Book Name:Ahle-Taqwa Kay 4 Ausaf

قناعت کا معنی ہے : قسمت پر راضی رہنا۔ یہ بھی تقویٰ کے لئے بنیادی وَصْف ہے ، جس کو قناعت نصیب نہ ہو ، اس کا گُنَاہوں سے بچ پانا بہت دُشوار ہوتا ہے ، بہت سارے ایسے گُنَاہ ہیں جو حِرْص اور لالچ ہی کی وجہ سے ہوتے ہیں*  لالچ کی وجہ سے ہی رشوت کا لین دین ہوتا ہے * لالچ ہی کی وجہ سے سُودی کاروبار کئے جاتے ہیں * لالچ ہی کی وجہ سے حرام ذرائع سے مال حاصِل کیا جاتا ہے * لالچ میں آ کر ہی لوگ یتیموں کاحق مارتے ہیں * لالچ میں آکر بھائی بھائی کا قتل بھی کر ڈالتا ہے * حتی کہ بعض لالچی طبیعت کے لو گ غیر مسلم ملکوں میں جانے کے لئے اپنے آپ کو کافِر بھی لکھ دیتے ہیں۔

لہٰذا جو بندہ اللہ پاک کے دئیے پر راضی ہو کر قناعت اختیار نہ کرے ، اس کا گُنَاہوں سے بچنا انتہائی دُشوار ہے اور جو گُنَاہوں سے نہیں بچ پائے گا ، وہ متقی کیسے بنے گا؟

قناعت سے متعلق اَہْلِ تقویٰ کے 2 واقعات

* حضرت محمد بن واسِع  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نمک اور سِرْکے کے ساتھ روٹی کھایا کرتے تھے ، آپ فرماتے تھے : جو بندہ اتنی سی دُنیا پر راضِی ہو جائے وہ لوگوں کے سامنے ذِلّت سے بچ جاتا ہے۔ ([1])  * حضرت سفیان ثوری  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : آج کے زمانے میں جو بندہ جَو کی روٹی پر قناعت نہ کرے ، وہ ذِلّت و رُسْوائی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت سفیان ثوری  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کی خدمت میں عرض کیا : کیا میں مال جمع کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا : مال جمع کرنے میں 5 بُرائیاں ہیں : : اس سے اُمِّید لمبی ہوتی ہے (حالانکہ


 

 



[1]...تنبیہ المغترین ، صفحہ : 100۔