Book Name:Tilawat e Quran Kay Shoqeen

پریشانی میں مبتلا ہوں گے مگر جو شخص قرآنِ مجید کا حافِظْ ہو گا ، اسے اور اس کے والدین  نُورِ رحمت کے سائے میں ہوں گے ، ان پر سورج کی گرمی اَثَر نہیں کرے گی۔ یہ سُن کر سلطان محمود نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا : افسوس! ہمارے بیٹوں میں کوئی بھی حافِظِ قرآن نہیں ہے ، لہٰذا میں تو یہ سَعَادت حاصِل نہیں کر پاؤں گا۔

اس مجلس میں سلطان محمود کا بیٹا خلیل خان بھی موجود تھا ، عید کے بعد خلیل خان دوسرے شہر میں چلا گیا اور قرآنِ کریم حِفْظ  کرنا شروع کر دیا ،  خلیل خان دِن رات محنت کرتا رہا ، قرآنِ کریم کی خوب تِلاوت کی ، خوب محنت کے ساتھ قرآنِ مجید حِفْظ کرتا رہا ، یہاں تک کہ آنکھوں میں سُرخی آگئی ، ڈاکٹر نے کہا : رات کو جاگنے اور تِلاوت کی کثرت کی وجہ سے آنکھوں میں سرخی آئی ہے ، لہٰذا کچھ دِن کے لئے آرام فرمائیں۔ خلیل خان نے تڑپ کر کہا : آنکھیں سرخ ہو گئی ہیں تو کیا ہوا ، اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! یہ سُرخی دُنیا و آخرت میں سُرخروئی (یعنی کامیابی) دِلوائے گی ، میں اپنی پڑھائی میں کمی نہیں کر سکتا۔ آخر ایک سال تک دِن رات محنت کرنے کے بعد خلیل خان حافِظِ قرآن بَن گیا اور آیندہ سال اپنے والد سلطان محمود کے پاس پہنچا اور کہا : اس سال رمضان المبارک میں تراویح میں سُناؤں گا۔ سلطان نے حیرت سے پوچھا : تم کب سے حافِظ بنے؟ خلیل خان نے والِد کو وہی واقعہ یاد دِلایا اور عُلَمائے کرام کی گفتگو یاد کروائی اور کہا : بَس اسی وقت سے میں نے قرآنِ مجید حِفْظ کرنا شروع کر دیا تھا اور اب میں حافِظ ہوں۔ سلطان محمود نے اپنے ہونہار بیٹے کو تراویح پڑھانے کی اجازت دی ، خلیل خان نے پہلے دِن تراویح میں پُورا قرآنِ کریم ختم کیا ، سلطان پیچھے کھڑا سُنتا رہا ، دوسرے دِن پھر پُورا قرآنِ کریم ختم کیا ، سلطان پیچھے کھڑا