپنی اُمّت پر خصوصاً مہربان اور رحم دل ہیں۔ اللہ پاک کا فرمان ہے : (وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)) ترجمۂ کنزُ العِرفان : اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کرہی بھیجا۔ [4]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا : (بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸))  ترجمۂ کنزُ العِرفان : مسلمانوں پر بہت مہربان ، رحمت فرمانے والے ہیں۔ [5]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اُمّت میں سے حضرت سیدنا صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  سب سے بڑھ کر اپنے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اُمّت پر مہربان اور رحم کرنے والے ہیں۔ فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : اَرْحَمُ اُمَّتِي ْبِاُمَّتِي اَبُو بَكْرٍ یعنی میری اُمّت میں سے اُمّت کے حال پر سب سے زیادہ مہربان ابوبکر ہیں۔ [6]

(4)فضائل و کمالات کا اجتماع :

اللہ پاک نے تمام فضائل و کمالات کو اپنے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک ذات میں جمع فرمادیا۔ کوئی خوبی اور فضیلت ایسی نہیں جو گزشتہ نبیو ں میں سے کسی نبی کو ملی ہو اور ویسی یا اس سے بڑھ کر خوبی ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو عطا نہ کی گئی ہو۔

عاشقِ اکبر حضرت صدیقِ اکبر  رضی اللہ عنہ  کو اللہ کریم نے خیر و بھلائی کا جامع کردیا تھا۔ فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : خیر و بھلائی کی  360 خصلتیں ہیں۔ جب اللہ پاک کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اُسے اِن میں سے ایک خصلت عطا فرماتا ہے کہ وہ اسے جنّت میں لے جاتی ہے۔ صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  نے عرض کیا : یَا رسولَ اللہ!کیا مجھ میں بھی ان میں سے کوئی خصلت موجود ہے؟ارشاد فرمایا : یہ تمام خصلتیں تم میں موجود ہیں۔ [7]

اللہ کریم فَنا فِی الرّسول حضرت صدّیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  کے صدقے ہمیں بھی اختیاری اور غیر اختیاری اوصاف میں اپنے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مُشابہتیں عطا فرمائے اور ان کے ذریعے ہمیں اپنے قُرب اور نزدیکی کی دولت بخشے۔    اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی


[1] نوٹ : یہ مضمون امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کی کتاب “ مَطْلَعُ الْقَمَرَیْن فِی اِبَانَۃِ سَبْقَۃِ الْعُمَرَیْن “ صفحہ 246 تا 254 سے لیا گیا ہے۔

[2] بخاری ، 2 / 223 ، حدیث : 2731 ، 2732 ، مطلع القمرین ، ص249

[3] ارشاد الساری ، 8 / 370ملخصاً

[4] پ17 ، الانبیاء : 107

[5] پ11 ، التوبۃ : 128

[6] ابن ماجہ ، 1 / 102 ، حدیث : 154

[7] تاریخ  ابن عساکر ، 30 / 103


Share

Articles

Comments


Security Code