اَبْدالوں کی سرزمین(قسط:02)

تاریخ کے اوراق

اَبْدالوں کی سرزمین ( قسط : 02 )

*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2023

اللہ پاک کے ولیوں کی بہت ساری اَقسام میں سے ایک قسم کو اَبْدال کہتے ہیں اور انہیں اَبْدال اس لئے کہتے ہیں کیونکہ ان کے مقامات ، ان کی جگہ بدلتی رہتی ہے کبھی مشرق  ( East )  میں کبھی مغرب  ( West )  میں کبھی جُنوب  ( South )  میں کبھی شِمال  ( North )  میں مگر ان کا ہیڈ کوارٹر ملکِ شام ہے۔ زیادہ تر ملکِ شام میں رہتے ہیں ، مَعرفت و بَصِیرت رکھنے والے انہیں پہچانتے ہیں۔[1]درج ذیل 3احادیثِ مبارکہ اَبدالوں کے ذکرِ خیر پر مشتمل ہیں :

 ( 1 )  مولائے کائنات حضرت سیّدنا علیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : میں نے رسولِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اَبدال شام میں ہیں ، وہ حضرات چالیس مرد ہیں ، جب ان میں ایک وفات پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو بدل دیتا ہے ، ان کی برکت سے بارشیں برستی ہیں ، ان کے ذریعے دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور ان کی برکت سے شام والوں سے عذاب دور ہوتا ہے۔[2]

حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : اِس فرمانِ عالی سے معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کا وسیلہ برحق ہے ، اللہ پاک اچھوں کے صدقے بُروں کی مشکلیں حل کردیتا ہے اور اُن سے مصیبتیں ٹال دیتا ہے۔[3]

 ( 2 ) معجمِ کبیر کی روایت یوں ہے : ابدال شام میں ہیں ، شام والےان کی برکت سے مدد پاتے ہیں اور ان کے وسیلے سے رِزْق حاصل کرتے ہیں۔[4]

 ( 3 ) حضرت علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم سے روایت ہے کہ حضور نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اَبْدالوں کے بارے میں ارشاد فرمایا : وہ میری اُمّت میں کِبْریتِ اَحْمَر[5]سے بھی زیادہ نادِر ہیں۔[6]

اَبْدالوں کی خصوصیات حجۃُ الاسلام امام محمد غزالی شافعی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ابدالوں کے لئے زمین سَمیٹ دی جاتی ہے ، انہیں سلام کے ساتھ نِدا کی جاتی ہے اور انہیں اَنواع و اقسام کی بھلائیوں اور کرامات کے تحفے دئیے جاتے ہیں۔  [7]

بعض ابدالوں کا ذکرخیر حضرت وَہْب بن مُنَبِّہ رحمۃُ اللہ علیہ کے ایک ہم نشین بیان کرتے ہیں : میں خواب میں پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت سے مشرف ہوا تو عرض کی : یارسولَ اللہ ! آپ کی امت کے ابدال کہاں ہیں ؟  آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے شام کی طرف اشارہ فرمایا ، میں نے عرض کی : یارسولَ اللہ ! کیا ان میں سے کوئی عراق میں بھی ہے ؟  ارشاد فرمایا : ہاں !  ( ۱ ) محمدبن واسع  ( ۲ ) حَسّان بن اَبی سِنَان اور  ( ۳ ) مالک بن دینار۔[8]نیز  ( ۴ ) سلطان نورالدّین زَنگی  ( ۵ ) حضرت حماد بن سَلَمَہ اور  ( ۶ ) حضرت وکیع  رحمۃُ اللہ علیہم کو بھی ابدالوں میں شمار کیا گیا ہے۔[9]

علاماتِ قیامت اور میدانِ محشر بہت سی احادیثِ مبارکہ یہ بتاتی ہیں کہ بعض علاماتِ قیامت کا تعلق ملک شام سے ہے اور میدانِ محشر بھی سرزمینِ شام پر قائم ہوگا۔ چنداحادیث وروایات اور شواہدیہاں درج کئے جاتے ہیں :

 ( 1 ) حضرت معاویہ بن قرہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب اہلِ شام میں فساد آجائے گا تو تم میں کوئی بھلائی نہیں رہے گی ، میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ نصرت یافتہ رہے گا ، ان کی مدد سے ہاتھ کھینچنے والا انہیں ضرر نہیں پہنچاسکے گا حتی کہ قیامت قائم ہوجائے۔[10] یہ واقعہ قریب قیامت ہوگا۔ شام ابدالوں کا مرکز ہے وہاں آخر تک ایمان رہے گا ، جب وہاں کفر چھا جائے اور کوئی مؤمن نہ رہے تو سمجھو کہ شام کے ابدال ختم ہوگئے اور دنیا اولیاء الله سے خالی ہوگئی ، دنیا کا اولیاء الله سے خالی ہونا قیامت کی آمد ہے۔چنانچہ جب قیامت آئے گی تو روئے زمین پر کوئی الله الله کہنے والا نہ ہوگا۔[11]

 ( 2 ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت سے پہلے حَضْرَمَوت کے دریا سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہانکتی ہوگی۔ صحابۂ کرام نے عرض کی : آپ ہمیں اس وقت کے لئے کیا حکم دیتے ہیں ؟  فرمایا : تم پر ملکِ شام میں رہنا لازم ہوگا۔[12]

 ( 3 ) حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شام کی طرف اپنے مبارک ہاتھ سے اشارہ کرکے فرمایا : تمہارا حشر اس زمین پر ہوگا ، پیدل ، سوار اور منہ کے بل گھسٹتے ہوئے۔[13]

 ( 4 ) قیامت کی نشانیوں میں سے ایک حضرت امام مہدی رحمۃُ اللہ علیہ کی تشریف آوری بھی ہے ، آپ لوگوں کو ملکِ شام لے کر جائیں گے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ماہِ رمضان میں اَبدال کعبہ شریف کے طواف میں مشغول ہوں گے ، وہاں اولیاء حضرت امام مہدی رحمۃُ اللہ علیہ کو پہچان کر ان سے بیعت کی درخواست کریں گے۔ آپ انکار فرمائیں گے ، غیب سے ندا آئے گی : ھٰذَاخَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ فَاسْمَعُوْا لَہٗ وَاَطِیْعُوْہ یعنی یہ اللہ پاک کے خلیفہ مہدی ہیں ان کا حکم سنو اور اطاعت کرو۔ لوگ آپ کے دستِ مبارک پر بیعت کریں گے پھرآپ وہاں سے مسلمانوں کو ساتھ لے کر شام تشریف لے جائیں گے۔ آپ کا زمانہ بڑی خیر و برکت کا ہوگا ، زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی۔[14]

 ( 5 ) بروزِ قیامت مکہ ومدینہ کے قبرستانوں میں مدفون مسلمانوں کے بعد اہلِ شام اور باقی لوگ اپنی اپنی قَبْروں سے باہر آئیں گے۔[15]

اللہ کریم بروزِ قیامت اپنے پسندیدہ بندوں کے ساتھ ہمارا حشر فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں۔۔۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ تراجم ، المدینۃُ العلمیہ   Islamic Research Center



[1] مراٰۃ المناجیح ، 8/584ماخوذاً ، روض الفائق ، ص189

[2] مسنداحمد ، 1/238 ، حدیث : 896

[3] مراٰۃ المناجیح ، 8/583 ، 584 ملخصاً

[4] معجم کبیر ، 8/65 ، حدیث : 120

[5] کِبْرِیتِ اَحْمَر سے مراد وہ کیمیا ہے جس سے خالص سونا تیار کیا جاتا ہے۔

[6] موسوعۃ لابن ابی الدنیا ، 2/388 ، حدیث : 8

[7] منہاج العابدین ، ص41

[8] حلیۃ الاولیاء ، 3/136

[9] مراٰۃ الجنان ، 3/292-میزان الاعتدال ، 1/577- تاریخ ابن عساکر ، 63/104

[10] ترمذی ، 4/82 ، حدیث : 2199-مسند احمد ، 5/305 ، حدیث : 1597

[11] مراٰۃ المناجیح ، 8/595 ملخصاً

[12] مصنف ابن ابی شیبہ ، 21/125 ، حدیث : 38475-مسند ابی یعلیٰ ، 5/80 ، حدیث : 5526

[13] مسند احمد ، 7/235 ، 237 ، حدیث : 20042 ، 20051

[14] ماخوذازبنیادی عقائد ومعمولات اہلسنت ، ص37

[15] شرح الصاوی علی جوھرۃ التوحید ، ص373۔


Share