بیٹیوں کے لئے تعلیمی ادارے کا انتخاب

بیٹیوں کی تربیت

بیٹیوں کے لئے تعلیمی ادار ے کا انتخاب

*ام میلاد عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025

تعلیمی ادارہ (Educational institution) ایک ایسی جگہ ہے جہاں مختلف عمر کے لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کا مقصد انسانوں کے کردار کو بہتر بنانا، ان کو اَخلاقی اقدار کا پابند بنانا اور شرم و حیا کے راستے پر چلانا ہے۔تعلیمی ادارے جو انسان کو علم سکھاتے ہیں، ان میں دینی تعلیم سکھانے والے اداروں کا مقام اس اعتبار سے بلند ہے کہ وہ ایسے علم کی ترسیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جبکہ دنیاوی علوم کو سمجھنا اس اعتبار سے لازم و مفید ہے کہ ان کے ذریعے انسان دنیاوی امور کو احسن طریقے سے سرانجام دے پاتا ہے۔ دینی اداروں کا کام جہاں علم کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا ہے وہیں علم کے تقاضوں کو پورا کرنا اور طالبِ علموں کی تربیت کرنا بھی ان اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر ایک دینی ادارے میں ناظرہ قراٰن تو پڑھایا جائے مگر طلبہ کو عمل، خلوص اور ریاکاری سے بچ بچا کر زندگی گزارنے کا راستہ نہ دکھلایا جائے تو سمجھ لیجئے ایسا ادارہ حقیقت میں اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہا ہے۔ اسی طرح وہ تعلیمی ادارےجو انسان کو دنیاوی اعتبارسے علم دیتے ہیں اور جہاں معاشرتی اور عمرانی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کے حوالے سے طلبہ تک علم کی ترسیل کی جاتی ہے اُن اداروں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قراٰن و سنت کی ان بنیادی تعلیمات سے اپنے طالبِ علموں کو ضرور آگاہ کریں جوایک مسلمان کے لئے ضروری ولازمی ہیں۔ اگر کوئی انسان دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ تو ہو لیکن وہ علم کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے غلط راستے پہ چل نکلے اور غرور، تکبر، ریاکاری اور خود پسندی کا شکار ہو جائے تو ایسے تعلیمی ادارے کو کسی بھی طور پر مثالی تعلیمی ادارہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثالی تعلیمی ادارے کی ذمہ داری جہاں انسان کو اچھے اخلاق سے آراستہ و پیراستہ کرنا ہے وہیں شرم و حیا کی دعوت دینا اور اس حوالے سے اس کی راہ نمائی کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ جب ہم شرم و حیا کے حوالے سے کتاب و سنت کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ پاک کو حیا کا وصف بہت زیادہ پسند ہے۔ یہ سمجھناکچھ مشکل نہیں کہ حیا کی کس قدر اہمیت ہے لیکن بدنصیبی سے ہمارے معاشرے میں اس وقت تعلیمی اداروں میں تعلیم تو کسی حد تک دی جا رہی ہے مگر تربیت کے معاملے میں بہت زیادہ کوتاہیوں کامظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اس طرف توجہ دینا ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر غیر اخلاقی سرگرمیاں  ہونے لگی ہیں کہیں موسیقی کے نام پر، کہیں فحش ڈانس پارٹیز نے طلبہ و اساتذہ کا فرق مٹا کر رکھ دیا ہے۔ کہیں ہر ماہ موسیقی کے نام پر لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور ٹیلینٹ ایکسپو کے نام پر ڈانس کئے جاتے ہیں، ہم اس کو ترقی کا نام دے دیتے ہیں، ایک سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے Concert منعقد کرنے سے کسی ماہرِ معیشت نے یہ کہہ دیا کہ اس سے آپ کا ملک ترقی کرے گا؟

ایک طالبِ علم کے تعلیمی دورمیں اچھے اور بہترین تعلیمی ادارے کاانتخاب نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اور جب بات بیٹی کی تعلیمی ادارے کے انتخاب کی ہو تو والدین کو اور زیادہ حساس ہونا پڑتا ہے کیونکہ ایک بیٹی آنے والی نسلوں کی بہترین تربیت بھی ایسے ہی کرے گی جیسی خود حاصل کرے گی۔ بچپن ایک سادہ تختی کی مانند ہوتا ہے۔ اس پر جو کچھ لکھ دیا جائے وہ نقش ہو جاتا ہے۔ اگر عمر کے ابتدائی حصہ میں بیٹی کی تربیت کا اہتمام کیا جائے تو مستقبل میں وہ نسلیں سنوار سکتی ہے۔ یاد رہے! ہر مسلمان عاقِل و بالِغ مردو عورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عَین ہے۔ اِسی طرح ہر ایک کیلئے مسائلِ حلال و حرام بھی سیکھنا فرض ہے۔ نیز مسائلِ قلب (باطِنی مسائل) اوران کو حاصِل کرنے کا طریقہ، باطِنی گناہ اوران کا علاج سیکھنا ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔ مُہلکات یعنی ہلاکت میں ڈالنے والی چیزوں کے بارے میں ضَروری معلومات حاصل کرنا بھی فرض ہے تاکہ ان گناہوں سے بچا جاسکے۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے فتاویٰ رضویہ،23/623، 624) بدقسمتی سے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد فرض علوم سے ناآشنا ہے۔ جدید اور عصری تعلیم کے اداروں میں داخل ہو کر بچے اور بچیاں اپنی اسلامی شناخت کھوتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ یہ عام مشاہدہ ہے کہ جدید اور عصری تعلیم کے اداروں میں یونیفارم کے نام پر غیرمسلموں جیسا لباس پہننا ضروری سمجھا جاتا ہے گویا اس یونیفارم کے بغیر جدید اور عصری تعلیم کا حصول ممکن ہی نہیں۔اسی طرح اسلامی روایات و تعلیمات کے برعکس اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے بجائے ہیلو، ہائے،Good Morning, good afternoon, وغیرہ کہنا تعلیم یافتہ ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جدید اور عصری علوم و فنون کےمعروف اداروں میں وردی (Uniform)اور تہذیب کے نام پر جو بے حیائی و بےپردگی اور عریانی و فحاشی نظر آتی ہے اس میں جدید اور عصری علوم و فنون کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ تو ایک حماقت ہے کہ مسلمان غیروں کی نقل کرنے میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ سنتوں کو بھلا کر نہ صرف اَغیار کے فیشن اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ غیرمسلموں جیسے لباس میں ملبوس ہونا بھی ان کے نزدیک عین سعادت بن چکا ہے حالانکہ جدید اور عصری علوم و فنون تو سنتوں بھرا اسلامی لباس پہن کر بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں، جیسا کہ ہمارے مسلمان دانشوروں اور سائنسدانوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے دائرے میں رہ کر مختلف علوم و فنون میں ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جو آج بھی جدید اور عصری علوم و فنون کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔ فی زمانہ دنیوی تعلیم نہ تو معیوب ہے اور نہ ہی بُری بلکہ اس کے بغیر معاشرہ یقیناً بہت سی مشکلات کا شکار ہوجائے گا، اختلاف طریقۂ کار پر ہوتا ہے کہ اسلامی طریقۂ کار چھوڑ کر غیروں کے طریقے اپنا کر ان کو لازمی جز قرار دیا جائے اور اس سے جو فتنہ پیدا ہوتا ہے وہ معاشرے میں پھر تعلیم عام نہیں کرتا بلکہ بےحیائی عام کرتا ہے۔اسلامی قوانین نافذ کر کے بھی عصری علوم سیکھے سکھائے جا سکتے ہیں اس کے لئے غیروں کی نقالی کرنا لازم نہیں۔اسی لئے بیٹی کی تعلیم و تربیت کے لئے تعلیمی ادارے کا انتخاب کرتے وقت والدین کو ان تمام اُمور پر غور کرنا چاہئے کہ اُس تعلیمی ادارے میں ترقی اور جدّت کے نام پر کہیں فحاشی و عریانی تو عام نہیں ہو رہی؟ تعلیمی ادارے کی ریپوٹیشن کے نام پر بے حیائی کو تو فروغ نہیں دیا جا رہا؟ یونیفارم کے نام پر بے پردگی کو تو پروموٹ نہیں کیا جارہا؟ یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔

افسوس! لوگ فی زمانہ دینی معاملات میں بہت زیادہ سستی کا شکار ہیں۔ اس سستی کو چستی سے بدلنے کے لئے دعوتِ اسلامی خوب سرگرمِ عمل ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی ایسا تعلیمی ادارہ ہو جو دینی و دنیاوی تعلیم کا حسین امتزاج فراہم کرے جس میں پڑھنے والا نہ صرف باوقار مسلمان بنے بلکہ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرکے خودکفیل ہو کر معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرسکے۔ امیرِ اہلِ سنّت علامہ محمد الیاس قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے فیضانِ نظر سے ایک نہایت اہم شعبے کا قیام عمل میں آیا جس کا نام دارُالمدینہ ہے۔ دارُالمدینہ اسلامک اسکول سسٹم کا قیام نونہالانِ امت کو بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ بہترین عصری تعلیم سے روشناس کرنے کے لئے عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا واحد اسکول ہے جس میں Pre-Nursery سے بچہ علما کی صحبت میں رہے گا۔دارُ المدینہ کے قیام کا بنیادی مقصد امتِ مصطفےٰ کی نوخیز نسلوں کو سنتوں کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے دینی و دنیوی تعلیم سے آراستہ کرنا ہے۔

 دارالمدینہ کا نصاب: *جدید تعلیم اور شرعی تقاضوں کے مطابق دارالافتاء اہلسنّت کا تصدیق شدہ تعلیمی نصاب*بنیادی فرض علوم کا مکمل کورس *مذہبی و اخلاقی تربیت* عربی، اردو اور انگریزی زبان میں مہارت کے کورسز * تین سالہ درسِ نظامی * حفظِ قراٰن * اسلامی فنانس * معاشرتی علوم * کمپیوٹر اسٹڈیز * انفارمیشن سیکیورٹی * تاریخ *جنرل سائنس *طَبْعِیّات *حیاتیات *کیمسٹری *جسمانی نشوونما * ماحولیاتی تعلیم *حساب *آرٹس * ہوم اکنامکس۔ امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی خواہش ہے کہ دارُ المدینہ کے اساتذہ باعمل، مدنی علما ہوں۔ اَلحمدُ لِلّٰہ دارُ المدینہ میں باصلاحیت مدنی علما کے ساتھ ساتھ مستند تدریسی عملہ مدنی علما کے زیرِ سایہ کام کر رہا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن


Share

Articles

Comments


Security Code