Book Name:Naza aur Qabr Ki Sakhtian-1442

لڑکھڑاتے ، کٹ کٹ کر جہنّم میں گِر رہے ہوں گے۔  ([1]) نہ جانے اُس دِن ہمارا کیا حال ہو گا؟ ہم جہنمیوں کی صَف میں ہوں گے یا اَہْلِ جنَّت کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ پتا نہیں سلامتی کے ساتھ پُل صراط سے گزر ہو سکے گا یا نہیں ہو پائے گا۔

اس کڑی دھوپ کو کیوں کر جھیلیں             شعلہ زَن نار ہے ، کیا ہونا ہے؟

راہ تَو تیغ پر اور تلووں کو                        گلۂ خار ہے ، کیا ہونا ہے؟

بیچ میں آگ کا دریا حائل                       قَصْد اُس پار ہے ، کیا ہونا ہے؟

منہ دکھانے کا نہیں اور سحر                    عام دربار ہے ، کیا ہونا ہے؟

اُن کو رحم آئے تو آئے ورنہ                 وہ کڑی مار ہے ، کیا ہونا ہے؟([2])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                                               صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

اے جنت کے طلب گار پیارے اسلامی بھائیو! خُدا کی قسم !قیامت کا دِن سخت ہولناک دِن ہے۔ بڑے بڑے اَوْلیائے کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ اس دِن کی ہولناکی اور اللہ پاک کی بےنیازی کو دیکھ کر تھرتھراتے ، خوف سے کانپتے اور روتے ہی رہا کرتے تھے۔

حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  پاکپتن شریف والے ، جن کے دربارِ پُرانوار کے قریب لگے ہوئے ایک دروازے کو جنتی دروازہ کہا جاتا ہے ، بزرگوں کی دُعا ہے کہ جو اس دروازے سے گزر جائے اللہ پاک اسے نیک اَعْمَال کی توفیق عطا فرمائے گا اور اپنے کرم سے جنّت میں داخِلہ نصیب فرمائے گا ، آئیے! خواجہ فریدُ الدِّین گنج شکر رَحْمَۃُ


 

 



[1]...بہار شریعت ، جلد : 1 ، صفحہ : 147 ، حصہ : 1بتغیر قلیل۔

[2]...حدائق بخشش ، صفحہ : 168-169۔