شہادتِ عثمانِ غنی اور  صحابہ کے تأثرات

روشن ستارے

شہادتِ عثمانِ غنی اور صحابہ کے تأثرات

*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ جولائی2022

امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی  رضی اللہُ عنہ  کے سنہری دور کے آخر میں فتنہ و فساد کا دروازہ کھلا اور دیکھتے ہی دیکھتے مدینۂ منورہ میں بلوائیوں اور باغیوں نے امیرُالمؤمنین کے گھر کا محاصرہ کر کے پانی بند کردیا یہ محاصرہ 40 یا 49 یا 80 دن تک رہا ، اس دوران حضرت عثمان  رضی اللہُ عنہ چاہتے تو صحابۂ کرام   رضی اللہُ عنہم کو جمع کرتے اور باغیوں کی سرکوبی کرکے انہیں سخت سے سخت سزا دیتے لیکن آپ نے مدینۂ منوّرہ کی پاکیزہ سرزمین پر خون بہانا پسند نہ کیا اور مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئےان باغیوں کوبار بار سمجھاتے رہےمگر فسادی لوگ اپنے فساد سے باز نہ آئے ، سن35 ہجری 18ذوالحجۃ الحرام جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد کچھ لوگ گھر کے پچھلے حصے سے دیوار کود کر اندر داخل ہوئے اور آپ کو نہایت بےدردی سے شہید کردیا ،آپ اس وقت روزے کی حالت میں تلاوتِ قراٰن کررہے تھے۔ [1]

کئی دن تک رہے محصور ان پر بند تھا پانی

شہادت حضرتِ عثمان کی بے شک ہے لاثانی

امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی  رضی اللہُ عنہ کی نہایت مظلومانہ شہادت مسلمانوں کے لئے ایک بڑے سانحہ ، پُردرد المیہ اور عظیم حادثہ سےکم نہیں تھی اس موقع پر صحابۂ کرام شدتِ غم میں ڈوب گئے ۔ ذیل میں اس جاں گداز اور پُرسوز واقعہ پرصحابۂ کرام   رضی اللہُ عنہم کے تأثرات اور کیفیات ملاحظہ کیجئے۔

مولیٰ علی شیرِ خدا:بارگاہ الٰہی میں عرض گزار ہوئے : اے اللہ! میں نہ تو حضرت عثمان کے قتل پر خوش ہوں اور نہ میں نے اس کا حکم دیا ہے۔ [2]

حضرت سعد بن ابی وقاص : آپ نے اس واقعہ کے بعد گوشہ نشینی اختیار کرلی اور اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ لوگوں کے کچھ کچھ معاملات کی ان کو خبر پہنچاتے رہیں ۔[3]

حضرت عبدُالرحمٰن بن عوف : میں اس بات کا اندیشہ بھی نہیں رکھتا تھا کہ خود تو زندہ رہ جاؤں گا اور حضرت عثمانِ غنی شہید ہوجائیں گے۔ [4]

حضرت امام حسن : اللہ حضرت عثمان کے قاتلوں پر لعنت فرمائے۔ [5]

حضرت عبدُاللہ بن سلام : (1)آنسو بہاتے ہوئے فرمایا : آج! اہلِ عرب ہلاک ہوگئے۔[6] (2)لوگوں نے حضرت عثمان کو شہید کرکے اپنے اوپر فتنے کا وہ دروازہ کھول لیا ہے جو روزِ قیامت تک بند نہیں ہوگا۔ [7]

حضرت حذیفہ:(1)مدائن میں آپ نے کسی سے پوچھا : حضرت عثمان کے معاملے کا کیا ہوا؟ جواب ملا : لگ رہا ہے کہ شرپسندوں نے حضرت عثمان کو قتل کردیا ہوگا،آپ نے فرمایا : اگر انہوں نےایسا کیا ہوگا تو حضرت عثمان جنت میں ہوں گے اور شر پسند آگ میں۔[8] (2) اللہ کی قسم! قاتلین حضرت عثمان کو قتل کرکے بدلے میں ان سے بہتر کوئی شخص نہیں پاسکیں گے۔ [9] (3) (اسلام میں) سب سے پہلا فتنہ حضرت عثمان کا قتل ہے اور آخر فتنہ دجال کا نکلنا ہے ، قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! جس کے دل میں قاتلینِ عثمان سے محبت کا ایک ذرہ بھی ہوا اور اس نے دجال کا زمانہ پالیا تو ا س کا پیرو کار بن کر مرے گا اور اگر ایسے شخص نے دجال کو نہیں پایا تو وہ اپنی قبر میں دجال پر ایمان لے آئےگا (یعنی قبر میں دجال کا پیروکار شمار ہوگا)۔ [10]

حضرت ابو موسیٰ اشعری : اگر قتلِ عثمان درست ہوتا تو اہلِ عرب دودھ دوہتے لیکن یہ قتل گمراہی ہے لہٰذااب اہلِ عرب نے خون دوہنا ہے۔ [11]

حضرت ابو ہریرہ : (1)شہادتِ عثمان کے دن آپ کے بالوں کی دو لٹیں نکلی ہوئی تھیں ، آپ ان دونوں کو تھام کر کہنے لگے : میری گردن بھی اڑادو ، اللہ کی قسم! حضرت عثمان کو ناحق قتل کیا گیا ہے۔ [12] (2)جب شہادتِ عثمان کا معاملہ حضرت ابو ہریرہ کے سامنے ذکر کیا جاتا آپ رونے لگ جاتے۔ [13]

حضرت عبدُاللہ بن عباس : (1)آپ نے حضرت عثمان  رضی اللہُ عنہ  کے نائب ہونے کی حیثیت سے اس سال حج کے فرائض سرانجام دئیےتھے ، مکے میں آپ تک یہ کرب ناک خبر پہنچی تو آپ نے کہا : اللہ کی قسم! حضرت عثمان ان لوگوں میں سے ہیں جو عدل و انصاف قائم رکھتے ہیں ، کاش! میں بھی اس دن قتل ہوگیا ہوتا۔ [14] (2)اگر حضرت عثمان کے قتل میں سب لوگ شریک ہوجاتے تو سب کو اس طرح پتھر مارے جاتے جس طرح قومِ لوط پر پتھر برسائے گئے۔ [15]

حضرت عبدُاللہ بن زبیر : قاتلوں نے حضرت عثمان پر اس طرح جھپٹا مارا جیسے بستی کے پچھواڑے سے چوروں نے جھپٹا مارا ہو ، اللہ ان سب کو غارت کرے۔ [16]

حضرت زید بن ثابت : آپ حضرت عثمان کے محصور کئے جانے پر رویا کرتے تھے۔ [17]

حضرت سلمہ بن اَکْوَع : آپ شہادتِ عثمان کے بعد مدینے سے مقام ربذہ چلے گئے پھر مسلسل وہیں رہے،اپنے انتقال سے چند راتوں قبل مدینے آگئے۔ [18]

حضرت ثمامہ بن عدی : آپ کو یمن میں دورانِ خطبہ یہ تکلیف دہ خبر ملی تو بہت روئے ، جب افاقہ ہوا اور حالت سنبھلی تو فرمانے لگے : آج اُمّتِ محمدیہ سے نبوت کی جانشینی چھین لی گئی۔ [19]

حضرت سَمُرہ بن جُنْدُب : بےشک! اسلام ایک مضبوط و محفوظ قلعے میں تھا اور ان بلوائیوں نے حضرت عثمان کو شہید کرکے اسلام میں رخنہ و شگاف ڈال دیا ہے ، لوگ اس شگاف کو قیامت تک بند نہیں کرسکیں گے۔ [20]

نابینا صحابی حضرت ابو اُسید : اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے زمانۂ نبوی میں اَنکھیارا رکھ کر یہ احسان فرمایا کہ میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دیدار کرتا رہا اور اس فتنہ بھرے زمانے میں میری بصارت لے لی۔ [21]

حضرت ابو بکرہ ثقفی : حضرت عثمان کے قتل میں شریک ہونے سے زیادہ مجھےیہ پسند ہے کہ آسمان سے زمین پرپٹخ دیا جاؤں۔ [22]

اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ حبیبہ یا حضرت صفیہ : اللہ اور اس کا رسول ان لوگوں سے بیزار ہیں جنہوں نے اپنے دین میں جدا جدا راہیں نکالیں اور کئی گروہ ہوگئے۔ [23]

حضرت عبدُ اللہ بن عمرو : حضرت عثمان ذُو النورین کو ظالمانہ طور پر قتل کیا گیا ہے اس پر حضرت عثمان کو دو چند اجر دیا گیا ہے۔ [24]

حضرت حسان بن ثابت : شعر : تم نے اللہ کے ولی کو اس کےگھر میں قتل کردیا اور تم ظلم وگمراہی والا معاملہ لے آئے جس قوم نے راہِ راست پر چلنے والے ہدایت یافتہ حضرت عثمان کے قتل پر مدد کی وہ قوم فلاح نہیں پائے گی۔ [25]

حضرت کعب بن مالک : شعر:تم نے دیکھ لیا کہ حضرت عثمان کے بعد بھلائی لوگوں سے کس طرح پیٹھ پھیر کر چل دی گویا کہ تیز رفتار شتر مرغ پیٹھ پھیرکر بھاگے۔ [26]

حضرت ولید بن عقبہ : شعر : کاش! میں اس واقعہ سے پہلے ہلاک ہوجاتا ، میرا جسم بیمار ہے جبکہ دل گھبراہٹ کا شکار ہے۔ [27]

حضرت زینب بنتِ عوام : شعر : تم نے حضرت عثمان کو ان کے گھر میں پیاسا کردیا ، تم خود ایسےسیراب ہوئے جیسے سخت پیاسے اونٹ کھولتا ہوا پانی پی لیں۔ [28]

مختلف صحابہ کرام : (1)حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت سعد اور مدینے میں دیگر حضرات   رضی اللہُ عنہم کو یہ روح فرسا خبر ملی تو ان کے ہوش اُڑ گئے۔ [29] (2)بعض ازواجِ مطہرات نے اس عظیم سانحہ پر فرمایا : بلاؤں نے حملہ کردیا اور اسلام مغلوب ہوگیا۔[30] (3)کئی بدری صحابہ   رضی اللہُ عنہم اس افسوس ناک واقعہ کے بعد اپنے گھروں میں بیٹھ گئے پھر ان کی وفات کے بعد ہی انہیں باہر لایا گیا۔[31]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ ، کراچی

 



[1] معرفۃ الصحابہ،1/85،معجم کبیر، 1/77، اسد الغابہ، 3/615، المنتظم، 5/34

[2] تاریخ ابن عساکر، 39/369

[3] معجم مااستعجم، ص 1093

[4] مصنف ابن ابی شیبہ، 21/348

[5] ریاض النضرہ، 2/80

[6] ایضاً، 21/308

[7] ریاض النضرہ،2/81

[8] ایضاً، 2/80

[9] تاریخ المدینہ، ص1249

[10] ریاض النضرہ، 2/80

[11] تاریخ ابن عساکر، 39/480

[12] تاریخ المدینہ، ص1246

[13] طبقات ابن سعد، 3/59

[14] تاریخ ابن عساکر، 39/219

[15] ریاض النضرہ، 2/81

[16] زاد المسیر، 8/121

[17] طبقات ابن سعد، 3/59

[18] بخاری، 4/439، حدیث: 7087

[19] معجم کبیر، 2/90، طبقات ابن سعد،3/59

[20] تاریخ ابن عساکر، 39/483 ملخصاً

[21] ایضاً، 39/482ملخصاً

[22] ایضاً، 39/483

[23] تاریخ المدینہ،ص1314

[24] معجم کبیر، 1/89 ملتقطاً

[25] الاستیعاب، 3/163

[26] تاریخ ابن عساکر، 39/537

[27] ایضاً، 63/249

[28] الاستیعاب، 3/162

[29] تاریخ ابن عساکر، 39/419

[30] ایضاً، 39/528

[31] البدایۃ والنہایہ، 5/351


Share

Articles

Comments


Security Code