Book Name:Talib e Ilm e Deen Par Karam Ho Gaya

پڑھنا شروع کر دی، نماز کے بعد میں دُعا مانگی، ابھی میں دُعا سے فارِغ بھی نہیں ہوا تھا کہ مسجد میں ایک نوجوان داخِل ہوا، اس نے پوچھا: حَسَن بن سفیان کون ہے؟   میں نے کہا: میں ہوں۔ نوجوان بولا: ہمارے شہر کے حاکم طولُون نے آپ کے لئے کھانا بجھوایا ہے۔

میں نے حیرانی سے پوچھا: حاکِم کو ہمارے بارے میں کیسے معلوم ہوا؟ وہ نوجوان بولا: میں خادِم ہوں، آج صبح مجھے ہمارے حاکِم نے بُلایااور کہا: فُلاں محلے کی فُلاں مسجد میں جاؤ، وہاں دِین کے طالِبِ عِلْم ہیں، وہ 3 دِن اور 3 راتوں سے بھوکے ہیں، انہیں کھانا بھی پہنچاؤ اور کچھ رقم بھی  دے آؤ! اور  ہاں! میری طرف سے معذرت بھی کرنا کہ مجھے ان کی حالت کا عِلْم نہ ہو سکا، کل میں خود ان کی بارگاہ میں حاضِر ہو کر معافی مانگوں گا۔

وہ نوجوان کہتا ہے: حاکِمِ شہر کی یہ باتیں سُن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی، میں نے پوچھا: عالی جناب! آخر اس عنایت کا سبب کیا ہے؟ حاکِم بولا: رات میں بستر پر لیٹا، ابھی آنکھیں بند ہی ہوئی تھیں کہ میں نے خواب میں دیکھا: ایک گھوڑے سوار ہے، اس کے ہاتھ میں ایک نیزہ ہے، اس نے نیزے کی نوک میرے پہلو میں رکھ دی اور کہا: فوراً اُٹھو اور حسن بن سفیان اور ان کے ساتھیوں کی مدد کرو! وہ راہِ عِلْمِ دین کے مُسَافِر ہیں، 3 دِن اور 3 راتوں سے بھوکے ہیں، تیرے شہر کی فُلاں مسجد میں قیام فرما ہیں۔ حاکِم کہتا ہے: میں نے اس گھوڑے سوار سے پوچھا: آپ کون ہیں؟ بولا: میں اللہ پاک کا ایک فرشتہ ہوں اور تمہیں طلبائے عِلْمِ دِین کی اس حالت سے خبردار کرنے آیا ہوں، اب دیر نہ کرو! فوراً اُن کی خِدْمت کا انتظام کرو! اتنا کہنے کے بعد وہ گھوڑے سوار میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔([1])


 

 



[1]...عُیُون الحکایات، حصہ اول، صفحہ:181تا184خلاصۃً۔