قیامُ اللیل

تفسیر قراٰنِ کریم

قِیامُ اللَّیل

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ مارچ2023

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ( وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ( ۶۴ )  وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ﳓ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ ( ۶۵ ) ) ترجمۂ کنزالعرفان : اور وہ جو اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں اور وہ جو عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے ، بیشک اس کا عذاب گلے کا پھندا ہے۔ ( پ19 ، الفرقان : 64 ، 65 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : ان آیات میں صالحین کے حسنِ عمل ، ذوقِ عبادت ، لذتِ عبدیت ، کثرتِ خوف اور شدتِ خشیت کا بیان ہے کہ بندگانِ رحمٰن کی راتیں سجدوں سے آباد اور دعا و مناجات سے آراستہ ہوتی ہیں اور قیام و سجود میں رات بسر کرنے کے باوجود آخری پہر اپنی بخشش کے لئے بارگاہِ بے نیاز میں دستِ نیاز دراز کرتے ہیں۔

نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں

خرد کھوئی گئی ہے ، چار سو میں

نہ چھوڑ اے دل ! فغانِ صبح گاہی

اماں شاید ملے اللہ ہُو میں

رات کی عبادت کے فوائد :

رات کی نفلی عبادت دن کے مقابلے میں زیادہ فوائد کی حامل ہے ، پہلا فائدہ یہ ہے کہ رات کے پرسکون لمحات میں عبادت کرنا ، دن کے مقابلے میں زبان ودل کی زیادہ موافقت کا سبب ہے کہ زبان جو کچھ پڑھتی ہے ، دل بھی اُس طرف پوری طرح متوجہ ہوتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس وقت قرآن پاک کی تلاوت کی تاثیر دل میں جلداترتی اورقلب روشن کرتی ہے ، کیونکہ اُس وقت ایک خاص سکوت اور سکینہ کی کیفیت ہوتی ہے۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اُس وقت کی عبادت میں اعلیٰ درجے کا اِخلاص ہوتا ہے اور ریا کاری سے حفاظت رہتی ہے ، کیونکہ آخری پہر عموماً کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا۔چوتھا فائدہ یہ ہے کہ رات کی عبادت میں جو لذّت وحَلاوت ہے وہ کسی دوسرے عمل میں نہیں ، کیونکہ بندہ اَحْکم الحاکمین ، ربُّ العالَمِین ، محبوب حقیقی کی بارگاہ میں تنہا حاضر ہوکر مناجات کا شرف حاصل کرتا ہے۔ اِس حَلاوت کا مزہ اُن سے پوچھیں جو رات کی تنہائیوں میں عبادت کرتے ہیں ، جن کے دل کُدُوْرَتوں سے پاک اور جلوۂ محبوب کے طلبگارہیں۔ایسے ہی ایک بزرگ فرماتے ہیں : ”چالیس سال سے مجھے طلوعِ صبح کے علاوہ کسی شے نے غمگین نہ کیا“ یا کسی نے فرمایا : ”جب سورج غروب ہوتا ہے ، تو مجھے اندھیرے میں خالِق کی خَلْوَت کی وجہ سے خوشی ہوتی ہے اور جب صبح آتی ہے تو مخلوق کے آنے کی وجہ سے غمگین ہوتا ہوں“ یا فرمایا : ”اگر رات نہ ہوتی تو میں دنیا میں ٹھہرنا پسند نہ کرتا“ یا فرمایا : ”رات میں دل کو جو مناجات کی لذت ملتی ہے ، اس کے سوا دنیا میں کوئی وقت ایسا نہیں ، جو جنتی انعامات سے مشابہت رکھتا ہو۔“ بلکہ بعض نے تو فرمایا کہ ”مناجات کی لذّت دنیاوی نہیں ، بلکہ جنتی نعمتوں میں سے ہے ، جسے اللہ  عزوجل  صرف اپنے اولیائے کرام رحمہم اللہ السّلام کے لیے ظاہر فرماتا ہے ، اُن کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہوتی۔“

جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے

مرا عشق ، میری نظر بخش دے

مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں

مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں

مرے نالۂ نیم شب کا نیاز

مری خلوت و انجمن کا گداز

رات کی عبادت کے فضائل :

قرآن مجید نے شب بیداری اور قیام اللیل کی فضیلت بہت ایمان افروز انداز میں بیان فرمائی ہے ، چنانچہ ایک جگہ فرمایا :  ( تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘- ) ترجمہ : اُن کی کروٹیں ان کی خوابگاہوں سے جدا رہتی ہیں اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ ( پ21 ، السجدۃ : 16 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  دوسری جگہ رات کے عبادت گزاروں اور آخرِ شب میں بخشش کے طلب گاروں کو جنت کی بشارت یوں عطا فرمائی گئی ہے : ( اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ ( ۱۵ ) اٰخِذِیْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِیْنَؕ ( ۱۶ ) كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ ( ۱۷ ) وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ( ۱۸ )  ) ترجمہ : بیشک پرہیزگار لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ اپنے رب کی عطائیں لیتے ہوئے ، بیشک وہ اس سے پہلے نیکیاں کرنے والے تھے۔ وہ رات میں کم سویا کرتے تھے۔ اور رات کے آخری پہروں میں بخشش مانگتے تھے۔ ( پ26 ، الذّٰریٰت : 15تا18 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

رات کی عبادت ہمیشہ سے صالحین کا شیوہ رہی ہے ، جیسا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم رات کا قیام ضرور کیا کرو ، اِس لئے کہ تم سے پہلے صالح لوگوں کی یہی عادت تھی ، نیز تمہارے رب کے قُرب کا باعث ، گناہوں ومَعاصی کوختم کرنے والا اور گناہوں سے منع کرنے والا ہے۔ ( ترمذی ، 5/323 ، حدیث : 3560 ) اور فرمایا : رات کو نماز پڑھو ، اس حال میں کہ لوگ سو رہے ہوں  ( اس کے بدلے )  تم سلامتی کے ساتھ جنت میں چلے جاؤ گے۔ ( ابن ماجہ ، 2/127 ، حدیث : 1334 ) نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : یقیناً جنت میں کچھ ایسے بالاخانے بھی ہيں ، جن کے اَندر سے اُن کا باہر والا حصہ دیکھا جاسکتا ہے اور اُن کے باہر سے اندر والا حصہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک اَعرابی  ( دیہاتی )  نے کھڑے ہوکرپوچھا : اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! یہ بالا خانے کس کے لئے ہیں ؟ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس نے اچھا کلام کیا ، کھانا کھلایا ، روزوں پر ہمیشگی اختیار کی اور رات کو نماز ادا کی ، کہ جب لوگ سو رہے ہوں۔ ( ترمذی ، 3/396 ، حدیث : 1991 )  ایک اور مقام پر نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : فرضوں کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے۔ ( مسلم ، ص456 ، حدیث : 2755 )  لہٰذا شب کے آخری لمحات میں کچھ نہ کچھ نفلی عبادت کی عادت ضرور بنانی چاہئے ، اِس سے کاملین کے اوصاف پیدا ہوتے اور آخرت کے لئے نیکیوں کا ذخیرہ جمع ہوتا ہے۔ زیادہ نہیں تو کم از کم دورکعت ہی عشاء کے بعد یا فجر کا وقت شروع ہونے سے چند منٹ پہلے بیدار ہوکر پڑھ لیں کہ اِس سے بھی ”قیام اللیل“ کی فضیلت کا کچھ حصہ حاصل ہوجائے گا۔

عطار ہو رومی رازی ہو غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی

سَلَف صالحین کا شوق ِ عبادت :

صحابۂ کرام ، تابعین عظام اور بزرگانِ دین اپنی راتیں عبادت میں گزارتے تھے۔ اُن کی شب بیداری کے تابناک واقعات کتابوں میں موجود ہیں۔ مثلاً حضرت حفصہ بنتِ سیرین   رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہا  انتہائی عبادت گزار خاتون تھیں ، ساری رات نماز پڑھتے گزار دیتیں اور نماز میں آدھا قرآن پاک تلاوت فرماتیں۔ یونہی مشہور عابدہ ، زاہدہ حضرت رابعہ بصریہ   رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہا  کی اپنی وفات تک یہ عادت رہی کہ آپ ساری رات نماز پڑھتی رہتیں اور جب فجر کا وقت قریب ہوتا تو تھوڑی دیر کے لئے سو جاتیں پھر بیدار ہو کر فرماتیں : اے نفس ! تم کتنا سو گے اور کتنا جاگو گے ! عنقریب تم ایسی نیند سو جاؤ گے کہ اس کے بعد قیامت کی صبح کو ہی بیدار ہو گے۔ ( تفسیر روح البیان ، 6/242 ، پ19 ، الفرقان : 64 )

گراں بہا ہے ترا گریۂ سحر گاہی

اسی سے ہے تیرے نخلِ کہن کی شادابی

شب بیداروں کی دعا :

بندگانِ رحمٰن کی شب بیداری اور سجود وقیام کا ذکر فرمانے کے بعد فرمایا کہ وہ یوں دعاکرتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے جو گلے کا پھندا اور کافروں سے جدا نہ ہونے والا ہے۔

دعائے عابدین کاسبق :

امام نسفی رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : اُن کی اِس دعا سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ وہ کثرتِ عبادت کے باوجود اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں عاجزی ، اِنکساری اور گِریہ و زَاری کرتے ہیں۔ ( تفسیر نسفی ، ص810 ، پ19 ، الفرقان : 65 )  لہٰذا اپنی عبادت وریاضت پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رَحمت اور کرم ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے اور اُس کی خفیہ تدبیر سے خوف زَدہ رہنا چاہیے کہ یہی کاملین کا طریقہ ہے۔ علامہ اسماعیل حقی رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : رحمٰن کے خاص بندے عبادت گزاری اور پرہیزگاری کے باوجود جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں تو خود کو گناہگاروں میں شمار کرتے ہیں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کو شمار نہیں کرتے اور اپنے احوال پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ( تفسیر روح البیان ، 6/244 ، پ19 ، الفرقان : 66 )

اللہ تعالیٰ قرآن کی برکت اور بزرگانِ دین کی عبادت کے صدقے ذوقِ عبادت ، شوقِ سجود ، لذتِ مناجات ، گریہ نیم شب ، آہِ سحر اور بے حساب مغفرت کی دولت عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code