Book Name:Ahle-Taqwa Kay 4 Ausaf

نہیں ہیں جسے موت آئے گی (یعنی آپ سے پہلے بھی کئی بادشاہ ہو چکے ہیں)۔ یہ سُن کر حضرت عمر بن عبد العزیز  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  رونے لگے ، پھر فرمایا : اور نصیحت کیجئے! حضرت یزید رقّاشی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے کہا : آپ سے لے کر حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام تک آپ کے جتنے آباء و اَجْداد ہیں ، ان میں سے کوئی بھی اب زندہ نہیں ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  پھر روئے اور فرمایا : مزید نصیحت کرو!  حضرت یزید رقّاشی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے کہا : جنّت اور دوزخ کے درمیان کوئی منزل نہیں ہے (یعنی ہمارا ٹھکانا یا تو جہنّم ہے یا جنّت ہے ، اس کے سِوا اور کوئی جگہ نہیں)۔ یہ بات سُن کر تو حضرت عمر بن عبد العزیز رَحْمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه پر خوفِ خُدا خُوب غالِب آیا اور آپ بےہوش ہو کر زمین پر تشریف لے آئے۔ ([1])

 اے عاشقانِ رسول ! دیکھئے! کیسا  خوفِ خُدا ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  خلیفہ تھے ، آپ کے پاس حکومت تھی ، تاج و تخت تھا ، اختیارات تھے ، یہ وہ چیزیں ہیں جو عُمُوماً لوگوں کو سرکش بنا دیتی ہیں ، حکومت ، عہدہ ، اختیارات مِل جائیں تو لوگ گُنَاہوں پر دلیر ہو جاتے ہیں لیکن حضرت عمر بن عبد العزیز  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  خلیفہ بننے سے پہلے بھی متقی تھے ، خلیفہ بننے کے بعد بھی متقی ہی رہے ، آپ نے اپنے دورِ حکومت میں ظلم نہیں کیا ، لوگوں کے حقوق پامال نہیں کئے بلکہ عدل و انصاف قائِم کیا ، کیوں؟ اس لئے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کے دِل میں خوفِ خُدا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

خوفِ خُدا کیسے ملے؟

معلوم ہوا گُنَاہوں سے بچنے اور تقویٰ حاصِل کرنے کے لئے خوفِ خُدا بہت ضروری


 

 



[1]...تنبیہ المغترین ، صفحہ : 49ملتقطاً۔