Book Name:Ghous Pak Ki Ibadat o Riyazat

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوکہ ہم توجب بھی عبادت کرنے لگتے ہیں تو کچھ ہی دیر میں تھک جاتے ہیں نیز ہمارا دل بھی پوری طرح عبادت میں نہیں لگتا اور خُشوع و خُضوع حاصل نہیں ہوتا ، لیکن یہ بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الۡمُبِیۡن  اتنی زیادہ عبادت کیسے کیا کرتے تھےاور ان کے دلوں میں عبادت  کا اتنا ذوق و شوق کیسے پیدا ہوجاتا تھا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ  نیک بندوں کے دل محبتِ الہی اور تقویٰ سے آباد ہوتے ہیں ، یہ اپنے دلوں سے دنیا کی محبت نکال دیتے ہیں ، ان کی روحیں ذکرِ الہی کے بغیر بے چین و بے قرار رہتی ہیں ، اس لئے وہ ہر لمحہ یادِ الہی میں مگن رہتے ہیں اور بندے کو یہ مقام عبادت و ریاضت میں سخت محنت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔  بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن  کی سیرت کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا کا قُرب حاصل کرنے اور  دنیاکی محبت  کو دل سے نکالنے کے لئے بہت سختیاں جھیلتے  اور ریاضتیں کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ ،

سردرات میں چالیس بارغسل

بَہْجَۃُ الاَسرار شریف میں ہے ، سرکارِ بغداد حضور ِغوثِ پاک شیخ عبد القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں ، میں “ کَرخ “ کے جنگلوں میں برسوں رہا ہوں ، درخْتْ کے پَتّوں اوربُوٹیوں پر میرا گزارہ ہوتا۔ مجھے پہننے کے لیے ہر سال ایک شخص صُوف  ( یعنی اُون)  کا ایک جُبّہ لاکر دیتا تھا جس کو میں پہنا کرتاتھا۔ میں نے دنیا کی مَحَبَّت سے نَجات حاصل کرنے کے لیے ہزار جَتَن کیے ، میں گُمنام رہا ، میری خاموشی کے سبب لوگ مجھے گُونگا ، نادان اوردیوانہ کہتے تھے ، میں کانٹوں پر ننگے پاؤں چلتا ، خوفناک غاروں اوربھیانک وادیوں میں بے جھجک داخِل ہو جاتا ۔ دُنیا بن سنور کر میرے سامنے ظاہر ہوتی مگراَلْحَمْدُ لله  میں اُس کی طرف اِلْتِفَات (یعنی توجُّہ) نہ کرتا۔ میرا نَفْس کبھی میرے آگے عاجِزی کرتا کہ آپ کی جو مرضی ہوگی وُہی کروں گاا ورکبھی مجھ سے لڑتا۔ اللہ  پاک مجھے اس پر فتْح نصیب کرتا۔ میں