زمانۂ رسالت اور ماہِ ربیعُ الاول

تاریخ کے اوراق

زمانۂ رسالت اور ماہِ ربیعُ الاوّل

*مولانا حافظ حفیظ الرحمٰن عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022

 کائنات کو اللہ پاک کی جتنی بھی برکتیں ، رحمتیں اور مہربانیاں ملی ہیں وہ سب کی سب پیارے آقا محمدِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صدقہ ہے۔

ماہِ ربیعُ الاول کو سرکار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادتِ پاک سے نسبت حاصل ہے جس کی وجہ سے اس ماہ کی عظمت و بزرگی دیگر مہینوں سے زیادہ ہے ، بلکہ یہ مہینا دیگر مہینوں کی بہار ہے۔سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت سے لے کر وصالِ ظاہری تک ماہِ ربیعُ الاول میں بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے چند اختصار کے ساتھ پیشِ خدمت ہیں۔

ولادتِ سیّدُ الانبیاء  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادتِ باسعادت 12 ربیعُ الاول بروز پیر مطابق 20اپریل 571ء کو ہوئی۔

بی بی اُمِّ کلثوم  رضی اللہ عنہا کا نکاح : ربیعُ الاول3 ہجری میں حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت بی بی اُمِّ کلثوم  رضی اللہ عنہا کا حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔[1]

شہزادے کا وصال : نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے شہزادے حضرت سیّدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ نے 10ربیعُ الاول 10ھ کو وصال فرمایا ، جنّتُ البقیع میں دَفْن کئے گئے۔[2]

مدینہ کی طرف ہجرت : اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یکم ربیعُ الاول 622ء جمعرات کی رات کو مکۂ مکرمہ سے نکل کر غارِ ثور میں تشریف لے گئے۔ غارِ ثور میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تین دن یعنی جمعہ ، ہفتہ اور اتوار قیام فرمایا۔وہاں سے پیر کی رات 5ربیعُ الاول کو مدینۂ منوّرہ کی طرف روانہ ہوئے۔[3]

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مکہ سے ہجرت فرما کر12 ربیعُ الاوّل کو قُبا پہنچے ، حضرت کلثوم بن ھِدْم رضی اللہ عنہ کے یہاں چند دن قیام فرمایا۔[4]  حضرت کلثوم بن ھِدْم رضی اللہ عنہ کے خاندان والوں نے اس فخر و شرف پر کہ دونوں عالم کے میزبان ان کے مہمان بنے ،  ” اللہ اکبر “  کا پُرجوش نعرہ مارا۔[5]

مسجدِ قُبا کی تعمیر : سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے 12 ربیعُ الاول کو مقامِ قبا میں پہنچ کر ایک مسجد بنانے کا ارادہ فرمایا اور اس مسجد کی تعمیر کے لئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت کلثوم بن ھِدْم رضی اللہ عنہ کی زمین کو پسند فرمایااوراپنے مقدّس ہاتھوں سے مسجدِ قبا کی بنیاد ڈالی۔[6]

ربیع الاول میں پیش آنے والے غزوات :

  ( 1 ) غزوۂ  ” بَنُونَضِیر ربیع الاول سن 4 ہجری میں پیش آیا۔[7]

 ( 2 ) نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ربیعُ الاول یا ربیعُ الآخر 2 ہجری میں غزوۂ بُواط کے لئے 200مہاجرین صحابہ کا لشکر لےکر روانہ ہوئے مگر جنگ کی نوبت نہ آئی۔[8]

  ( 3 ) غزوۂ غَطْفان ربیع الاول 3ہجری میں پیش آیا[9] جس میں ایک موقع پر کافروں نے پہاڑ کی بلندی سے دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بالکل اکیلے اور اپنے اصحاب سے دور بھی ہیں ، دُعْثُور بن الحارث محاربی ایک دَم بجلی کی طرح پہاڑ سے اتر کر ننگی شمشیر ہاتھ میں لئے ہوئے آیااور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سرِ مبارک پر تلوار بلند کرکے بولا کہ بتائیے اب کون ہے جو آپ کو مجھ سے بچا لے؟ آپ نے جواب دیا :  ” اللہ “  فوراً جبریل علیہ السّلام زمین پر اتر پڑے اور دعثور کے سینے میں ایسا گھونسہ مارا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فوراً تلوار اٹھا لی اور فرمایا کہ بول اب تجھ کو میری تلوار سے کون بچائے گا؟ دعثور کانپتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں بولا :  ” کوئی نہیں۔ “  رحمةٌ لِّلعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کا قصور معاف کرتے ہوئے فرمایا : جہاں جانا چاہتے ہو جاؤ۔دُعْثُور اس اخلاقِ نبی سے بے حد متاثر ہوا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیااور اپنی قوم میں آ کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگا۔[10]

 ( 4 ) غزوۂ دُومۃ الجَنْدَل ربیع الاول 5 ہجری میں پیش آیا۔[11]سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پتا چلا کہ مقام ”  دُوْمَۃ الْجَنْدَل [12]  میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے ایک بہت بڑی فوج جمع ہو رہی ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک ہزار صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم کا لشکر لے کر مقابلہ کیلئے مدینہ سے نکلے ، جب مشرکین کو یہ معلوم ہواتووہ لوگ اپنے مویشیوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے ، صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم نے ان تمام جانوروں کو مالِ غنیمت بنا لیااور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چند دن وہاں قیام فرمایا۔  [13]

 ( 5 ) جیشِ اُسامہ اور سرکار کا وصالِ ظاہری : 26 صفر 11 ہجری پیر کے دن حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رومیوں سے جنگ کی تیاری کا حکم دے کر اگلے دن حضرت اُسامہ بن زید   رضی اللہ عنہم ا کو بلا کر مزاجِ اقدس ناساز ہونے کے باوجود خود اپنے دستِ مبارک سے جھنڈا باندھا اور یہ نشانِ اسلام حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دے کر ارشاد فرمایا :  ” اُغْزُ بِسْمِ اﷲ وَفِیْ سَبِیْلِ اللہ فَقَاتِلْ مَنْ کَفَرَ بِاللہیعنی اللہ کا نام لے کرراہِ خدامیں جہاد کرو اور جو اللہ کو نہ مانے اس کے ساتھ جنگ کرو۔

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے 12 ربیعُ الاول 11 ہجری کو جنگ کے لئے کوچ کرنے کا اعلان فرما دیا۔ ابھی تیاری کر ہی رہے تھے کہ ان کی والدہ حضرت اُمِّ ایمن  رضی اللہ عنہا کی طرف سے خبر ملی کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نزع کی حالت میں ہیں۔ یہ ہوش رُبا خبر سن کر حضرت اُسامہ ، حضرت عَمر و اور حضرت ابو عبیدہ  رضی اللہ عنہم وغیرہ فوراً ہی مدینہ آئے تو دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سکرات کے عالم میں ہیں ۔ اسی دن 12 ربیع الاول بروز پیر مطابق 12جون632عیسوی کو63 سال کی عمر میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وِصال ِظاہری ہوگیااور حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ  رضی اللہ عنہا کے حجرے ( یعنی گھر ) میں تدفین ہوئی۔[14]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ( فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ ، کراچی )



[1] شرح الزرقانی علی المواہب ، 4 / 327 ماخوذاً

[2] المنتظم فی تاریخ الملوک والامم ، 4 / 10

[3] مواہبِ لدنیۃ ، 1 / 145 ، سیرت سید الانبیاء ، ص231

[4] سیرۃ الحلبیہ ، 2 / 72 ، سیرت مصطفیٰ ، ص 171 ماخوذاً

[5] سیرتِ مصطفیٰ ، ص171 ماخوذاً

[6] سیرتِ مصطفیٰ ، ص174 ، 171ماخوذاً

[7] شرح الزرقانی علی المواہب ، 2 / 505

[8] سیرت سید الانبیاء ، ص147

[9] البدایہ والنہایہ ، 3 / 125

[10] سیرۃ الحلبیہ ، 2 / 290 ، عمدۃ القاری ، 14 / 190

[11] شرح الزرقانی علی المواہب ، 2 / 539

[12] مدینہ اور شہر دمشق کے درمیان ایک قلعہ

[13] شرح الزرقانی علی المواہب ، 2 / 540 ، 539ماخوذاً

[14] شرح الزرقانی علی المواہب ، 4 / 147 ، 152 ، 155ملخصاً ، سیرت مصطفیٰ ، ص536ماخوذاً


Share

Articles

Comments


Security Code