
تاریخ کے اوراق
غزوۂ بَنو مُصْطَلِق کے اسباب و نتائج
*مولانا بلال حسین عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025
غزوۂ اُحُد میں مسلمانوں کو ہونے والے جانی نقصان کو دیکھ کر اسلام دشمنوں کا حوصلہ اتنا بلند ہوگیا تھا کہ ان پر مدینۂ منورہ پر دھاوا بولنے کا جنون سوار ہوگیا تھا، یہی وجہ ہے کہ 4 اور 5 ہجری میں غزوۂ خندق تک مسلمانوں کو مجبوراً کئی دفاعی جنگیں لڑنی پڑیں جو کہ کامیاب بھی رہیں جیساکہ سَریہ ابوسَلَمہ میں سالارانِ کفار طُلَیْحَہ بن خُوَیْلَد اور سلمہ بن خویلد کو اپنے اونٹ بکریاں چھوڑ کر پیچھے ہٹنا پڑا، سریہ عبداﷲ بن اُنَیس میں مخالف لشکر کا سربراہ خالد بن سفیان ہزلی اپنی جان گنوا بیٹھا، غزوہ ذاتُ الرِّقاع میں اَنمار و ثَعلبہ قبائل رُسوا ہوئے، غزوۂ دُومَۃُ الجَندَل میں بھی دشمن کو اپنا مال و متاع چھوڑکر بھاگنا پڑا،([1]) الغرض سب نے اپنی سی کوشش کرکے دیکھی جس میں انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ غزوۂ مُرَیْسِیع/غزوۂ بَنو مُصْطَلِق بھی اسی مرحلے کی ایک جنگ ہے جس میں پیش قدمی کرکے دشمن کے حملے کو پسپا کیا گیا، یہ جنگ شعبان 5 ہجری میں لڑی گئی۔
وجہ تسمیہ:”مریسیع“ بنو مصطلق کے پانی کے کنویں کا نام ہے، یہ جنگ اسی مقام پر لڑی گئی تھی اس لئے اسے جنگ مریسیع کہتے ہیں اور چونکہ یہ جنگ بنو مصطلق سے تھی تو اس مناسبت سے اسے غزوۂ بنو مصطلق بھی کہتے ہیں۔([2])
بنو مصطلق کا تعارف و جغرافیہ: بنومصطلق، بنو خُزاعہ کی ایک شاخ تھی، جو كہ بنو مُدلج کے حلیف تھے۔ ان کی رہائش فُرع (Wadi Al Fora’a) کے نواح میں قُدید کے قریب تھی، مدینۂ منورہ سے مصطلق جاتے ہوئے فُرع راستے میں پڑتا ہے۔ قُدَید، مکہ ومدینہ کے درمیان بحیرۂ اَحمر (Red Sea) کے پاس ہے، آج کے وقت میں مدینۂ منوّرہ سے قُدَید کا راستہ کم و بیش 3 گھنٹے/300 کلو میٹر کا ہے جبکہ مکے سے اس کا نصف، اُس وقت یہ فاصلہ دِنوں میں طے ہوتا تھا۔([3])
پس منظر (مع ابتدائی انٹیلی جنس کار روائی):حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ خبر پہنچی کہ قبیلۂ بنو مصطلق کے سردار حارث بن ابو ضرار (جو بعد میں ایمان لے آئے تھے) مدینۂ منورہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جس کے لئے انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ ساتھ اہلِ عرب میں سے بھی حتی المقدور افراد کو جمع کر لیا ہے۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس خبر کی تصدیق اور دیگر انٹیلی جنس معلومات حاصل کرنے کے لئے حضرت بُرَیدہ بن حُصَیب رضی اللہُ عنہ کو وہاں روانہ کیا اور اَلْحَرْبُ خُدْعَةٌ([4])کے تحت انہیں خلافِ واقع بات کہنے کی بھی اجازت دی تاکہ پکڑے جانے کی صورت میں خلافِ واقِع بات کر کے کافِروں کے شر سے چھٹکارا پا سکیں۔([5])
پیارے آقا کا جاسوس بنو مصطلق میں: حضرت بُریدہ بن حصیب جب اپنے پر خطر فریضے کو سر انجام دینے بنو مصطلق کے پاس پہنچے تو وہاں ایک لشکر دیکھا۔ بنو مصطلق کے لوگوں نے آپ کو دیکھ کر پوچھا: کون ہو؟ آپ نے جواب دیا: تم ہی میں سے ہوں، جب مجھے محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے خِلاف تمہاری لشکر کشی کی خبر پہنچی تو میں چلا آیا۔ میں اپنی قوم اور اپنے اطاعت گزاروں کو بھی لے آتا ہوں، اس طرح ہم سب متحد ہو کر ان پر ٹوٹ پڑیں گے۔ حضرت بُریدہ کی بات سُن کر خاندانِ بنو مصطلق کے سردار حارِث بن ابو ضِرَار کہنے لگے: ہم بھی یہی چاہتے ہیں، جلدی سے لے آؤ! حضرت بریدہ نے کہا: میں ابھی جا کر اپنی قوم کا ایک بڑا لشکر تمہارے پاس لے آتا ہوں۔ اس پر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جنگی تیاری: بنو مصطلق کی آنکھوں میں دھول جھونک کر حضرت بُریدہ جب واپس مدینۂ منورہ آئے، اور سارا ماجرا پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سنایا تو آپ نے بنو مصطلق کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے صحابۂ کرام کو مدعو کیا، جانثارانِ مصطفے لبیک کہتے ہوئے گھوڑوں کی لگامیں تھامے چلے آئے۔ 700 نفوس پر مشتمل مسلمانوں کے اس لشکر میں کل 30 گھوڑے تھے جن میں سے 20 انصار جبکہ 10 مہاجرین کے تھے۔
مدینے سے روانگی: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مدینۂ منورہ میں اپنا نائب مقرر کیا، مدینے کے انتظامات ان کے سپرد کئے اور بنومصطلق پر زمین تنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کے ہمراہ 2 شعبان کو مدینۂ منورہ سے روانہ ہوگئے۔
بنومصطلق کا جاسوس مسلمانوں کی گرفت میں: اسی دوران پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس مشرکین کا ایک جاسوس پکڑ کر لایا گیا، اسے قبیلۂ بنومصطلق کے سردار حارِث بن ابوضِرَار نے مسلمانوں کے بارے میں خفیہ معلومات حاصل کرنے بھیجا تھا۔ اس جاسوس سے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لشکر کفار کی صورتحال پوچھی جس کے بارے میں اس نے اپنی زبان نہیں کھولی، اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جوکہ اس نے رد کردی، اب چونکہ اس جاسوس کے سانس لینے کی کوئی وجہ باقی نہیں تھی تو حضرت عمر رضی اللہُ عنہ نے پیارے آقا کے حکم پر اس کو تہِ تیغ کردیا۔ آج بھی دنیا کے کسی بھی ملک کا دفاعی نظام جاسوس کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتا۔
بنو مصطلق کے اتحادیوں کا میدان جنگ سے فرار: مخالفین کو جب مسلم فوج کے آنے اور اپنے جاسوس کی موت کی خبر ہوئی تو بنومصطلق کے اتحادی یعنی دیگر عرب جو اس جنگ میں حارث بن ابوضرار کے ساتھ شامل تھے وہ مارے خوف کے دُم دبا کر بھاگ گئے، اور بنو مصطلق کے لوگ مقابلے کے لئے تنہا رہ گئے۔
میدانِ کارزار میں مسلم لشکر کی آمد: لشکرِ اِسْلام مُرَیْسِیع کے میدان میں پہنچا اور قرارگاہ میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے خیمہ نصب کردیا گیا۔ سامنے لشکر کفار تیار تھا، اِدھر لشکرِ اسلام بھی صف آراء ہوگیا، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کو حکم دیا کہ وہ بنومصطلق کو ندا دیں کہ تم لوگ اسلام قبول کر لوتاکہ اپنے جان و مال کو محفوظ کرسکو۔ فرمانِ رسول کے مُوَافِق حضرت عمر نے انہیں دعوتِ اِسلام پیش کی لیکن انہوں نے اِسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں دونوں طرف سے تیر اندازی شروع ہو گئی پھر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اَصْحَاب کو حکم فرمایا تو انہوں نے یکبارگی حملہ کر دیا بعض روایتوں کے مطابق ان پر اس وقت اچانک یلغار کی گئی جب وہ بالکل غفلت میں تھے۔ بہرحال اللہ پاک نے مسلمانوں کو مکمل برتری کے ساتھ فتح عطا فرمائی۔
کفار کا جانی و مالی نقصان: اس جنگ میں کفار کے دس افراد ہلاک جبکہ 700 یا اس سے زائد گرفتار ہوئے، جنگی قیدیوں کے ہاتھ پیچھے باندھ دئیے گئے اور حضرت بُرَیْدَہ رضی اللہُ عنہ جنہیں جاسوسی کے فرائض سونپے گئے تھے، انہی کو ان پر نگران مُقَرَّر کیا گیا۔ اس جنگ میں 2ہزار اونٹ اور 5ہزار بکریاں بھی مال غنیمت میں ہاتھ آئیں۔([6])
مسلمانوں کا جانی نقصان: اس جنگ میں مسلمانوں کو تقریباً کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، البتہ حضرت ہشام بن صبابہ رضی اللہُ عنہ کو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ کے قبیلہ کے ایک انصاری صحابی نے دھوکے میں (دشمن سمجھ کر) شہیدکردیا تھا۔([7])
بنو مصطلق کی شکست کی وجوہات: اس جنگ کےمطالعہ سے بنومصطلق کے ہارجانے کی دو وجوہات سامنے آتی ہیں:
پہلی تو لشکرِ محمدی کا رعب و دبدبہ اور وہ ہیبت جو اللہ ربُّ العزت نے کفار کے دلوں میں ڈال دی تھی، یہ لشکر کفار کو اس سے بڑھ کر نظر آرہا تھا جتنا وہ حقیقت میں تھا جیساکہ خود حضرت جویریہ رضی اللہُ عنہا (جوکہ اس وقت کفار کی صف میں تھیں) بیان کرتی ہیں کہ ہم مُریسیع کے میدانِ کار زار میں تھے جب لشکرِ اسلام میدان میں آیا تو میں نے اپنے والد (اس لشکر کے سردار حارث بن ابو ضرار) کو کہتےسنا ”اتنا بڑا لشکر ہمارے سامنے آگیا ہے کہ جس کے مقابلے کی سکت ہم میں نہیں۔“ مزید کہتی ہیں کہ میں خود اتنی کثرت سے مجاہدین، گھوڑے اور اسلحہ دیکھ رہی تھی جسے میں بیان نہیں کرسکتی۔ اور جب میں اسلام لاکر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زوجیت میں آگئی تو میں پھر اس لشکر کو دیکھنے لگی مگر اب کی بار وہ اس طرح نہیں دکھ رہا تھا جیسا میں نے پہلے دیکھا تو میں سمجھ گئی کہ یہ وہ رعب تھا جو اللہ نے مشرکین کے دلوں میں ڈالا تھا۔نیز قبیلہ بنو مصطلق کے ہی ایک شخص جو اسلام لاچکے تھے، انہوں نے بھی اسی طرح کی بات بیان کی کہ ہم چتکبرے گھوڑوں پر سوار ایسے نُورانی افراد کو دیکھتے تھے جنہیں ہم نے نہ پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔([8])
اور دوسری ظاہری وجہ بنو مصطلق کے دیگر عرب اتحادیوں کا اس لشکر کو پیٹھ دکھا جانا ہے۔ لشکرِ اسلام کے بیان کردہ رعب نے ان اتحادیوں کو بھی جکڑلیا تھا اور مزید یہ کہ چونکہ ان کا جاسوس پکڑا گیا تھا، تو ممکنہ طور پر ان اتحادیوں نے خیال کیا ہو کہ اب تک تو اس نے ہمارے تمام جنگی راز افشاں کردئیے ہوں گے، لہٰذا ایسی جنگ میں شامل ہونے کا کوئی جواز نہیں جس میں شکست کے امکانات غالب ہوں، تو انہوں نے بنومصطلق کو چھوڑکر اپنی راہ لی۔
جنگِ مُریسیع کی مزید چند اہم جھلکیاں:
علم بردار صحابہ:اس جنگ میں مہاجرین کے علم بردار حضرت ابوبکر صِدِّیق یا حضرت عمّار بن یاسِر تھے جبکہ انصار کا پرچم حضرت سعد بن عُبَادَہ کے ہاتھ میں تھا۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین([9])
مسلمانوں کا شعار(Military Codeword): جنگوں میں مختلف مقاصد کے لئے کچھ خفیہ الفاظ مقرر کئے جاتے تھے، اس جنگ میں مسلمانوں کا شعار ”يَا مَنْصُورُ، اَمِتْ اَمِتْ“ تھا۔([10])
حضورِ اکرم کے نائب: جنگ میں روانہ ہوتے وقت حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کس کو مدینے میں اپنا نائب بنایا؟ اس بارے میں روایات مختلف ہیں۔ بعض کے مطابق حضرت زید بن حارثہ کو، بعض کے مطابق حضرت ابو ذر غفاری کو جبکہ ایک قول کے مطابق حضرت نُمیلہ بن عبداللہ لیثی کو نائب مقرر کیا۔([11])
پیارے آقا کے گھوڑے:اس جنگ میں جو گھوڑے مسلمانوں نے استعمال فرمائے، ان میں دو گھوڑے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بھی تھے: ایک لِزاز جو کہ مُقَوقِس (شاہِ مصر) نے ہدیۃً آپ کی بارگاہ میں پیش کیا تھا جبکہ دوسرا گھوڑا ظَرِب تھا جو کہ فَروہ بن عَمرو جُذامی رضی اللہُ عنہ نے آپ کو تحفۃً پیش کیا تھا۔([12])
منافقین کی مذموم حرکتیں:منافقین حسبِ عادت اس جنگ کے موقع پر بھی سازشیں کرنے سے باز نہ آئے۔ایک دن پانی لینے پر ایک مہاجر اور انصاری میں کچھ تکرار ہو گئی اور نوبت لڑائی تک آگئی، رئیسُ المنافقین عبداﷲ بن اُبی کو جلتی پر تیل چھڑکنے کا ایک موقعہ مل گیا، اس نے اشتعال دلانے کے لئے انصاریوں سے کہا کہ ”لو! یہ تو وہی بات ہوگئی کہ سَمِّنْ کَلْبَکَ لِیَاْکُلَکَ (یعنی تم اپنے کتے کو کھلا پلاکر فربہ کروتاکہ وہ تمہیں کو کھا ڈالے) تم انصاریوں ہی نے ان مہاجرین کو استحکام بخشا ہے لہٰذا اب ان مہاجرین کی امداد بالکل بند کر دو یہ لوگ ذلیل و خوارہیں اور ہم انصار عزت دار ہیں اگر ہم مدینہ پہنچے تو یقیناً ہم ان ذلیل لوگوں کو مدینہ سے نکال باہر کر دیں گے۔ بہرحال حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس بدمزگی کو ختم کیا اور انصار و مہاجرین کے درمیان اپنے محبت و حکمت بھرے الفاظ سے واپس ایسی محبت پیدا کردی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔([13])
بنومصطلق کا مستقبل:اس جنگ میں گرفتار ہونے والے قیدیوں میں بنومصطلق کے سردار حارث بن ابوضرار کی شہزادی بی بی جُوَیریہ بھی تھیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور اپنی خوشی سے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نکاح میں آنا قبول کیا اور اُمُّ المؤمنین بَن گئیں۔ یہ نکاح اس قدر برکت اور انسانیت کے لئے رحمت کا ذریعہ بنا کہ صحابۂ کرام کو جب اس نکاح کا پتا چلا تو صحابہ نے تمام قیدیوں کو یہ کہہ کرآزاد کردیا کہ جس خاندان میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شادی کرلی، اس خاندان کا کوئی آدمی غلام نہیں رہ سکتا۔ صحابَۂ کرام کے اس اقدام سے متأثر ہو کر بنو مصطلق والے مسلمان ہوگئے اور سردارِ بنو مصطلق اُمُّ المؤمنین حضرت جُویریہ رضی اللہُ عنہا کے والد بھی دامنِ اسلام میں آگئے۔([14])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments