حضرت ثوبان بن بجدد رضی اللہُ عنہ

روشن ستارے

حضرت ثَوبان بن بُجْدُد رضیَ اللہ عنہ

* مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون2022ء

ایک مرتبہ نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اہلِ بیت کیلئے دعا فرمائی اور دعا میں حضرت سیِّدُناعلی المرتضیٰ و حضرت سیِّدَتُنا فاطمۃُالزہراء اور دیگر اہلِ بیت  رضی اللہُ عنہم  کا ذکر کیا۔ ایک صحابیِ رسول حضرت سیدنا ثَوبان بن بُجْدُد  رضی اللہُ عنہ  نے عرض کی : یَارسولَ اللہ! میں بھی تو اہلِ بیت میں سے ہوں؟ ارشاد فرمایا : ہاں! جب تک تم کسی سردار کے دروازے پر یا کسی امیر سے سوال کرنے نہ جاؤ۔ [1] حضرت سیدنا ثوبان بن بُجْدُد  رضی اللہُ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ ہےجبکہ تعلق مکہ اور یمن کے درمیان سَرَاۃ نامی جگہ سے تھا ، آپ قیدی تھے[2] پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو خرید کر آزاد کیا اور اختیار دیتے ہوئے فرمایا : اگر تم چاہو تو ان لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ جن سے تمہارا تعلق ہے اور اگر تم چاہو تو ہمارے اہلِ بیت میں سے ہوجاؤ ، آپ نے رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے قرب و تعلق کو ترجیح دی اور ساری زندگی سفر و حضر میں پیارے رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ ساتھ رہے۔ [3]

مناقب حضرت ثوبان کا لقب مولیٰ رسول اللہ یعنی “ رسول اللہ کا خادم “ ہے۔ آپ ان 8 خوش نصیب صحابہ میں بھی شامل ہیں جنہیں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مؤذن کہا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ آپ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور فجر کی اذان دینے کی اجازت طلب کی ، ارشاد فرمایا : تم اذان مت دو یہاں تک کہ صبح ہوجائے ، پھر جب تیسری مرتبہ حاضر ہوکر اجازت طلب کی تو رحمتِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو فجر کا وقت شروع ہونے کی پہچان سکھائی۔ [4]

عادات و معمولات آپ قناعت پسند ، نیک و پارسا اور خوش طبع تھے آپ نے پیارے مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے زیرِ کفالت زندگی بسرکی۔ [5] خاندانِ نبوت کے نَفقہ کےانتظامی معاملات کی دیکھ بھال آپ کے سپرد تھی[6] آپ فرماتے ہیں : نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حجۃُ الوَدَاع کے موقع پر اپنی قربانی کاجانور ذبح کیا اور مجھ سے فرمایا : ثوبان! اس گوشت کو سنبھال کر رکھو ، میں نے اسے سنبھال کر رکھ لیا ، میں مدینۂ منورہ واپس پہنچ جانے تک رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو برابر اس گوشت میں سے کھلاتا رہا۔ [7] ایک موقع پر نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے آپ سے ارشاد فرمایا : اے ثوبان! فاطمہ کیلئے ایک عَصَب[8] کا ہار اور عاج (ہاتھی دانت) کے دو کنگن خرید لاؤ۔ [9]

جنّت ملے گی ایک بار پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میری بیعت کون کرے گا؟ آپ نے عرض کی : یارسولَ اللہ! کیا ہم ایک مرتبہ پہلے آپ کی بیعت نہیں کرچکے ، اب کس بات پر بیعت کریں؟ ارشاد فرمایا : اس بات کی کہ کسی سے کچھ نہ مانگو گے۔ آپ نے عرض کی : اس پر کیا ملے گا؟ فرمایا : جنّت۔ یہ سن کر آپ نے بیعت کرلی۔ [10] اس کے بعدآپ کی یہ حالت ہوگئی کہ اگر گھوڑے پر سوار ہوتے اور کوڑا(Whip) نیچے گر جاتا تو کسی سے نہ مانگتے بلکہ خود گھوڑے سے اُترکر اسے اٹھاتے۔ [11]

دنیا کی کون سی چیزکفایت کرےگی؟ ایک مرتبہ آپ نے بارگاہِ رسالت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  میں عرض کی : یارسولَ اللہ! مجھے دنیا کی کیا چیز کافی ہے؟ ارشاد فرمایا : جو تمہاری بھوک کو ختم کردے اور سِتْر کو چھپادے اور اگر تمہارے پاس ایک گھر ہو جو تمہیں سایہ دے تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر سواری کےلئے جانور ہو تویہ بہت اچھا ہے۔ [12]

ادبِ رسول آپ ایک بار پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پاس کھڑے تھےکہ ایک یہودی آیا ، اس نے آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو نام لے کر پکارا تو حضرت ثوبان نے اسے زور سے دھکا دیا ، وہ کہنے لگا : تم نے مجھے دھکا کیوں دیا؟ آپ نے فرمایا : تم نے یارسولَ اللہ کیوں نہیں کہا۔ [13]

محبتِ رسول آپ رحمتِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے شدید محبت کرتے تھے اور یادِ رسول میں بےقرار رہا کرتے تھے ایک دن بارگاہِ رسالت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  میں حاضر ہوئے توآپ کا رنگ پھیکا پڑا ہوا تھا جسم کمزور لگ رہا تھا اور رَنج و مَلال چہرے پر ظاہر تھا۔ سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے پریشانی کا سبب پوچھا تو عرض کی : مجھے دَرد ہے نہ بیماری مگر جس وقت آپ کی زیارت نہیں ہو پاتی تو بےتاب ہوجاتا ہوں اور شدید گھبراہٹ محسوس کرتا ہوں یہاں تک کہ آپ کی زیارت سے دل تسکین پاجاتا ہے ، پھر آخرت کی یاد آتی ہے تو یہ اندیشہ گھیر لیتا ہے وہاں آپ کی زیارت نہ کرسکوں گا ، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ انبیائے کرام کے ساتھ بلند وارفع درجات میں ہوں گے ، میں (رَبّ کی رحمت سے) اگرچہ جنّت میں داخل ہو بھی جاؤں گا تو پھر بھی آپ کے مقام و مرتبہ سے نچلے درجہ میں ہوں گا اور اگر جنّت میں داخلے کی اجازت نہ مل سکی تو پھر کبھی بھی آپ کی زیارت نہ کرسکوں گا۔ اس پر قراٰنِ کریم کی آیت نازِل ہوئی ، ترجَمۂ کنزُ الایمان : اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں [14]

شام میں آمد نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ظاہری وفات کے بعد حضرت ثوبان  رضی اللہُ عنہ  شام کے شہر رَمْلَہ چلے آئے پھر وہاں سے حِمْص تشریف لے آئے[15] اور ایک عام مجاہد کی حیثیت سے جنگوں میں حصہ لیتے رہے ، [16] حِمْص میں آپ نے ایک مہمان خانہ بھی تیار کروایا تھا۔ [17]

پند و نصائح آپ لوگوں کو نصیحت بھی کیا کرتے تھےچنانچہ آپ نے ایک مرتبہ کسی سے فرمایا : اگر تمہارے پاس بکری ہو اور اس کا دودھ بچ جائے تو اس بچے ہوئے دودھ کو بھی تقسیم کر دو۔ [18] آپ فرمایا کرتے تھے : اپنی تلواروں کو تیز کرکے رکھو ، پوچھا گیا : ایسا کیوں کریں؟ تو ارشاد فرمایا : تمہارا رعب و دبدبہ تمہارے دشمنوں کے دِلوں سے نکل چکا ہے اور تمہارے دِلوں میں سستی و کمزوری آچکی ہے ، لوگوں نے پھر پوچھا : یہ کس وجہ سے ہوا ہے؟ تو ارشاد فرمایا : اس وجہ سے کہ تم نے دنیا سے محبت کی اور موت کو ناپسند رکھا ، خوش خبری ہے اس کے لئے جس نے اپنی زبان کو محفوظ رکھا اور گھر میں بیٹھا رہا اور اپنی غلطی پر رویا۔ [19]

عیادت پر نیکی کی دعوت آپ  رضی اللہُ عنہ  بیمار ہوئے تو حِمْص کے گورنر عیادت کے لئے نہ آئے آپ نے خط لکھوایا : اگر حضرت سیدنا موسیٰ وعیسیٰ  علیہما السَّلام کے کوئی خادم تمہارے پاس ہوتے تو تم ضرور ان کی عیادت کرتے ، گورنر نے جونہی خط پڑھا تو گھبراگئے اور عیادت کے لئےحاضر ہوگئے۔ جب جانے لگے تو آپ نے انہیں بٹھایا اور ایک حدیثِ مبارکہ سنائی۔ [20]

وفات آپ نے سن 45 یا 54 ہجری میں وفات پائی[21] قبر مبارک رملہ سے 6 میل دور عَمَوَاس میں ہے یا دِمَشق کے قبرستان بابِ صغیر میں ہے۔ [22] آپ سے روایات لینے والوں میں ابو ادریس خولانی اور مَعْدَان بن ابو طلحہ جیسے اکابر تابعین کا نام ملتا ہے۔ [23] آپ سے روایت کردہ احادیثِ مبارکہ کی تعداد 127 ہے جن میں سے 10 احادیث صحیح مسلم کے صفحات کی زینت ہیں۔ [24]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی

 



[1] معجم اوسط ، 2 / 85 ، حدیث : 2607

[2] الاستیعاب ، 1 / 290

[3] اسد الغابہ ، 1 / 367

[4] مصنف عبد الرزاق ، 1 / 365 ، حدیث : 1891 ملخصاً ، التراتیب الاداریہ ، 1 / 125

[5] حلیۃ الاولیاء ، 1 / 236

[6] الانساب للسمعانی ، 1 / 516

[7] مسلم ، ص840 ، حدیث : 5110 ، 5112

[8] ایک دریائی جانور کی ہڈی ہے جو کوڑیوں کے مشابہہ ہوتی ہے اسے سکھا کر ہار کے منکے بنائے جاتے ہیں۔ (مراۃ المناجیح ، 6 / 178)

[9] ابو داؤد ، 4 / 118 ، حدیث : 4213

[10] معجم کبیر ، 8 / 206 ، حدیث : 7832

[11] ابن ماجہ ، 2 / 400 ، حدیث : 1837

[12] المعجم الاوسط ، 6 / 445 ، حدیث : 9343

[13] مسلم ، ص142 ، حدیث : 716 مختصراً

[14] تفسیرِ ثعلبی ، پ5 ، النسآء ، تَحت الآیۃ : 69 ، 1 / 341

[15] الاستیعاب ، 1 / 291

[16] انساب للسمعانی ، 1 / 516

[17] سیر السلف الصالحین ، ص 140

[18] حلیۃ الاولیاء ، 1 / 238

[19] الزہد لابی داود ، ص : 317 ، رقم : 378

[20] مسند احمد ، 8 / 331 ، حدیث : 22481

[21] تہذیب الاسماء ، 1 / 148

[22] انساب للسمعانی ، 1 / 516

[23] الاستیعاب ، 1 / 291

[24] تہذیب الاسماء ، 1 / 148۔


Share

Articles

Comments


Security Code