Book Name:Shab e Meraj Nawazshat e Mustafa

میدانِ محشر کو شَرْف بخشا

پیارے اسلامی بھائیو! معراج کا سَفَر ہے، سرکارِ عالی وقار، مکی مدنی تاجدار صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم اپنے رَبِّ کریم سے ملاقات کے لئے تشریف لے جا رہے ہیں اور راستے میں مخلوق پر نوازشاتِ مصطفےٰ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی برسات ہو رہی ہے۔ ایک سُوال ذہن میں اُٹھتا ہے، اللہ پاک نے حضرت جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام کو بھیجا، محبوبِ اکرم، نورِ مجسم صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کو اپنی پاک بارگاہ میں بُلایا تَو سَفَرِمعراج میں منزل کیا تھی؟ یقیناً اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضِر ہونا تھا، آسمان، سِدْرَۃ المنتہیٰ،عرش، لامکاں تک جانا تھا، سُوال یہ ہے کہ سَفَرآسمانوں کی طرف کرنا تھا، اگر حُضُورِ اکرم، نُورِ مجسم صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم مکہ مکرمہ سے سیدھے آسمانوں کی طرف تشریف لے جاتے،مقصود پُورا ہو رہا تھا، آسمان کا فاصلہ مکہ مکرمہ سے بھی اُتنا ہی ہے، مسجدِاقصیٰ سے بھی اُتنا ہی ہے، پھر ہمارے آقا و مولیٰ، مُحَمَّد مصطفےٰ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم مَسْجِدِ اقصیٰ میں کیوں تشریف لے گئے؟ مکہ مکرمہ سے سیدھے آسمان کا رُخ کیوں نہ فرمایا؟ عُلَمائے کرام پر اللہ پاک رحمت کی نظر فرمائے، انہوں نے اس سُوال کے کئی جواب ارشاد فرمائے ہیں،مسجدِ اقصیٰ تشریف لے جانے کی کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں، ان میں سے ایک حکمت بیان کرتے ہوئے عُلَما فرماتے ہیں: لِتَتَشَرَّفَ اَرْضُ الْمَحْشَرِ یعنی زمین کے جس خطّے پر مسجدِ اَقْصیٰ واقع ہے، (زمین کا یہ خطہ پہلے مُلْکِ شام کی حُدُود میں تھا اور مُلْکِ  شام وہ سرزمین ہے کہ) یہاں روزِ قیامت میدانِ محشر سجے گاتَو حُضُورِ اکرم،نُورِ مجسم صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم پہلے مسجدِ اَقْصیٰ تشریف لے گئے تاکہ میدانِ محشر کی سرزمین پررحمت والے قدم لگ جائیں، میدانِ محشر کی سرزمین کو شرف مل جائے۔([1])


 

 



[1]...تفسیر روح المعانی، پارہ:15، سورۂ اسراء، زیرِ آیت:1، جزء:15، جلد:8، صفحہ:18۔