مراکش کے رجال سبعہ (چوتھی اور آخری قسط)

سفرنامہ

مراکش کے رجالِ سبعہ (چوتھی اور آخری قسط)

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری

ماہنامہ ستمبر 2024

مراکش کے سات اولیائے کرام کے قدموں میں حاضری

مراکش شہر میں بالخصوص سات اولیائے کرام مشہور ہیں:

(1)حضرت یوسف بن علی صَنہاجی رحمۃُ اللہِ علیہ (2)قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ (3)حضرت سیدنا ابوالعباس سَبتی قادری رحمۃُ اللہِ علیہ (4)حضرت سیدنا محمد بن سلیمان جُزولی رحمۃُ اللہِ علیہ (5)حضرت سیدنا عبدالعزیز التُبّاع رحمۃُ اللہِ علیہ (6)حضرت سیدنا عبداللہ غزوانی رحمۃُ اللہِ علیہ (7)حضرت سیدناامام سُہیلی رحمۃُ اللہِ علیہ۔

علمائے کرام نے ان کی بارگاہ میں حاضری کی ترتیب بھی لکھی ہے، ہم نے نیت کی تھی کہ اسی ترتیب سے اِن اللہ والوں کے پاس حاضری دیں گے۔

(1)حضرت یوسف بن علی صَنہاجی رحمۃُ اللہِ علیہ

ہم پہلے حضرت سیدنا یوسف بن علی صَنہاجی رحمۃُ اللہِ علیہ کی بارگاہ میں حاضرہوئے مگر مزارشریف کے دروازے بند تھے اس لئے باہر سے ہی سلام اور فاتحہ خوانی کا سلسلہ ہوا۔

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کا پورا نام ابو یعقوب یوسف بن علی صَنہاجی ہے۔آپ کا شمار اولیائے کاملین میں ہوتا ہے۔

ایک ولیِ کامل ہونے کے ساتھ ساتھ آ پ کا شما ر مراکش کے رِجالُ السَّبْع (مشہور و معروف سات بزرگوں) میں ہوتا ہے۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ رجال السبع میں پہلے بزرگ ہیں اور آپ ہی کی درگاہ پر حاضری سے مراکش کی زیارات کی ابتدا ہوتی ہے کیونکہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے یہاں کے لوگوں تک اسلام پہنچایا۔

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کا انتقال رجب 593ھ میں ہوا اور آپ کو اسی غار میں دفن کیا گیا جس میں آپ رہائش پذیر تھے، اس وجہ سے آپ کو دَفِینُ الغار بھی کہا جاتا ہے۔([i])

(2)قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ

 اس کے بعد ہم حضرت سیدناقاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزار شریف کی طرف چل پڑے۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کا مزار شریف تعمیراتی کاموں کی وجہ سے حاضرین کےلئے بند تھا اس لئے یہاں بھی باہر سے ہی فاتحہ اور دعا کا سلسلہ ہوا۔

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کا مکمل نام ابو الفضل عیاض بن موسیٰ بن عیاض مالکی ہے۔یوں تو آپ کی کثیر تصانیف ہیں لیکن آپ کی کتاب ”الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ“ کو عالمگیر شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی، دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے، کثیر شروحات اور تلخیصات لکھی گئیں۔ بعض مقامات پر عاشقانِ رسول اس کتاب کا باقاعدہ درس دیتے ہیں۔ مدنی چینل پر بھی ”درسِ شفاء شریف“ کے نام سے ایک سلسلہ مکمل ہوا جس میں اس کتاب کا درس دیا گیا۔

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ 476ھ میں پیدا ہوئے اور 69 برس کی عمر میں 9جُمادَی الاُخریٰ 544 ھ کو وصال فرمایا۔

شفاء شریف کی برکات: حضرت علّامہ احمد شہابُ الدین خفّاجی رحمۃُ اللہِ علیہ شفاء شریف کی برکات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس کتاب کی یہ برکت دیکھی گئی ہے کہ جس جگہ یہ ہو وہاں کوئی نقصان نہیں ہوتا،جس کشتی میں ہو وہ ڈوبنے سے محفوظ رہتی ہے۔تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ کوئی مریض شفاء شریف پڑھے یا اس کے سامنے پڑھی جائے تو اللہ پاک اسے شفا عطا فرماتا ہے۔ میں نے خود بھی شفا ء شریف کی برکت کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے۔([ii])

(3)حضرت سیدنا ابوالعباس سَبتی قادری رحمۃُ اللہِ علیہ

ہم نے قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزار شریف سے متصل مسجد میں نماز مغرب ادا کی اور پھر تیسرے بزرگ حضرت سیدنا ابوالعباس سَبتی قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ صاحبِ کرامت بزرگوں میں سے ہیں۔ مراکش کے لوگوں سے ہم نے سنا کہ اولاد کے طلبگار ان کے مزار شریف پر حاضری دے کر ان کے وسیلے سے دعا کریں تو اللہ پاک انہیں اولاد کی دولت سے مالامال فرما دیتا ہے۔

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کا پورا نام ابو العباس احمدبن جعفر سَبتی ہے۔ آپ کی ولادت 524ھ میں ہوئی جبکہ3جُمادَی الاُخریٰ 601ھ میں وصال فرمایا۔([iii])

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ حسین و جمیل، خوش لباس، فصیح و بلیغ اور قادرُ الکلام شخصیت کے مالک، بہت حلم اور صبر والے تھے، اگر آپ کو کوئی تکلیف دیتا تو بھی اس کے ساتھ اچھا سلوک ہی کرتے۔ غربا و مساکین اور بیواؤں کے ساتھ شفقت و بھلائی سے پیش آتے۔([iv])

کرامت:ایک مرتبہ حضرت ابوالحسن خبّاز نے آپ کی خدمت میں عرض کیا: حضور! لوگ قحط اور مہنگائی میں مبتلا ہیں؟ آپ نے فرمایا: بارش ان کے بخل کی وجہ سے رکی ہوئی ہے، اگر یہ صدقہ کریں تو بارش ہو جائے گی۔ اپنے زمیندار دوستوں سے کہو صدقہ کریں، جیسے ہی تم صدقہ کرو گے بارش ہوگی۔ ابوالحسن خبّاز بولے:میری بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا، آپ مجھے ایسا حکم دیں جس کا تعلق صرف میری ذات سے ہو۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے انہیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔ ابوالحسن خبّاز کا بیان ہے کہ میں نے حکم کے مطابق صدقہ کیا،پھر اپنی زمینوں کی طرف گیا۔ اس وقت سورج شدید گرمی برسارہا تھا اور دور دور تک بارش کے آثار نہ تھے،یہ دیکھ کر میں بارش سے مایوس ہوگیا اور مجھے لگا کہ میری تمام فصلیں برباد ہوجائیں گی۔ اتنے میں اچانک ایک بادل آیا اور میری زمینوں کو سیراب کر کے چلا گیا، میرا یہ گمان تھا کہ ہر طرف بارش ہو ئی ہے لیکن جب میں اپنی زمینوں سے باہر نکلا تو دیکھا کہ بارش صرف میری زمینوں پر ہی ہوئی تھی۔([v])

(4)حضرت سیدنا محمد بن سلیمان جُزولی رحمۃُ اللہِ علیہ

اس کے بعد ہم حضرت سیدنا محمد بن سلیمان جُزولی رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزارِ فائض الانوار پر حاضر ہوئے۔ یہاں ہم نے دلائلُ الخیرات شریف کا ختم کیا اور پھر اجتماعی دعا کا سلسلہ ہوا، اس کے بعد ہم نے مزار شریف سے متصل مسجد میں نمازِ عشا ادا کی۔

ذکرِ خیر: شیخُ الاسلام حضرت سیّدنا محمد بن سلیمان جُزولی شَاذِلی مَالِکِی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 807ھ میں سُوس شہر کی بَربَر قوم کے قبیلے جَزُولی کے شاخ سَملالہ کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی۔آپ کا سلسلۂ نسب 19 پُشتوں کے بعد حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہُ عنہ سے جا ملتا ہے۔

موت کی یاد: ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن میں حاصل کرنے کے بعد آپ نے شہر ”فاس“ کے ”مَدْرَسَۃُ الصَّفّارین“ میں داخلہ لیا اور یہاں ایک حجرے میں رہائش اختیار فرمائی۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کسی کو اپنے حجرے میں داخل نہ ہونے دیتے تھے، اس پر کچھ لوگوں نے آپ کے والد محترم سے شکایت کی کہ آپ کے بیٹے نے اپنے حجرے میں مال و دولت جمع کر رکھا ہے۔آپ کے والد صاحب تشریف لائے اور حجرے میں داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حجرے کی دیواروں پر جگہ جگہ لکھا تھا ”الموت الموت“۔ اس پرآپ کے والد صاحب نے فرمایا: دیکھو! یہ کس مرتبہ پر ہیں اور ہمارا کیا حال ہے! آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کا یہ حجرہ آج بھی موجود ہے اور لوگ اس کی زیارت کرتے ہیں۔([vi])

اللہ پاک کے نیک بندے موت کو یاد رکھنے کے لئے ایسے انداز اختیار کرتے ہیں۔ شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ اپنی کئی تحریروں کے اوپر اور دیگر کئی مقامات پر ”الموت“ لکھتے ہیں۔

امام جُزولی رحمۃُ اللہِ علیہ نے راہ ِسلوک کی منزلیں طے کرنے کے لئے14سال خلوت نشینی (تنہائی) اختیار کی اور پھر خلقِ خدا کی راہنمائی اور مریدوں کی تربیت کا سلسلہ شروع فرمایا۔ آپ کے مریدین کی تعداد 12ہزار سے زیادہ تھی۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ سے کئی حیرت انگیز واقعات اور کرامات ظاہر ہوئیں۔([vii])

وصال شریف: آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی شہرت اور عوامُ الناس میں بے پناہ مقبولیت سے گھبرا کر آپ کے ایک حاسد نے آپ کو زہر دے دیا۔ 16 ربیعُ الاوّل 870ھ کو نمازِ فجر کے سجدے میں آپ کا وصال ہوا اور اسی دن نمازِ ظہر کے وقت آپ کو سپردِخاک کر دیا گیا۔([viii])

77سال بعد بھی جسم سلامت: انتقال کے ستتر (77) سال کے بعدکسی وجہ سے ”سوس“ سے ”مراکش“ منتقل کرنے کے لئے جب قبرکُشائی کی گئی تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کا جسمِ مبارَک بالکل صحیح و سالِم تھا حتّٰی کہ کفن تک بوسیدہ نہیں ہوا تھا۔ وفات سے پہلے آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے داڑھی مبارک کا خط بنوایا تھا، وہ ایسے ہی تھا جیسے آج ہی بنوایا ہے، یہاں تک کہ کسی نے آپ کے مبارک رخسار پر انگلی رکھ کر دبایا تو اُس جگہ سے خون ہٹ گیا اور جہاں دبایا تھا وہ جگہ سفید سی ہو گئی، یعنی ز ندہ انسانوں کی طرح جسم میں خون رواں دواں تھا۔([ix])

تدفین کے بعد ایک عرصے تک آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی مبارک قبر سے مُشک کی خوشبو آتی رہی۔([x])

دلائلُ الخیرات شریف: اس کتاب کا پورا نام ”دَلَائِلُ الْخَيْرَات وَ شَوَارِقُ الْاَنْوَارِ فِی ذِكْرِ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ الْمُخْتَار“ ہے۔ کتاب لکھنے کا سبب یہ بنا کہ ایک مرتبہ شیخ محمد بن سلیمان جزولى رحمۃُ اللہِ علیہ وضو کے لئے ایک کنویں پر تشریف لے گئے مگر یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے کہ وہاں نہ ڈول ہے، نہ رسی۔ قریب کے بلند مکان سے ایک بچی نے پو چھا: آپ کون ہیں؟ جب آپ نے اپنے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگی: آپ کی بزرگی کے تو ہر طرف چرچے ہیں اور آپ پریشان ہیں کہ کنویں سے پانی کیسے نکالیں! پھر اس بچی نے کنویں میں اپنا لُعاب دَہن (یعنی تھوک) ڈال دیا، پانی جوش مارتا ہوا باہر ابل پڑا۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے وضو کرنے کے بعد اس بچی سے فرمایا:میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم نے یہ مر تبہ کیسے حاصل کیا؟ اس بچی نے جواب دیا: اس ذاتِ اقدس پر کثرت سے دُرود بھیجنے کی بدولت جو جنگل میں چلتے تو وحشی جانور ان کے دامن سے لپٹ جاتے تھے۔ یہ سُن کر آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے قسم کھائی کہ میں دُرود شریف کے بارے میں کتاب ضرور لکھوں گا۔([xi])

اَلحمدُ لِلّٰہ! کئی عاشقانِ رسول پابندی سے دلائلُ الخیرات شریف پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اپنے مریدین وطالبین کو جو شجرہ عطا فرمایا ہے اس کے صفحہ 23پر روزانہ دلائلُ الخیرات کا ایک حِزب پڑھنے کی ترغیب بھی شامل ہے۔ دعوتِ اسلامی کے اسلامک ریسرچ سینٹرالمدینۃُ العلمیہ نے مکتبۃُ المدینہ کے تعاون سے اس کی دو بہترین اشاعتیں کی ہیں۔ پہلی اشاعت عربی میں جبکہ دوسری اشاعت میں اُردو ترجمہ بھی شامل ہے۔

(5)حضرت سیدنا عبدالعزیز التُبّاع رحمۃُ اللہِ علیہ

مراکش شہر کے سات مشہور اولیائے کرام(سَبْعَۃُ الرجال) میں پانچواں نام حضرت سیدنا عبدالعزیز التباع رحمۃُ اللہِ علیہ کا ہے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ! ہم ان کے مزار شریف پر بھی حاضرہوئے۔

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کا شمار بڑے مشائخ،اجل عارفین اور علمائے کاملین میں ہوتا ہے۔آپ سلسلۂ شاذلیہ کے اکابرین میں سے ہیں اور صاحبِ کرامت بزرگ ہیں۔آپ کا وصال6ربیعُ الآخِر 914 ھ میں ہوا، مزارمبارک پر ایک گنبد بنا ہوا ہے جسے سلطان محمد بن عبد اللہ نے بنوایا تھا۔([xii])

(6)حضرت سیدناعبداللہ غزوانی رحمۃُ اللہِ علیہ

حضرت سیدناعبداللہ غزوانی رحمۃُ اللہِ علیہ سَبْعَۃُ الرجال میں سے چھٹے بزرگ ہیں۔ آپ کا پورا نام ابو محمد عبد اللہ بن احمد عُجال غزوانی ہے۔ فاس میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ آپ حضرت سیدنا عبدالعزیز التباع رحمۃُ اللہِ علیہ کے شاگردِ رشید تھے۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہ سلسلۂ شاذلیہ کے جلیلُ القدر بزرگوں میں سے ہیں۔ آپ نے معروف و مشہور کتاب ”کِتَابُ النُّقْطَۃِ الْاَزَلِیَّۃِ فِی سِرِّ الذَّاتِ المُحَمدِیَّہ“ تصنیف فرمائی۔آپ کے ملفوظات نظم و نثر کی صورت میں معروف ہیں۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہ صاحب ِ کرامت بزرگ اور معروف صوفیا اور عارفین میں سے تھے۔ اولیائے کرام کی ایک بڑی جماعت نے آپ کی شاگردی کا شرف حاصل کیا ہے۔

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کا وصال مبارک 935ھ بمطابق 1528ء  میں ہوا، مزارِ پر انوار مراکش میں معروف و مشہور ہے۔([xiii])

اَلحمدُ لِلّٰہ! ہمیں ان کے مزارِ پرانوار پر بھی حاضری نصیب ہوئی۔

(7)حضرت سیدناامام سُہیلی رحمۃُ اللہِ علیہ

 اس کے بعد ہم سَبْعَۃُ الرجال میں سے ساتویں بزرگ حضرت سیدنا امام سُہیلی رحمۃُ اللہِ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوئے۔

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی کنیت ابو القاسم جبکہ نام عبد الرحمٰن بن عبد اللہ سُہیلی اُندلسی مالکی ہے۔اندلس کے شہر مالَقَہ کے قریب سُہیل نامی ایک بستی کی نسبت سے آپ کو سُہَیلی کہا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت508ھ میں مالَقَہ شہر میں ہوئی۔([xiv])

امام سُہیلی مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ علمِ حدیث، فقہ، سیرت،قراءت و تجوید، تراجم و اَنساب، رِجال، لُغت، شاعری اور تاریخ وغیرہ مختلف علوم و فُنون میں مہارت رکھتے تھے۔([xv]) آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے تدریس (دینی علوم کی ٹیچنگ) میں حد درجہ مشغول ہونے کے باوجود تصنیف و تالیف (دینی کتابیں لکھنے) کے میدان کو بھی خالی نہیں چھوڑا۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے ’’الرَّوْضُ الْاُنُفْ‘‘ کے نام سے امام ابن ہِشام رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب ’’السیرۃ النبویۃ‘‘ کی شرح لکھی جو سیرت کی کتابوں میں ایک نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کا وصال 26شعبان شریف 581 ھ بروز جمعرات ہوا۔([xvi])

زیارات کے بعد ہم نے رات کا کھانا کھاکر آرام کیا۔

اگلے دن یعنی 18 دسمبر2022ء بروز اتوار نمازِ فجر کے بعد ہم مراکش شہر سے کاسابلانکا(Casablanca) ایئرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے،یہ سفر دو گھنٹے سے زیادہ کا تھا۔ہماری فلائٹ کا وقت دوپہر 3 بج کر 5 منٹ تھا۔ ایئرپورٹ پر امیگریشن وغیرہ کے معاملات سے فارغ ہوکر ہم نے نمازِ ظہر ادا کی، پہلے ہم تقریباً ساڑھے سات گھنٹے کا ہوائی سفر کرکے دبئی پہنچے، پھر وہاں سے تقریباً پونے دو گھنٹے کی فلائٹ کے ذریعے کراچی واپسی ہوئی۔

اللہ پاک ہمارا یہ سفر اور زیارات قبول فرمائے، مرتے دَم تک دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے منسلک رہتے ہوئے دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([i])السعادۃ الابدیہ، ص 27 تا 28 ملخصاً

([ii])نسیم الریاض،1/14ملتقطاً

([iii])اعلام للزرکلی، 1/107-سبعۃ الرجال مراکش،ص96

([iv])التشوف الی رجال التصوف،ص 452

([v])جامع کرامات الاولیا ء،1/504

([vi])زیارات مراکش،ص19

([vii])جامع کرامات الاولیاء، 1/276 ملخصاً

([viii])نور نور چہرے،ص321

([ix])مطالع المسرات، ص4

([x])مراٰۃ المناجیح،8/274 مفہوماً

([xi])جامع کرامات اولیاء، 1/276

([xii])السعادۃ الابدیہ،ص161 تا 163 ملخصاً-سبعۃ الرجال مراکش،ص116

([xiii])السعادۃ الابدیہ فی التعریف بمشاہیر الحضرۃ المراکشیہ،ص169، 170ملخصاً

([xiv])وفیات الاعیان، 3/144

([xv])السعادۃ الابدیہ،ص181

([xvi])السعادۃ الابدیہ، ص182۔


Share