Book Name:Ahle-Taqwa Kay 4 Ausaf

دے کر ، کفن پہنا کر اندھیری قبر میں اُتار دیا جائے گا ، پھر ہم ہوں گے اور ہمارے اَعْمَال ہوں گے ، اس کے سِوا کچھ بھی ہمارے ساتھ نہیں جائے گا۔ مقامِ غور ہے! ہم نے اس دُنیا میں کچھ ہی وقت گزارنا ہے ، وہ بھی کتنا ہے؟ ہمیں معلوم نہیں ، ہو سکتا ہے اگلی سانس بھی لینے کا  موقع نہ مل پائے۔ اس کے باوُجُود ہم جتنا اس دُنیا کے لئے کرتے ہیں؟ چلو اتنی نہیں اس سے آدھی ہی سہی ، کیا ہم قبر کے لئے تیاری کرتے ہیں؟   شاید نہیں کر پاتے۔

اَہْلِ تقویٰ اور موت کی تیاری

ہمارے اسلاف (یعنی اللہ پاک کے نیک بندے جو متقی تھے ، پرہیز گار تھے) انہیں بَس قبر و آخرت کی فِکْر رہتی تھی اور یہ ہر وقت موت کی تیاری میں ہی مَصْرُوف رہا کرتے تھے۔ * خواجہ سِرِّی سَقطی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  98 سال دُنیا میں تشریف فرما رہے ، نزع کے وقت کے عِلاوہ کسی نے آپ کو کبھی لیٹے ہوئے نہ دیکھا ، ہمیشہ عبادت کیا کرتے * محمد  جریری  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  ایک سال مکہ مکرمہ میں رہے ، نہ سوئے ، نہ پیٹھ سیدھی کی ، نہ پاؤں پھیلائے ، نمازِ فجر پڑھ کر ذِکْرُ اللہ شروع کرتے ، ظہر ہو جاتی ، ظہر کے بعد پھر ذِکْرِ اِلٰہی میں مَصْرُوف ہوتے ، یہاں تک کہ عصر ہو جاتی ، عصر سے مغرب تک ، مغرب سے عشا تک ، عشاسے پھر فجر تک بیٹھے ذِکْرُ اللہ ہی کرتے رہتے * حضرت ابو بکر عیاش  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  روزانہ 30 ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھتے ، روزانہ 500 نوافل پڑھتے ، دِن میں کئی کئی ختمِ قرآن کیا کرتے * امام اعظم ، امام ابو حنیفہ  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے 40 سال عشا کے وُضو سے فجر کی نماز ادا کی ، ہر رات 2 رکعت میں قرآنِ کریم ختم کیا کرتے۔ ([1])


 

 



[1]...جواہِرُ البیان ، صفحہ : 32-33۔