سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی(قسط : 15)

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اعزاز و اکرام

* مولانا ابوالحسن عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2022ء

گزشتہ سے پیوستہ

 (25)اَنَا اَكْرَمُ الْاَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ عَلَى الله وَ لَا فَخْرَ ترجمہ : میں ہی اگلوں اور پچھلوں میں سے سب سے زیادہ اللہ پاک کے ہاں عزّت والا ہوں اور فخر نہیں ہے۔ [1]

(26)اَنَا اَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلٰى رَبِّي وَلَا فَخْرَ ترجمہ : میں ہی ساری اولاد ِآدم میں سے اپنے رب کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا ہوں اور فخر نہیں کرتا۔ [2]

(27)اَنَا اَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَى رَبِّي ، يَطُوفُ عَلَيَّ اَلْفُ خَادِمٍ كَاَنَّهُمْ بَيْضٌ مَكْنُونٌ ، أَوْ لُؤْلُؤٌ مَنْثُورٌ ترجمہ : میں ہی ساری اولادِ آدم میں سے اپنے رب کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا ہوں میرے اِرد گِرد ایک ہزار خُدّام (خدمت کے لئے)گھومیں گے گویا کہ وہ چھپاکر رکھے ہوئے انڈے ہیں یا بکھرے ہوئے موتی۔ [3]

مذکورہ تین روایات اللہ کریم کی بارگاہ میں رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اعزاز و اکرام کو بیان کرتی ہیں ، رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اللہ ربّ العزّت کی بارگاہ میں نہ صرف معزّز بلکہ ساری اولادِ آدم یعنی ہر ہر انسان سے بڑھ کر معزّز ہیں ، نہ صرف ہر ہر انسان بلکہ تمام اوّلین و آخرین سے بڑھ کر معزّز ہیں ، لیکن قربان جائیے شانِ بےنیازی پر کہ ساری کائنات کے رب کے ہاں ساری مخلوقات سے بڑھ کر معزّز ہونے کے باوجود کمال عاجزی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ “ وَلَا فَخر “ یعنی  اس پر فخر نہیں کرتا۔

کسی کے نزدیک جب کوئی فرد معزّز ہوتا ہے تو یقیناً وہ اس کے ساتھ احسان و بھلائی کا معاملہ کرتا اور  اسے عزت و اختیارات دیتا ہے ، اس کی عزّت  و حرمت کی حفاظت کرتا ہے۔   ربّ کریم کی بارگاہ میں جو مقام و مرتبہ ، عزت و عظمت اور اعزاز و اکرام محمد عربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ہے اس کا   اندازہ لگانا   ہمارے بس میں نہیں ،  البتہ قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ رَبُّ العزّت نے کس کس طرح اپنے حبیب  کو عالمِ ارواح ، عالم ، دنیا ، عالمِ برزخ ،  قیامِ قیامت ، میدانِ حشر ، پل صراط ، دخول جنت اور پھر جنت کے اندر بھی اعزاز و اکرام سے نوازا ہے۔ آئیے ان اعزازات کی چند  جھلکیاں ہم ملاحظہ کرتے ہیں ،

عالمِ ارواح میں اعزاز و اکرام

ابھی دنیا میں جلوہ گری بھی نہ ہوئی تھی کہ حبیبِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک روح کے سامنےسب روحوں سے عہد و پیمان لیا اور سب انبیاء و مرسلین کو پابند فرمایا کہ  اگر یہ محبوب تمہارے درمیان آئیں تو انہی پر ایمان لانا ہوگا ، انہی کی اطاعت ہوگی ، انہی کا حکم چلے گا ، انہی کی دعوت پر لبیک کہا جائے گا چنانچہ قراٰنِ کریم میں ہے : (وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(۸۱))   ترجمۂ کنزُالایمان : اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول  کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے  تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایاتو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔ [4]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

عالمِ دنیا میں اعزاز و اکرام

ساری انسانیت کو اپنا کردار ، گفتار ، انداز ، رہن سہن سنوارنے اور زندگی کا ہر ہر قدم اٹھانے کیلئے اپنے حبیب کی زندگانی کو نمونہ قرار دیا اور “ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ[5]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  کے ذریعے واضح فرمادیا کہ زندگی کا بہترین راستہ اور طریقہ وہی ہے جو اس کے پیارے حبیب کاہے۔

بندوں کو واضح فرمادیا کہ اللہ سے محبت کرتے ہو تو حبیبِ اکرم کی اتباع ہی واحد راستہ ہے اور جب اس راہ پر چلو گے تو رَبُّ العزّت خود تم سے محبت فرمائے گا۔ [6]

محبوب کی اطاعت کو اپنی اطاعت فرمایا۔ [7]محبوب کا فعل اپنی جانب منسوب فرمایا۔ [8] محبوب کی خواہش پر قبلہ تبدیل کردیا۔ [9] محبوب کے فیصلوں پر سرتسلیم خم کرنا ایمان کی بنیاد قرار دیا۔ [10]  آپ کے وجودِ مَسعود کے دنیا میں موجود ہونے کے سبب عذاب کو روک دیا۔ [11]

ان كے علاوہ بھی اَن گنت اعزازات ہیں کہ  جن کی حد و شمار سمجھنے کے لئے علامہ یافعی کا یہ فرمان ہی کافی ہے :  رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اوصاف و مناقب اس قدر ہیں کہ اگر ساری مخلوق جمع ہو کر انہیں شمار کرے تو  وہ جو شمار کریں گے وہ  ان کے  اوصاف کے سمندر کا ایک قطرہ ہوگا۔ [12]

عالمِ دنیا میں جان و عزّت کی حفاظت کا اعزاز

ربِّ کریم کی بارگاہ  میں اس کے پیارے حبیب کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ   رب کریم نے ان کی عزّت کی حفاظت فرمائی ، محبوب کی عزّت و ناموس پر کوئی حرف نہ آئے اس کا اہتمام فرمایا۔

ایک لفظ کہ محبین محبت میں بولیں لیکن مخالفین ناقص معنیٰ نکالیں ، ربُّ العزّت کو اپنے حبیب کے اعزاز کے سبب یہ پسند نہ آیا اور محبین کو ایسا ذُومعنیٰ لفظ بولنے ہی سے منع فرمادیا۔ [13]

ہوا کچھ یوں کہ  جب پیارے مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تعلیم و تلقین فرماتے تو  صحابۂ کرام کبھی کبھی  کسی بات کی مزید توضیح کے لئے ’’رَاعِنَا یَارسولَ اللہ‘‘ کہتے ، یعنی یارسولَ اللہ! ہماری رعایت فرمائیے ، یہودیوں نے اس لفظ کو بگاڑ کر “ راعینا “ کہنا شروع کردیا اور وہ حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کیلئے بےادبی والا معنیٰ مراد لیتے۔ اللہ کریم نے  اہلِ ایمان کو “ راعنا “ کہنے ہی سے منع فرمادیا تاکہ غلط معنیٰ  لینے کی بنیاد ہی باقی نہ رہے۔ [14]

اپنے حبیب کو نام ہی ایسا دیا کہ کوئی نام لے کر مذمت کر ہی نہ سکے اور اگر کوئی کرے تو خود کو ہی جھوٹا بنائے۔    اہلِ قریش  بغض و عناد کے سبب اس قدر حد سے بڑھ گئے تھے کہ جہاں موقع پاتے رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مذمت کی ناکام کوشش کرتے ، لیکن برائی کرنے میں آپ کا اسمِ گرامی محمد ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) نہ بولتے کیونکہ ان ہی میں سے کسی نے کہا تھا کہ ہم انہیں محمد( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  یعنی تعریف کیا گیا) بھی کہتے ہیں اور مذمت بھی کرتے ہیں ، آئندہ سے ہم مُذَمّم کہہ کر مذمت کریں گے۔ بخاری شریف میں ہے کہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : كيا تم اس پر تعجب نہیں کرتے کہ  اللہ نے کس طرح مجھ سے قریش کی گالیوں ، ان کے لعن کو پھیر دیا وہ تو مذمم کو گالیاں دیتے ہیں اور مذمم پر لعن طعن کرتے ہیں ہم تو محمد ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) ہیں۔ [15]

(بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] سنندارمی ، 1 / 39 ، حدیث : 47

[2] ترمذی ، 5 / 352 ، حدیث : 3630

[3] سنن دارمی ، 1 / 39 ، حدیث : 48

[4] پ3اٰل عمرٰن : 81ملخصاً

[5] پ21 ، الاحزاب : 21

[6] پ3 ، اٰل عمرٰن : 31

[7] پ5 ، النسآء : 80

[8] پ9 ، الانفال : 17

[9] پ2 ، البقرۃ : 144

[10] پ5 ، النسآء : 65

[11] پ9 ، الانفال : 33

[12] مراۃ الجنان ، 1 / 21

[13] پ1 ، البقرۃ : 104

[14] بیضاوی ، پ1 ، البقرۃ ، تحت الآیۃ : 104 ، 1 / 375ملخصاً

[15] بخاری ، 2 / 484 ، حدیث : 3533۔


Share

Articles

Comments


Security Code