نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خوبصورت شانیں

تفسیر قراٰنِ کریم

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی خوبصورت شانیں

*  مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ ربیع الاول1442ھ

(اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷))

ترجمہ : وہ جو اس رسول کی اتباع کریں جو غیب کی خبریں دینے والے ہیں ، جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، جسے یہ (اہلِ کتاب) اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور انہیں برائی سے منع کرتے ہیں اور ان کےلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (پ9 ، الاعراف : 157)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نثر کے اُسلوب میں روانی کے ساتھ نعتِ مصطفیٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پڑھی جارہی ہے۔ ایک ایک لفظ سرورِکائنات ، افضل المخلوقات  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی عظمت اورشانِ رفیع بیان کرتا ہے۔ مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ اس آیت میں “ رسول “ سے محمد مصطفیٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مراد ہیں۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مقامِ رسالت پر فائز اور خالق و مخلوق کے درمیان واسطہ و وسیلہ ہیں ، اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی ، شرائع و احکام اس کے بندوں کو پہنچانے والے ، منصبِ نبوت سے مشرف ہونے والے اور غیبی امور کو ظاہر فرمانے والے ، مخلوق سے بے نیاز ہو کر خالق سے سیکھنے والے ہیں اور آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے تذکرے تورات و انجیل میں ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نیکیوں کو فروغ دینے والے ، برائیوں سے روک کر جہنم سے بچانے والے ہیں۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک ، مطہر ، طیب ، طاہر ہستی پاکیزہ چیزوں کو حلال کرنے اور نجاستوں ، غلاظتوں ، ناپاکیوں کو حرام کرنے والی ہے۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  صدیوں سے رائج جاہلانہ رسوم ورواج ، باطل قوانین اور سخت احکام کا بوجھ لوگوں سے اتار کر انہیں راحت و سکون بخشنے والے ہیں۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر ایمان فرض ، آپ کی تعظیم فرض ، آپ کی تائید فرض ، آپ کی اتباع فرض ، آپ کے لائے ہوئے نور یعنی قرآن کو ماننا اور اس کی پیروی فرض ہے اور ان فرائض کا ادا کرنے والا بارگاہِ الٰہی میں مقبول ، دنیا و آخرت میں فوز و فلاح اور نجات و انعامات کا حق دار ہے۔

لفظ “ اُمِّی “ کا معنیٰ : اس لفظ کا ترجمہ “ بے پڑھے “ کیا گیا ہے کیونکہ اس سے مراد یہ نہیں کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اصلاً پڑھنا نہیں آتا تھا ۔ آپ کا پڑھنا لکھنا کتب احادیث و سیرت سے ثابت ہے۔ “ اُمّی “ سے مراد یہ ہے کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے کسی مخلوق سے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا بلکہ خالق نے تعلیم فرمائی۔ “ اُمِّی “ ہونا ہمارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔

ایسا اُمّی کس لئے منت کشِ استاد ہو

کیا کفایت اس کو اِقْرَأ رَبُّکَ الْاَکْرَمْ نہیں

علماء و مفسرین نے “ اُمِّی “ کے دیگر معانی بھی بیان فرمائے ہیں : (1) “ اُمِّی “ یعنی ام القری (مکہ) سے تعلق رکھنے والے۔ (2) “ اُمِّی “ یعنی اُمِّیِّیْن (ان پڑھوں) کی قوم سے تعلق رکھنے والے (لیکن خود پڑھنا جاننے والے) جیسے قرآن میں اہلِ مکہ کو اُمِّیِّیْن کہا گیا حالانکہ ان میں یقینی طور پر بہت سے لوگ پڑھنا جانتے تھے لیکن انہیں صرف اس قوم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے “ اُمِّیِّیْن “ سے یاد کیا گیا۔ (3) “ اُمِّی “ یعنی صاحبِ امت ، امت والے۔

تورات و انجیل میں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ذکر مبارک : آیت میں فرمایا کہ اہلِ کتاب تورات اور انجیل میں اس نبی کا ذکر لکھا ہوا پاتے ہیں۔ یہ برحق ہے۔ حضرت علامہ مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہلِ کتاب ہر زمانے میں اپنی کتابوں میں تراش خراش کرتے رہے اور اُن کی بڑی کوشِش اس پر مسلّط رہی کہ حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ذکر اپنی کتابوں میں  نام کو نہ چھوڑیں۔ توریت انجیل وغیرہ اُن کے ہاتھ میں تھیں اس لئے انہیں اس میں کچھ دشواری نہ تھی لیکن ہزاروں تبدیلیاں کرنے کے  بعد بھی موجودہ زمانے کی بائیبل میں حضور سیّدِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بشارت کا کچھ نہ کچھ نشان باقی رہ ہی گیا۔ چنانچہ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور ۱۹۳۱ء   کی چھپی ہوئی بائیبل میں یوحنا کی انجیل کے باب چودہ کی سولھویں آیت میں ہے۔ “ اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دُوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔ “ (یوحنا کی انجیل ، باب : ۱۴آیت : ۱۶ ، برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور ۱۹۳۱ء) لفظ مددگار پر حاشیہ ہے ، اس میں اس کے معنٰی  “ وکیل یا شفیع “ لکھے ہیں تو اب حضرت عیسی  علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام  کے بعد ایسا آنے والا جو شفیع ہو اور ابد تک رہے یعنی اس کا دین کبھی منسوخ نہ ہو ، بجز سیّدِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے کون ہے ؟پھر اُنتیسویں تیسویں آیت میں ہے۔ “ اور اب میں نے تم سے اس کے ہونے سے پہلے کہہ دیا ہے تاکہ جب ہوجائے تو تم یقین کرو اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دُنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔ “ (یوحنا کی انجیل ، باب : ۱۴ آیت : ۲۹ ، برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور ۱۹۳۱ء)کیسی صاف بشارت ہے اور حضرت ِ عیسیٰ  علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلا م  نے اپنی اُمت کو حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ولادت کا کیسا منتظر بنایا اور شوق دلایا ہے اور دُنیا کا سردار خاص سیّدِ عالم کا ترجمہ ہے اور یہ فرمانا کہ “ مجھ میں اس کا کچھ نہیں “ حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی عظمت کا اظہار ، اُس کے حضور اپنا کمالِ ادب و انکسار ہے۔

پاکیزہ کو حلال اور ناپاک کو حرام کرنے والے : آیت میں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا مزید وصف یہ بیان ہوا کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  لوگوں کےلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں۔ ان میں وہ حلال و طیب چیزیں بھی داخل ہیں جو بنی اسرائیل پر ان کی نافرمانی کی وجہ سے حرام ہو گئی تھیں اور اس کے علاوہ بھی۔ یونہی نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بہت سی خبیث و گندی چیزوں کو حرام فرماتے ہیں۔ احادیث میں ایسی چیزوں کی کافی تفصیل ہے۔ یہاں علماء کرام نے ایک موضوع پر بڑا تفصیلی کلام کیا ہے کہ کیا نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو تشریعی احکام میں اپنی طرف سے کچھ اختیار تھا یا نہیں کہ کسی کےلئے کسی چیز کو فرض کردیں اور کوئی شے کسی مخصوص آدمی پر حرام کردیں۔ اس معاملے میں تحقیقی قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو یہ اختیار دیا ہے اور خود آیت کے الفاظ میں تحلیل و تحریم یعنی حلال کرنے اور حرام کرنے کے الفاظ ہیں۔ احادیث میں یہ بھی مضمون بکثرت بیان ہوا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی تحقیق دیکھنی ہو تو امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ الرَّحمٰن  کا رسالہ ’’منیۃ اللبیب ان التشریع بید الحبیب‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔ یہ رسالہ ’’فتاوی رضویہ ‘‘ کی تیسویں جلد میں موجود ہے۔

لوگوں سے بوجھ اتارنے والے : آیت میں  نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا یہ وصف بھی بیان ہوا کہ آپ لوگوں کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں۔ بوجھوں اور قیدوں سے مراد سخت تکلیفوں اور مشقت والے احکام ہیں جو بنی اسرائیل پر نافذ کئے گئے اور ان قیدوں میں وہ جاہلانہ طریقے ، رسوم و رواج اور بنی اسرائیل کے پادریوں ، رِبّیوں کے وہ مسائل بھی شامل ہیں جو انہوں نے اپنی طرف سے گھڑ کر لوگوں پر مسلط کئے تھے ۔ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنی شریعت کے آسان احکام کے ذریعے یہ سارے بوجھ لوگوں سے اتار دئیے۔ شریعتِ نبوی کا بنیادی قاعدہ یہ عطا فرمایا گیا کہ دین آسان ہے چنانچہ رسول کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے صحابۂ کرام سے فرمایا : یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا آسانی پیدا کرو ، تنگی میں مت ڈالو۔ (بخاری ، حدیث : 6125) اور فرمایا : اَحَبُّ الدِّیْنِ اِلَی اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ السَّمْحَۃُ اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب دین ، آسان حنیفی (ابراہیمی) دین ہے۔ (بخاری ، 1 / 16) اور فرمایا : اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ  دین آسان ہے۔ (بخاری ، حدیث : 39)

فلاح پانے والوں کے اوصاف : آیت کے آخر میں فلاح و کامرانی سے ہم کنار ہونے والے لوگوں کے اوصاف بیان فرمائے :

پہلا وصف : نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر ایمان : کامیابی کی پہلی شرط اور کامیاب لوگوں کی پہلی صفت نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر ایمان لانا ہے کیونکہ سید المرسلین ، خاتم النبیین  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی جلوہ گری کے بعدآپ پر ایمان لائے بغیر کسی کی نجات نہیں۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تمام انسانوں بلکہ جملہ مخلوقات کےلئے اللہ کے رسول بن کر تشریف لائے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : (قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ) ترجمہ : اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ (پ9 ، الاعراف : 158)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  حتی کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء  علیہم السَّلام کو بھی نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر ایمان لانے اور آپ کی مدد کرنے کا حکم دیا : (لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-) ترجمہ : تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ (پ3 ، آل عمران : 81)    (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دوسرا وصف : نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی تعظیم : حضورِ اقدس  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی تعظیم اعتقادی ، عملی ، قولی ، فعلی ، ظاہری ، باطنی ہر طرح لازم اور اصل ِ ِایمان ہے ۔ صحابۂ کرام  علیہمُ الرِّضوان  کی کتابِ حیات کا ہر باب اس تعظیم کے روشن واقعات سے مزین ہے۔

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنیدو بایزیدایں جا

یعنی آسمان کے نیچے مصطفیٰ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا دربار ایک ایسی ادب گاہ ہے جہاں حضرت جنید بغدادی اوربایزید بسطامی علیہما الرَّحمہ جیسے عظیم اولیاء بھی سانس روک کر آتے ہیں یعنی ادب سے اونچا سانس نہیں لیتے۔

تیسرا وصف : نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی تائید : نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی تائید و نصرت فرض اور حکم خداوندی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ) ترجمہ : یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں(دوسرا ترجمہ ہے کہ یہ نبی مسلمانوں کی جانوں سے زیادہ مقدم ہیں)۔ (پ21 ، الاحزاب : 6)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)   اور فرمایا : ( مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-)ترجمہ : اہلِ مدینہ اور ان کے اردگرد رہنے والے دیہاتیوں کے لئے مناسب نہیں تھا کہ وہ اللہ کے رسول سے پیچھے بیٹھے رہیں اور نہ یہ کہ ان کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کو عزیز سمجھیں۔ (پ11 ، التوبۃ120)   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

سیدنا صدیق ِ اکبر  رضی اللہ عنہ  کا غارِ حرا میں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے آرام کی خاطر سانپ سے ڈسوا لینا  اور مولیٰ علی شیرِ خدا  کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم  کا ہجرت کی رات نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بستر اطہر پر لیٹ کر خود کو کفار کے جان لیوا حملے کےلئے پیش کردینا اسی تائید و نصرت و خدمت کی عظیم مثال تھی۔ یونہی صحابۂ کرام کا میدانِ جنگ میں نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے آگے کھڑے ہوجاناکہ اگر کوئی تیر آئے تو ان کے بدن کو چھلنی کردے لیکن نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بدن اطہر کو تکلیف نہ پہنچائے ، یہ سب اِسی حکم قرآنی پر عمل کی صورتیں تھیں۔

یہ اِک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں

ترے نام پر سب کو وارا کروں میں

کروں تیرے نام پہ جاں فدا ، نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا

دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا ، کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

چوتھا وصف : نورکی پیروی کرنا : اس نور سے قرآن پاک مراد ہے جس سے مومن کا دِل روشن ہوتا ، شک و جہالت کی تاریکیاں دور ہوتیں اور علم و یقین کی ضیاء پھیلتی ہے۔ اللہ نور السموات والارضیعنی آسمانوں ، زمینوں کو نور بخشنے والے رب کریم نے نوری مخلوق جبرئیل امین  علیہ السَّلام  کے ذریعے ذاتِ مصطفیٰ ، سراجا منیرا ، نور والے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر یہ نوری کلام نازل فرمایا۔ اس نور کی پیروی کرنےوالےکےلئے دنیا میں ہدایت کا نور ، برزخ میں قبر روشن کرنے والا نور اور قیامت میں پل صراط کی تاریکیوں میں جنت کا راستہ دکھانے والا نور ہے۔

ان سب اوصاف کے حاملین کو بشارت سنائی کہ جو لوگ اِس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*  دارالافتاء اہلِ سنّت عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی

 


Share

Articles

Comments


Security Code