امیر اہلسنت کی تحریری مصروفیات

سیرتِ امیر اہلِ سنّت

امیر اہلِ سنّت  کی تحریری مصروفیات

*مولانا صفدر علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025

شیْخِ طریقت ، امیرِاہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی    ذاتِ مبارکہ تبلیغ واشاعَتِ دین اور مسلمانوں کی اصلاحِ احوال کے لئے دنیابھر میں معروف ومقبول ہے۔ آپ نے جس طرح عقائد واعمال کی اصلاح کے لئے  دعوتِ اسلامی  کی بنیاد رکھی،اسے پروان چڑھایا اوردنیا کے کونے کونے تک پہنچایایوں ہی کثیرکُتُب ورسائل  تصنیف فرمائے اور اپنے عِلْمِ نافع سے  لاکھوں لاکھ  لوگوں کے ایمان، عقیدے اور اعمال کی اصلاح  وحفاظت کابھرپورسامان فرمایا۔  آپ کے آثارِعلمیہ میں 142 سے زائد کتب ورسائل  ہیں۔

آپ کے جذبۂ تحریر و تصنیف  کو جاننے کے لئے آپ سے ہونے والے چند سوالات اور ان کے جوابات ملاحظہ کیجئے:

لکھنا کہاں سے سیکھا

سوال: آپ نے لکھنا کہاں سے سیکھا ؟ اور سب سے پہلی تحریر کون سی تھی؟

جواب: میں نے فنِ تصنیف کی باقاعدہ کہیں سے تربیت نہیں لی، چونکہ مجھے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ سے محبت تھی اس لئے میں نے 25 صفر المظفر کو ان کے عرس کے موقع پر ایک رسالہ  (Booklet) پیش کرنے کا ارادہ کیااور اس کے لئے پہلے سے ہی تیاری شروع کردی ۔آخر کار  میں نے مختلف کتابوں سے مواد نکال کر ایک ٹوٹی پھوٹی تحریر لکھی  اور اس کا نام ” تذکرۂ احمدرضا بسلسلۂ یوم رضا “   رکھا  ۔([1]) ([1])

سوال:کیا آپ نے اردو تحریر لکھنے کا فن اسکول سے ہی سیکھا تھا؟

جواب: نہیں  ، اس میں اسکول کالج کی تعلیم کام نہیں آتی۔ پہلی بات تو  یہ ہے کہ اسکول کالج میں پڑھائی جانے والی اُردد اور دینی کتابوں کی اردو میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے  پھر بہت سی دینی اصطلاحات ایسی ہیں جو کالج کے پڑھے لکھے کو بھی علما سے پوچھے بغیر سمجھ نہیں آئیں گی۔ رہی بات اردو تحریر کی تو  یہ اللہ پاک کی عطا  اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کا فیضان  ہے۔ ضرورت پڑتی ہے تو لغت بھی دیکھ لیتا ہوں آخر میں جب تفتیش کے لئے مفتی صاحب کی بارگاہ میں کتاب پیش ہوتی ہے تو وہ بھی مفید مشوروں سے نوازتے ہیں اور اس طرح کتاب مکمل ہوجاتی ہے۔([2])

صرف کتابیں پڑھنے سے لکھنا نہیں آتا

سوال:کیا بہت زیادہ کتابیں پڑھنے سے بھی کتاب لکھنے کی صلاحیت آجاتی ہے ؟

جواب:صرف کتابیں پڑھنے سے لکھنا نہیں آتا  بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لکھنے کی مشق بھی ہوتی رہے  تو آخر کار تحریر کا فن آجاتا ہے ۔ پہلی بار جیسا بھی ٹوٹا پھوٹا لکھا جائے لکھے ، پھر آہستہ آہستہ خود ہی ذوق بن جاتا ہے اور قدرتی طور پر صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے نیز اس کے پاس بہت سارے الفاظ کا ذخیرہ جمع ہوجاتا ہے۔ میرے لئے تو یہ چیز بھی مفید رہی کہ   مجھے شاعری سے بھی دلچسپی رہی ہے اور جس کو شاعری سے دلچسپی ہو اس کے پاس الفاظ کا کافی ذخیرہ ہوتا ہے۔([3])

تحریری مصروفیات اور قیدِ تنہائی

سوال: آپ تنہائی میں تحریری کام کرتے ہیں، اس سے آپ کو بوریت نہیں ہوتی ؟

جواب: بوریت تو ٹھیک ٹھاک ہوتی ہے لیکن اصل تحریری کام بھی تنہائی میں ہی ہوتا ہے ۔ اگر آپ ایسی جگہ کام کررہے ہیں کہ کوئی آرہا ہے ، کوئی جارہا ہے ، کوئی بول رہا ہے تو پھر کام میں کوالٹی نہیں آئے گی ۔ البتہ اگر ایک ہی کتاب پر چار پانچ افراد مل کر کام کریں تو پھر دوسروں کی موجودگی میں بھی کام کرنے میں حرج نہیں۔ مثلاً دعوتِ اسلامی کے شعبہ المدینۃ العلمیہ کا کام ہی کتابوں پر کام کرنا ہے تو یہ مل کر بھی تحریری کام کرلیتے ہیں۔([4])

بوریت اور اُداسی پر صبر

سوال:تحریری کام کے دوران ہونے والی بوریت اور اُداسی کو کیسے دور کرتے ہیں ؟

جواب: صبر کرتا ہوں ، کیونکہ جب یہ کام کرنا ہے تو پھر کرنا ہے ۔ میرے لئے تو اب ویسے بھی تنہائی ہی تنہائی ہے  حالانکہ میری زندگی کا بیشتر حصہ عوام کے ساتھ گھل مل کر گزرا ہے،لیکن  اب سیکیورٹی مسائل ہیں ۔([5])

ذہنی تھکاوٹ  اور نیند

سوال: اگر تحریری کام کرتے ہوئے ذہن تھک جائے تو اسے  بحال کرنے کے لئے کیا کرتے ہیں ؟

جواب:  تھکن تو کم ہی محسوس ہوتی ہے لیکن بسا اوقات نیند آنے لگتی ہے اس لئے مجھے نیند پوری لینی پڑتی ہے ۔ اس کے باوجود بعض اوقات نیند آتی ہے  خصوصاً گرمیوں میں شام کے وقت میرا بلڈ پریشر بالکل لو ہوجاتا ہے  اور اتنی نیند آتی ہے کہ میں نڈھال ہوجاتا ہوں ۔ جن دنوں میں ” آدابِ طعام“ کتاب پر کام کررہا تھا تو اس دوران  میں نے اپنی نیند سات سے کم کر کے چھ اور پھر پونے چھ گھنٹے کر دی تھی لیکن اس سے  مجھے کمزوری اور نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے کام میں دشواری ہونے لگی اس لئے  بڑھاتے بڑھاتے دوبارہ سات گھنٹے کردی  ہے۔ اب کبھی سات، کبھی سوا سات  اور کبھی ساڑھے سات گھنٹے تک نیند ہوتی ہے لیکن اوسطاً ہم اسے سات گھنٹے کہہ سکتے ہیں ۔ عموماً دو یا تین قسطوں میں سونے کی عادت ہے ۔ زیادہ تر دو دو گھنٹے کی نیندلیتاہوں ، کبھی ایک گھنٹہ پچاس منٹ اور کبھی دو گھنٹہ بیس منٹ کا بھی معمول رہتاہے، سردیوں اور گرمیوں کے لحاظ سے معمول بدلتا رہتا ہے۔ تحریری کام کرتے ہوئے میں نے آدھے آدھے گھنٹے کی نیند کے بعد بھی کام کیا ہے ۔([6])

تحریری کام بیرونِ ملک کیوں ؟

سوال:  آپ تحریری کام کے سلسلے میں کئی کئی مہینے ملک سے باہر گزارتے ہیں، سفر کی مشقت بھی ہوتی ہے، گھر والوں سے دوری بھی ہوتی ہے تو آپ یہ کام یہاں بیٹھ کر بھی تو کرسکتے ہیں؟

جواب: دراصل یہاں مصروفیات کا انداز بدل جاتاہے۔ میں نے کئی بار کوشش کی کہ یہیں  تحریری کام کروں لیکن ملاقات کے مطالبے، کبھی اجتماعی مشورے،  تو کبھی فلاں آیا ہے اگر اس سے نہیں ملیں گے تو وہ ناراض ہوجائے گا، وہ ایک مریض آیا ہے اگر آپ اس کو ٹائم نہیں دیں گے تو گھر والے بدظن ہوجائیں  گے، لوگ بغیر نوٹس کے ہی آرہے ہوتے ہیں پھر بعض وقت مانگتے ہیں کہ ہمیں وقت دو ۔ کبھی فلاں شخصیت ، کبھی فلاں حضرت تو یہ تمام چیزیں میرے لئے رکاوٹ بن جاتی ہیں اور مجھے اس کام کے لئے یکسوئی نہیں مل پاتی۔([7])

تحریری کاموں کا مقصد

سوال:فیضانِ سنت کے بعد آپ نے کئی کتابیں لکھی ہیں، یہ کتابیں لکھنے اور تحریری کام کرنے کا ذہن کیسے بنا ؟

جواب: یوں سمجھ لیں کہ فیضانِ سنّت لکھنے کے بعد میری لکھنے کی عادت بن گئی، یہ عادت اب تک چل رہی ہے اور اللہ کرے آخری دم تک چلتی رہے  ۔ لکھنے کا ذہن اس لئے بنا کہ جیسے قراٰنِ کریم پہلے سینوں میں تھا،پھر  ایک جنگ میں غالباً سات سو حفاظ صحابہ شہید ہوئے تو قراٰنِ کریم کو جمع کیا گیا اور اب  یہ تحریری صورت میں ہمارے پاس  موجود ہے ۔ اسی طرح احادیث ِ مبارکہ کی تدوین بھی بعد میں ہوئی ، امام بخاری  رحمۃُ اللہِ علیہ  کو ہی لے لیجئے کہ آپ نہ صحابی ہیں نہ تابعی نہ تبع تابعی ، آپ کی کتاب بخاری شریف تیسری صدی ہجری میں لکھی گئی۔ اس طرح  اور بھی کئی کتبِ احادیث لکھی گئیں اگر یہ کتابیں نہ لکھی جاتیں تو ہم کیا کرتے۔ امامِ اعظم ابوحنیفہ  رحمۃُ اللہِ علیہ  کے مذہب کو  آپ کے شاگردِ رشید امام محمد  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے تحریر کیا  اور اسی وجہ سے انہیں محرّرِ مذہب ِ امام اعظم کہا جاتا ہے ، یہ نہ لکھتے تو ہم کیا کرتے ؟ زمانۂ  قریب میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے 30 جلدوں کی صورت میں فتاویٰ رضویہ جیسا علمی شاہکار  اور ترجَمۂ کنز الایمان کے نام سے قراٰنِ کریم کا مستند ترجمہ دیا ۔یہ نہ لکھتے تو ہم کیا کرتے ؟  اسی طرح  بہارِ شریعت کو ہم اردو زبان میں فقہِ اسلامی کا انسائیکلوپیڈیا کہہ سکتے ہیں۔ فقہِ حنفی پر اردو زبان میں اتنی ضخیم کتاب میں نے کسی اور کی نہیں دیکھی ۔ یہ لوگ  کتابیں لکھ کر تشریف لے گئے لیکن  ان کے لئے ثواب کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اسی لئے میری بھی ایک حرص ہے کہ  اللہ کرے مرنے کے بعد یہ کتابیں  میرے لئے ثوابِ جاریہ کا سبب بن جائیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب  لوگ کتابیں لکھنا شروع کردیں ، کتاب لکھنے کے لئے علم ہونا چاہئے۔ میں تو اپنی کتاب علما سے چیک بھی کرواتا ہوں  اور پوری کوشش ہوتی ہے کہ  اس میں کوئی شرعی غلطی نہ رہ جائے لیکن کئی لوگوں کی کتابوں میں شرعی غلطیاں موجود ہوتی ہیں ، لکھنے والے لکھے چلے جارہے ہیں اور خیال نہیں کررہے ۔ ایسے  ہی لوگوں کے بارے میں اعلیٰ حضرت  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے فرمایا کہ قلم پکڑنا آگیا تو مصنف بن بیٹھے۔([8])

اندازِ تحریر اور لکھنے کے مراحل

سوال : آپ کی کوئی بھی کتاب یا رسالہ آنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟  

جواب: تحریری کام کے منظرِ عام پر آنے میں تاخیر کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تحریر کے علاوہ میرے دوسرے کام بھی ہیں ، آپ جانتے ہیں کہ تحریری کام کے لئے گوشہ نشینی چاہئے اور سوشل میڈیا نے  میری گوشہ نشینی کو بھی ختم کردیا ہے۔  نیز میں اپنی تحریر کو مبالغۃً دس بار چیک کرتا ہوں یعنی کئی بار اسے  پڑھتا ہوں ،پھر یہ تحریر المدینۃ العلمیہ اور مفتی صاحب سے چیک ہوتی ہے تو  بعض اوقات المدینۃ العلمیہ یا مفتی صاحب  مجھے اس میں کوئی کام دیتے ہیں تو وہ کام کرنا ہوتا ہے پھر مفتی صاحب کے کئے ہوئے کام پر المدینۃ العلمیہ  والے ایک اورنظرڈالتے ہیں  جو کچھ مفتی صاحب نے فرمایا ہے اس کو کیسے درست کرنا ہے اور کہاں حوالے ڈالنے ہیں وغیرہ۔ اس طرح مختلف مراحل سے گزر نے کے بعد کہیں جاکر یہ کتاب یا رسالہ منظرِ عام پر آتاہے۔ ([9])

زندگی بھر تحریری کام جاری رکھنے کا عزم

سُوال:آپ مختلف موضوعات پر تحریر فرماتے ہیں۔تحریر ی کام کے حوالے سے آپ کا ہدف کیا ہے؟ نیز علم ِدین کے   حصول کے لئے آپ کونسی کتاب پسند فرماتے ہیں؟

جواب: جب تک زندگی ہے تب تک تحریری کام   کرنا ہدف  ہے ۔ ابھی قلم پکڑنے کی طاقت ہے  اور اللہ نے چاہا تو یہ  چلتی رہے گی ۔ اللہ کرے  کہ عقل سلامت رہے اور ایسی نکمی عمر نہ آئے  جس میں آدمی بستر پر پڑا رہتا ہے اور کسی کام کا نہیں ہوتا، اللہ پاک ایسی حالت سے پناہ میں رکھے ۔ لکھنا میری روٹین میں شامل ہے اس لئے کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں۔  علمِ دین کے  حصول کے  لئے کوئی ایک کتاب  نہیں بلکہ بہت ساری کتابیں ہیں ، علمائے  اہلِ سنت  کی  جتنی کتابیں ہیں سب سے استفادہ کرنا چاہئے مثلاً اعلیٰ حضرت  رحمۃُ اللہِ علیہ کا  ترجَمۂ قراٰن کنزالایمان، تفسیر صراط الجنان، اسی طرح علمائے اہلِ سنّت  کی لکھی ہوئی احادیث کی شروحات، مراٰۃ شرح مشکوٰۃ، اس کے ساتھ ساتھ فتاویٰ رضویہ شریف اور بہارِ شریعت بھی پڑھیں کیونکہ ان میں  فقہی مسائل کی بہت معلومات ہیں نیز مکتبۃ المدینہ  کی بھی بہت ساری کتابیں  ہیں  جن کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ شاید زندگی گزر  جائے گی   مگر کتابیں ختم نہ ہوں گی ۔ آپ  سب پڑھ لیں گے  تو مزید نئی چھپ کر  آجائیں گی ۔([10])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ دینی کاموں کی تحریرات المدینۃ العلمیہ فیصل آباد



[1]  یہ رسالہ 25صفر المظفر 1393ھ مطابق31مارچ 1973ء  کو یومِ رضا کے موقع پر پہلی بار شائع ہوا ۔



([1])امیرِ اہلِ سنت کی کہانی انہی کی زبانی ، قسط 2

([2])امیرِ اہلِ سنت کی کہانی انہی کی زبانی ، قسط 8

([3])امیرِ اہلِ سنت کی کہانی انہی کی زبانی ، قسط 8

([4])امیرِ اہلِ سنت کی کہانی انہی کی زبانی ، قسط 8

([5])امیرِ اہلِ سنت کی کہانی انہی کی زبانی ، قسط 8

([6])امیرِ اہلِ سنت کی کہانی انہی کی زبانی ، قسط 8

([7])دلوں کی راحت ، قسط13

([8])دلوں کی راحت ، قسط 23

([9])دلوں کی راحت ، قسط 23

([10])سلسلہ : دلوں کی راحت ، قسط 22


Share