امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور روایت ِ حدیث

تذکرہ صالحین

امام اعظم اور روايتِ حدیث

*مولانا حافظ حفیظ الرحمٰن عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025

اللہ پاک نے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو قراٰنِ عظیم جیسی لاریب کتاب دے کر فریضۂ رسالت کی تکمیل کے لئے اس دنیا میں مبعوث فرمایا۔قراٰنِ کریم کی تعلیمات کو آسان بنانے کے لئے احادیثِ مصطفیٰ کو بطورِ تشریحِ قراٰن مقرر فرمایا،حدیث کی حفاظت کے لئے بہت سے عُلما ومحدثین کو مختلف طریقوں سے حدیثِ نبوی کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔جن خوش نصیب لوگوں کو احادیثِ نبویہ کی خدمت کا موقع میسر آیا اُن میں ایک بہت بڑا نام امامِ اعظم، محدثِ اعظم امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃُ اللہِ علیہ کا بھی ہے۔

علم و عمل، زہد و تقویٰ، ریاضت وعبادت اور فہم و فراست کی طرح  آپ کی شانِ روایتِ حدیث کو بھی مسلمان دل سے تسلیم کرتے ہیں۔جیساکہ

امیرالمؤمنین فی الحدیث ([1])حضرت سفیان ثوری رحمۃُ اللہِ علیہ امامِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کے ہم زمانہ اور آپ کی بلند شان کے معترف تھے۔ امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ بھی ان کی قدر کرتے تھے۔ یہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ کے متعلق فرماتے ہیں: امام ابوحنیفہ علم حاصل کرنے کے بہت شوقین اور برائیوں کی روک تھام کرنے والے تھے۔اُسی حدیث کو لیتے تھے جو نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے صحت کو پہنچ چکی ہو، ناسخ و منسوخ کی خوب پہچان رکھتے تھے اور وہ قابلِ اعتماد راویوں کی روایات اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری عمل کی تحقیق و جستجو میں رہتے تھے۔([2])

انتخابِ روایت میں  امام اعظم کی احتیاط: امام عبدالوہاب شعرانی میزان الشریعۃ الکبریٰ میں فرماتے ہیں: اللہ پاک نے مجھ پر احسان فرمایا کہ میں نے امامِ اعظم کی مسانیدِ ثلاثہ کا مطالعہ کیا۔ میں نے ان میں دیکھا کہ امامِ اعظم ثقہ اور صادق تابعین کے سوا کسی سے روایت نہیں کرتے جن کے حق میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خیرالقرون ہونے کی شہادت دی،جیسے اسود، علقمہ، عطاء، عکرمہ، مجاہد، مکحول اور حسن بصری وغیرہ۔لہٰذا امامِ اعظم اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے درمیان تمام راوی عادل ، ثقہ اور مشہور ہیں جن کی طرف کذب کی نسبت بھی نہیں کی جاسکتی اور نہ وہ کذاب ہیں۔([3])

ایک دن امامِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ منصور کے دربار میں تشریف لے گئے، وہاں عیسیٰ بن موسیٰ بھی موجود تھا ۔ اس نے منصور سے کہا: یہ اس زمانے کے سب سے بڑے عالمِ دین ہیں، منصور نے امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کو مخاطب کرکے کہا:نعمان!  آپ نے علم کہاں سے سیکھا؟ فرمایا:حضرتِ ابنِ عمر کے تلامذہ سے اور انہوں نے حضرت ابنِ عمر سے۔ نیز شاگردانِ مولیٰ علی سے اُنہوں نے  مولیٰ علی سے۔اسی طرح تلامذہ ابنِ مسعود سے۔ وہ بولا:آپ نے بڑا قابلِ اعتماد علم حاصل کیا۔([4])

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃُ اللہِ علیہنہ صرف امامِ اعظم ہیں بلکہ محدثِ اعظم بھی ہیں۔ آپ خود فرماتے ہیں: ”عِنْدِي صَنَادِیْقُ الْحَدِیْث، مَا اَخْرَجْتُ مِنْہَا اِلَّا الْیَسِیْر الَّذِيْ یُنْتَفَعُ بِہٖ“ یعنی میرے پاس حدیث کے بہت سے بھرے ہوئے صندوق ہیں مگر میں نے ان میں سے تھوڑی حدیثیں نکالی ہیں جن سے لوگ نفع اٹھائیں۔([5])

امامِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے زمانے کے محدثین سے اونچی شان اور بلند رتبہ کے حامل تھے۔اس بات کا اعتراف نہ صرف بعد کے لوگوں نے کیا بلکہ آپ کے ہم زمانہ محدثین نے بھی کیا ہے۔ چنانچہ مشہور محدث امام مسعر بن کدام رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:طَلَبْتُ مَعَ اَبي حَنِیْفَةَ الْحَدِیْثَ فَغَلَبَنَا“یعنی میں نے امام ابوحنیفہ کے ساتھ ”علمِ حدیث“حاصل کیا تووہ ہم پر غالب رہے۔([6])

امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہچونکہ تابعی ہیں اس لئے آپ کو کئی صحابَۂ کرام سے روایتِ حدیث کا شرف حاصل ہے۔([7])

صحابیِ رسول کی زیارت اور سماعِ حدیث:امامِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہفرماتےہیں: میں جب اپنے والدِ گرامی کے ساتھ حج پر گیا تو وہاں میں نے ایک شخص کو دیکھا جن کے اِرد گِرد لو گ جمع تھے، میں نے والد محترم سے پوچھا یہ کون ہے؟ انہوں نے بتایا: یہ صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن حارث بن جَزْء رضی اللہُ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا: ان کے پاس ایسی کون سی چیز ہے کہ لوگوں نے گھیرا ڈال رکھا ہے؟ فرمایا:ان کے پاس نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنی ہوئی احادیث ِ مبارکہ ہیں۔ یہ سُن کر آپ رحمۃُ اللہِ علیہ آگے بڑھے اورصحابیِ رسول سے براہِ راست ایک حدیثِ پاک سننے کا شرف حاصل کیا۔([8])اور میں نے اُن سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے:” قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَفَقَّهَ فِي دِينِ اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُرسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے دین کی سمجھ حاصل کرلی اس کی فکروں کا علاج اللہ پاک کرتاہے اور اس کو اس طرح پر روزی دیتاہے کہ کسی کو وہم  و گمان بھی نہیں ہوتا۔([9])

وحدانیاتِ امامِ اعظم:کسی بھی محدث کا حدیث میں مقام و مرتبہ جانچنے کے لئے  مرویات کی سندی حیثیت اور حدیث کے بارے میں احتیاط وغیرہ کی بہت اہمیت ہے۔امامِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہکے روایتِ حدیث میں مقام و مرتبے کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی روایت کردہ بعض احادیث وحدانی (صرف ایک واسطے سے روایت کردہ) ہیں جبکہ دیگر بڑے بڑے ائمہ حدیث کو یہ شرف حاصل نہیں ہے۔ جن محدثین کا اپنا بھی بڑا نام ہے اور ان کی کتب کو بھی بڑی شہرت حاصل ہے ان کی بھی سب سے عالی سند ثلاثی (تین واسطوں والی) ہے۔خود امام بخاری رحمۃُ اللہِ علیہ جن کی کتاب ”صحیح بخاری“ کو احادیث کی کتب میں سب سے افضل کہا جاتا ہے، ان کی سب سے عالی سند ثلاثی ہے۔ امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہکی روایتِ حدیث پر بات کی جائے تو اس حوالے سے عظیم محدث یحییٰ بن معین رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: امام ابو حنیفہ حدیث میں ثقہ تھے۔ صرف اس حدیث کو بیان کرتے تھے جو ان کو اچھی طرح محفوظ ہوتی تھی۔([10])

اقوال: امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کی محدثیت کا بے شمار لوگوں نے  اعتراف کیا ہے، چند اکابرین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:

(1)امام بخاری اور امام ابو داؤد کے استاذ علی بن جعد فرماتے ہیں: اَبُو حَنِیْفَۃَ اِذَا جَاءَ بِالْحَدِیْثِ جَاءَ بِہٖ مِثْلَ الدُّرِّ یعنی امام ابوحنیفہ جب بھی حدیث پیش کرتے ہیں وہ موتی کی طرح پیش کرتے ہیں۔

(2)حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ”اَوَّلُ مَنْ صَیَّرنيِ مُحَدِّثًا اَبُوْحَنِیْفَةَ“ یعنی مجھے محدث بنانے والوں میں  سب سے پہلی شخصیت، امام ابوحنیفہ کی ذات اقدس ہے۔([11])

(3)یزید بن ہارون کہتے ہیں:”کَانَ اَبُو حَنِیْفَةَ نَقِیًّا ․․․ اَحْفَظَ اَہْلَ زَمَانِہٖیعنی امام ابوحنیفہ پرہیز گار ․․․ اور اپنے زمانے کے بہت بڑے حافظِ حدیث تھے۔([12])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])تاریخ بغداد،9/154، 160

([2])مناقبِ امام اعظم للکردری،2/10،اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ،ص75

([3])میزان الشریعہ للشعرانی، 1/82

([4])تاریخ بغداد،13/335

([5])مناقب الامام الاعظم للموفق، 1/95

([6])مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ، ص43

([7])الخیرات  الحسان، ص33

([8])اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، ص18

([9])مسند الامام ابی حنیفۃ للاصبہانی،ص25

([10])سیر اعلام النبلاء،6/532

([11])وفیات الاعیان،2/393

([12])اخبار ابی حنیفہ واصحابہ، ص48


Share