Book Name:Ghaflat

تھے ، وہ اپنی آخرت کو بھولتے نہیں تھے ، نمازیں چھوڑنا تو دُور کی بات ہے وہ حضرات مستحبات تک کی پابندی کرتے تھے ، حرام میں پڑنا تو دُور کی بات ہے وہ حضرات شبہے والے چیزوں سے بچتے تھے ، وہ دُنیا کی زندگی کو حقیقتاً آخرت کی کھیتی سمجھتے بھی تھے اور اس کھیتی میں آخرت کے لیے آبیاری بھی کرتے تھے ، وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے مالک و مولیٰ کو یاد کرتے تھے ، دن ہو یارات ہر وقت رَبِّ کریم کی یاد میں ڈوبے رہتے تھے ، لیکن ان تمام کیفیات کے باوجود وہ یہی سمجھتے کہ ہم نے غفلت میں زندگی گزار دی ، ہم نے زندگی کے مقصد کو نہ پایا ، ہم دُنیا کی مَحَبَّت میں مبتلا رہے ، ہم نے کچھ بھی نہ کیا۔

                             یعنی ہمارا حال یہ ہے کہ ہم غفلت میں زندگی گزار کر بھی یہ سمجھتی ہیں کہ بہت اچھی اور کامیاب زندگی گزاری ہے جبکہ ہمارے اَسلاف کامیاب اور عبادتوں بھری زندگی گزار کر بھی سمجھتے کہ ہم نے غفلت کی زندگی بسر کی ہے۔ آئیے! اسی خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کے لیے اس بارے میں بُزرگوں کی کچھ حکایتیں سنتی ہیں :

سجدہ تو کیا مگر غفلت سے

                             چنانچہ حضرت امام محمد بن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : حضرت شیخ ابوعلی دَقّاق رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نےفرمایا : ایک بہت بڑے ولیُّ اللہ سخت بیمارتھےمیں ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوا ، میں نے اُن کےاِردگرد اُن کےشاگردوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا ، وہ بُزرگ رو رہے  تھے ، میں نےعرض کی یا شیخ!کیاآپ دُنیا پر رو رہے ہیں؟ فرمایا : نہیں بلکہ نمازیں قضا ہونےپر رو رہا ہوں۔ میں نے کہا : آپ تو عبادت گزار شخص تھے پھرنمازیں کس طرح قضا ہوئیں؟فرمایا : میں نے جب بھی سجدہ کیاتو غفلت کے ساتھ اور جب