Book Name:Iman Ki Hifazat

اگر ایمان پر مرے تو ایمان پر اُٹھے گا  اگرچہ زندگی میں کفر پر رہا ہو۔ (مرآۃ المناجیح ، ۷ / ۱۵۳بتغیر)علامہ عبد الرء ُوف مناوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : حضرت امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے اس حدیث سے یہ نکتہ نکالا ہے کہ بانسری بجانے والا قیامت کے دن اپنی بانسری کے ساتھ آئے گا ، شرابی اپنے جام کے ساتھ جبکہ مؤذن اذان دیتا ہوا آئے گا۔  (التیسیر ، حرف الیاء ، ۲ / ۵۰۷)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                            صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

پیارے پیارےاسلامی بھائیو!بیان کردہ احادیثِ کریمہ  سے معلوم ہوا!ایمان کی حفاظت کرنے کے معاملےمیں سُستی نہیں کرنی چاہئے اور اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ ہم تو پیدا ہی مسلمان ہوئے ہیں ، ہمارے ماں باپ ، دادا ، دادی اور خاندان کے سبھی لوگ مسلمان تھےلہٰذا ہم بھی مسلمان ہیں اور مسلمان ہی مریں گے۔ ممکن ہے ساری زندگی ہم ایمان پر قائم رہیں ، زندگی بھر خوب نیکیاں بھی کرتے رہیں مگر مرنے سے پہلے مَعاذَ اللہ زبان سے کوئی کفر نکل جائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب نہ ہو۔ لہٰذاہمیں ہر وَقْت اپنے ایمان کی سلامتی کیلئے دُعائیں اور مرتے وقت ایمان کی حفاظت کیلئے فکر کرنی چاہیے۔ عُلمائے کرام فرماتے ہیں : جس کو زندگی میں سَلْبِ ایمان یعنی اِیمان چھن جانے کا خوف نہ ہو  نزع یعنی مرتے وقت اُس کا ایمان سَلْب ہوجانے(یعنی چھن جانے)کا شدید خطرہ  ہے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص۴۹۵ بتغیرقلیل)لیکن افسوس !آجکل ہماری اکثریت کو ایمان کی سلامتی کی فکرہی نہیں ،  فکر ہے تو اپنا بینک بیلنس(Bank Balance)بڑھانے کی ، فکر ہے تو ایک دوسرے پر دُنیوی برتری  حاصل کرنے کی ، فکر  ہے تو عزّت وشہرت کمانے کی ، حالانکہ ہم میں سے کسی کے پاس اس بات کی  گارنٹی نہیں کہ مرتے وقت ہمارا ایمان سلامت بھی رہے گا یا نہیں۔ مَعَاذَ اللہ گناہوں کی نحوست کے سبب  ہمارا ایمان برباد ہوگیا تو کیا کریں گے  ؟حضرت  ابودرداء رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرمایا کرتے تھے : خُدا پاک کی قسم! کوئی شخص اس بات سے مطمئن نہیں ہوسکتا   کہ مرتے وقت اس کا ایمان باقی رہے گا یا نہیں۔ (کیمائے سعادت ، پیدا کردن سوء خاتمت ، ۲ / ۸۲۵ )